پنجاب کی سات یونیورسٹیز میں انٹرویو اور ضابطہ کار مکمل ہونے کے باوجود حکومت تاحال وائس چانسلرز کی تقرریاں نہیں کر سکی ۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے بارے میں یہ تاثر موجود رہا ہے کہ وہ سرکاری اداروں میں تقرریوں بالخصوص اعلیٰ انتظامی عہدے اپنے منظور نظر افراد کو نوازتے تھے اس کی دلیل 52 کمپنیوں میں لاکھوں روپے معاوضے پر چہیتوں کی تقرریاں ہیں۔تاثر یہ ہے کہ ایسا خلاف ضابطہ احکامات کی تعمیل کے لیے کیا جاتا تھا ۔جن اداروں میں ایسا کرنا ممکن نہ ہوتا ان اداروں کے سربراہوں کی تقرری میں دانستہ تاخیر کی جاتی تاکہ کسی جونیئر کٹھ پتلی افسر کو عہدے پر بٹھایا جا سکے اور جہاں یہ بھی ممکن نا ہوتا وہاں اصول پسند سربراہ کو اس قدر ذہنی دبائو کا شکار کیا جاتا کہ وہ خود عہدے سے استعفیٰ دینے میں عافیت جانتاتھا۔ پنجاب یونیورسٹی کی اراضی حکومت کو خلاف ضابطہ دینے سے انکار پر ایک وی سی کا استعفیٰ دینا اس کا ثبوت ہے۔یہاں تک کہ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا۔ یہ حکومتی رویہ صرف پنجاب یونیورسٹی تک ہی محدود نہ تھا بلکہ گزشتہ دور حکومت میں پنجاب کی متعدد یونیورسٹیز میں وی سی کے عہدے پر تقرریاں بھی نہ کی جا سکیں۔جب میڈیا پر واویلا مچا تو پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو تقرریوں کی ذمہ داری سونپ کرمعاملہ کو مزید پیچیدہ کر دیا گیا۔ اب ایچ ای ڈی نے خدا خدا کر کے 7 یونیورسٹیز میں وی سیز کے نام فائنل کئے ہیں تو نگران حکومت کی طرف سے لیت ولعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ابھی تو صرف سات یونیورسٹیز کے وی سیز کے نام فائنل ہونے ہیں جبکہ درجن بھر یونیورسٹیز میں وی سیز کی تقرری کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے بہتر ہو گا ۔فوری طور پر ایچ ای ڈی کی جانب سے تجویز کئے گئے امیدواروں کی تقرری کے نہ صرف احکامات جاری کرے بلکہ باقی یونیورسٹیوں میں بھی بلا تاخیر اہل اور موزوں افراد کو وی سی مقرر کیا جائے۔