ملک کی یونیورسٹیوں کو بند ہوئے چار مہینے گزر چکے ہیں۔ اس عرصے میں نہ حکومت کو خیال آیا نہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹیوں کو کہ طلبہ کی تعلیم کا جو حرج اور نقصان ہورہا ہے، اس کی تلافی کیسے کی جائے۔ خداخدا کرکے اب جو خیال آیا اور آن لائن کلاسیں شروع کی گئیں تو اس نئے تجربے نے اتنے مسائل پیدا کردیئے اور اتنی دشواریاں اور رکاوٹیں پیش آرہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ کلاسوں کے نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے۔ یہ سلسلہ اور زیادہ بہتر اور مفید ہوجاتا اگر ایچ ای سی اور یونیورسٹیوں کی انتظامیہ آن لائن کلاسوں کو منظم طریقے سے شروع کرنے کا پیشگی انتظام کرلیتیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب یہ تجربہ کیا گیا تو سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے طلبہ اسلام آباد میں احتجاج کرنے نکل آئے کہ انہیں آن لائن کلاسیں نہیں لیتی۔یہ صورتحال اس لئے پیدا ہوئی کہ آن لائن کلاسیں نہایت تاخیر سے اور افراتفری میں شروع کی گئیں۔ اس کے نتائج و اثرات اور دشواریوں اور مسائل پر غور نہیں کیا گیا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں پر طالب علم کی انٹرنیٹ تک رسائی نہ ہو، طلبہ کی بڑی تعداد دیہی علاقوں کی باسی ہو جہاں نیٹ کی سہولتیں ہی دستیاب نہ ہوں۔ شہروں میں لوڈشیڈنگ اور آئے دن بجلی کا تعطل معمول بنا ہو۔ پھر یہ طالب علم کو نیٹ کے اخراجات برداشت کرنے کا متحمل بھی نہ ہو۔ اس سے بڑھ کر یہ طالب علم کے پاس کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ بھی موجود نہ ہو نیز تمام اساتذہ کمپیوٹر کے استعمال اور بالخصوص آن لائن کلاسیں لینا بھی نہ جانتے ہوں تو محص ایچ ای سی کے حکم نامے کی روشنی میں کلاسیں لینے کا آن لائن تجربہ تاحال بہت زیادہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکا ہے۔ وجہ یہ بھی ہے کہ جو شعبے بڑے ہیں اور جن میں طلباء و طالبات کی تعداد بہت زیادہ ہے مثلاً ڈھائی تین سو کی تعداد ہے۔ ان کلاسوں کو آن لائن تعلیم کیسے دی جائے۔ آن لائن کلاس اگر سلیقے اور منظم طریقے سے لی جاسکتی ہے تو طلبہ کی تعداد پندرہ سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ عملی دشواریاں بھی بہت سی ہیں مثلاً ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ استاد کو آن لائن کلاس لیتے ہوئے یہ پتہ چلانا دشوار ہے کہ دوسری طرف کتنے طالب علموں نے اخراجات سے بچنے کیلئے اپنے کیمرے بند کردیئے ہیں۔ غور کیا جائے تو ایچ ای سی اور یونیورسٹیوں نے فروری سے مئی تک جو چار مہینے ضائع کردیئے، اگر اس عرصے میں اساتذہ کو آن لائن کلاسیں لینے کی تربیت دے دی جاتی۔ آن لائن کلاسیں لینے کے ممکنہ مسائل پر غور کرکے ان کا پہلے ہی سے حل تلاش کرلیا جاتا۔ طلبہ اور اساتذہ کو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھا لئے جاتے تو یہ بدنظمی اور افراتفری، جو اب نظر آرہی ہے، اس پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ سائنس کے طلبہ کو درپیش ہے کیونکہ آن لائن کلاسوں میں پریکٹیکل کیسے کرائے جائیں۔ سوشل سائنسز کے مضامین تو بیشتر نظری تعلیم ہوتی ہے لیکن سائنسز میں معاملہ مختلف ہے۔ وہاں لیبارٹریاں اور تجربات ہوتے ہیں، ان کے بغیر تعلیم مکمل نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کا بھی ابھی تک کوئی حل تلاش نہیں کیا گیا۔ سوشل سائنسز میں بعض شعبے مثلاً ابلاغ عاملہ میں ویڈیو اور ٹی وی لیب یا اسٹوڈیو ہیں، جہاں طلبہ پروگرام تیار کرتے ہیں۔ پروگراموں میں تیاری کا یہ کام آن لائن کیسے ہو؟ ایچ ای سی نے آن لائن کلاسوں کی مد میں یونیورسٹیوں کو گرانٹ بھی دی ہے لیکن یہ رقم بہت کم بھی ہے اور یہ بھی نہیں معلوم کہ اس گرانٹ کو کس حساب میں خرچ کیا جائے مثلاً کراچی یونیورسٹی کو ایک کروڑ روپے کی گرانٹ چالیس ہزار طلبہ کیلئے دی گئی ہے جو ایک اطلاع کے مطابق ابھی تک استعمال نہیں کی گئی۔ سوال یہ بھی ہے کہ استعمال کی بھی جائے تو کیونکر۔ مثلاً پی ٹی سی ایل یا کسی کمپنی سے رابطہ کرکے طالب علموں کو نیٹ کی سہولت فراہم کرنے کا اہتمام کیا بھی جائے تو طلبہ کی اتنی بڑی تعداد کیلئے یہ رقم بہت ناکافی ہے۔ ہمیں مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ جو حکومت تعلیم میں انقلابی اقدامات کے ساتھ برسراقتدار آئی ہے، اس کی دلچسپی تعلیم اور طالب علموں سے کتنی ہے، اس کا اندازہ مذکورہ صورتحال سے لگایا جاسکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے نظام تعلیم اور تعلیم پر جو افتاد پڑی ہے اس کی جڑیں بہت گہری اور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ملک کے قیام کے بعد ہی سے تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی۔ بجٹ میں تعلیم کی مد میں جو رقوم رکھی جاتی رہی ہیں۔ وہ شرمناک حد تک کم ہو رہی ہے۔ یونیورسٹیوں کی تعدادمیں اضافہ تو ہوتا رہا لیکن فیکلٹی ڈویلپمنٹ پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ سفارش ‘اقربا پروری ‘ سیاسی دبائو اور اثرورسوخ کے نتیجے میں ایسے اساتذہ کی بھرتیاں عمل میں لائیں۔ درس و تدریس جن کا passionتھا ہی نہیں۔ اہل اور لائق طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لئے ملک سے باہر سدھار گئے یا انہوں نے بہترین تنخواہوں والی ملازمتوں کو ترجیح دی۔ یونیورسٹیوں کے حالات جیسے جیسے دگرگوں ہوتے گئے۔بہترین اساتذہ بننے کی صلاحیت رکھنے والے درس و تدریس کے پیشے سے کٹتے چلے گئے۔ چنانچہ اب صورتحال یہ ہے کہ دوسرے اور تیسرے درجے کے اذہان تدریس جیسے اہم پیشے کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔دوسری طرف طلبہ کا حال احوال یہ ہے کہ بنیادی تعلیم کے کمزور خطوط پراستوار ہونے‘ کالجوں میں معیاری تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ ذہنی پستی کا شکار ہوتے چلے گئے ہیں یونیورسٹیوں میں زیادہ تر ایسے طلبہ آتے ہیں جنہیں کتابیں پڑھنے سے ذرا رغبت نہیں معلومات کے حصول کی جن کے اندر نہ تجسس ہے اور نہ خواہش۔ وہ کلاسوں میں آتے ضرور ہیں لیکن سیکھنے اور جاننے کے لئے نہیں‘ محض حاضری لگانے کے لئے‘ وہ بھی اس خوف سے کہ اگر مطلوبہ فی صدی تک حاضری نہ ہوئی تو امتحانات میں بیٹھنے سے روک نہ لیا جائے۔ یہ کالم نگار گزشتہ تیس پینتیس برسوں تک درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہا ہے اور اسے یہ کہنے میں باک نہیں کہ ہمیشہ اسی قلق میں مبتلا رہا کہ ایسے پیشے میں آیا ہی کیوں۔ جہاں ایک ہی اصطبل میں گھوڑے بھی باندھے جاتے ہیں اور گدھے بھی۔ لکھنے پڑھنے اور اچھا پڑھانے کے شوقین اساتذہ او ان اساتذہ میں جو سرے سے لیاقت و علمیت سے محروم ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ دونوں میں کوئی فرق ہی نہیں کرتی۔ دونوں کو ایک ساتھ ترقی ملتی ہے کسی نالائق استاد کی ترقی روکی جائے تو اسے ترقی دلانے کے لئے ٹیچرز کی انجمنیں حرکت میں آ جاتی ہیں اور اساتذہ حقوق کے نام پر اسے ترقی دلانے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں۔ جب یہ صورت حال عام ہوئی تو نالائق اساتذہ نے ٹیچرز انجمنوں کی سیاست میں حصہ لینا اپنا شعار بنا لیا۔ اس چھتری تلے انہیں ترقی کے ساتھ ساتھ ایسی مراعات بھی مل جاتی ہیں جن کے وہ کسی طرح حقدار نہیں ہوتے۔ جب معاملات یونیورسٹیوں کے اسی انداز میں اور اسی رخ پر چلتے رہیں گے تو آن لائن کلاسیں ہوں یا نہ ہوں کیا فرق پڑتا ہے؟جب کلاس روم ٹیچنگ سے تعلیم کا معیار بلند نہ ہو رہا ہو تو گھروں میں بیٹھ کر آن لائن کلاسوں سے طلبہ کو کیا مل جائے گا اور اساتذہ انہیں کون سا علم اور کون سی فکر عطا کر دیں گے۔ جب یہ یونیورسٹیاں اعلیٰ دانشور اعلیٰ سائنس دان اعلیٰ مفکرین اور اعلیٰ اساتذہ پیدا نہ کررہی ہوں تو سوچنا چاہیے کہ ان یونیورسٹیوں کی افادیت کیا ہے؟