ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو کیا یہ کافی نہیں ظالم تیری حیرانی کو کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو کیا کریں ’’آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک‘‘ کہ وزیراعظم ابھی کہتے ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا‘ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔ چلیے شکر ہے آپ کو عوام کا حال معلوم تو ہے وگرنہ یہ کہنا پڑتا کہ خاک ہو جائیں گے ہم تجھ کو خبر ہونے تک۔ خان صاحب نے مزید فرمایا کہ کورونا ویکسین کے لیے امیر غریب نہیں دیکھا جائے گا۔ وہ تو خان صاحب آپ پہلے بھی کوئی امتیاز نہیں رکھ رہے۔ سب کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ شہبازشریف کو تو بیماری تھی کہ بہت کم سوتا تھا اور افسروں کو بھی سونے نہیں دیتا تھا۔ آپ تو عوام کو بھی سونے نہیں دیتے ۔ پٹپرول کی گرانی کے سائیڈ افیک بلکہ آفشر شاکس شروع ہو گئے ہیں۔ ایل پی جی دس روپے فی کلو مہنگی ہو گئی۔ ٹرانسپورٹ چارجز ہر شے پر اثرانداز ہوں گے مگر بقول حکمرانوں کے غریب کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ ہائے ہائے عدیم کہاں یاد آئے مگر تصرف کے ساتھ: سہ لیں سبھی گرانیاں یوں تو نہیں کہ مر گئے تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے اگر لوگ شکوہ نہ کریں تو کیا کریں‘ کسی کو اتنا سا بھی خیال نہیں کہ وزیراعظم کے پاس او ر بہت سے کام ہوتے ہیں۔ نازک مزاج شاہاں تاب سخن نہ دارد۔ یہ لوگ کیسے ہیں کہ اپنے ہی وزیراعظم کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے نئے پرانے کلپس چلا کر ۔ کیا پرانے اور نئے میں تبدیلی انہیں نظر نہیں آرہی۔ کیا قوم کے وسیع تر مفاد میں کوئی یوٹرن نہیں لے سکتا۔ ہر بات وقت اور موقع کے اعتبار سے سچی یا جھوٹی ہوتی ہے۔ کیا یہاں نظریہ ضرورت نہیں چل سکتا: ایسے لگتا ہے کہ ہم ہی سے کوئی بھول ہوئی تم کسی اور زمانے کے لیے آئے تھے آپ یہ بتائیے کہ کون بھوکا مر رہا ہے اگر کوئی ایسا ہے تو اسے ہمارے طعام خانے یا قیام گاہ میں لے آئیے۔ اسے مرنے نہیں دیا جائے گا۔ ویکسین سب کو ملے گی۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کاش غربت‘ بے کاری اور بیروزگاری کی بھی کوئی ویکسین ہوتی۔ آپ میری خام خیالی پر ہنسیے مت کہ اس غربت اور بھوک کو تسلیوں اور تقریروں سے بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ شاعری بھی شاید خان صاحب شروع کردیں۔ کیونکہ شاعروں کے بارے میں تو خود خدا کہتا ہے کہ یہ بھٹکے ہوئے ہیں اور یہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں۔ یہ لوری بھی تو شاعری ہے جو مائیںبچوں کو سلانے کے لیے دیا کرتی ہیں۔ لوری سے بھوکے بچے کہیں سو جاتے ہیں یہ لوری تو پوری قوم کو نہیں سلا سکتی‘ بس زبان میں اثر ہونا چاہیے۔ بات شاعری کی آئی تو مجھے یاد آیا کہ خان صاحب کے ساتھ سنگت کرنے والوں نے بھی شاعری شروع کردی ہے۔ شاعری نہیں تو قافیہ بندی ضرور کر رہے ہیں مثلاً شہباز گل فرماتے ہیں زرداری اور ان کے حواری سندھ کے لیے بیماری۔ آپ دیکھتے نہیں صرف خواری کا قافیہ رہ گیا ہے۔ پتہ نہیں یہ کہنے میں کیا دشواری تھی۔ دیکھئے تو بیماری پر کیا صحت مند تنقید ہے۔ ویسے شہباز گل عوام تو تنگ ہیں اور بجنگ آمد ہیں۔ کہیں یہ علاج بالمثل تو نہیں: دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں کچھ علاج ان کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں ویسی ہی بڑی دلچسپ صورتحال ہے۔ ایک محترمہ فرماتی ہیں کہ عوام کی طاقت کے ساتھ عمران خان کرپشن کے دیوتائوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے۔ عوام بے چارے ہکے بکے سوچ رہے ہیں کہ کیا یہ محترمہ واقعتاً سچ مچ درست کہہ رہی ہیں۔ کیونکہ عوام بے چاروں کو کچھ ہوش ہی نہیں کہ وہ کس جگہ کھڑے ہیں وہ تو زندگی سے بے زار نظر آتے ہیں۔ ویسے کرپشن کے دیوتا بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ ٹرانپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس پرانے انڈکس پر استوار کی گئی ہیں۔ جھوٹ کے پائوں نظر آنے لگے ہیں۔ ہائے ہائے یہ سیاستدان کیسے ہیں۔ رحمن ملک کو دیکھیے کہ انہوں نے سورۃ اخلاص بارد گر غلط پڑھ دی۔ مزے کی بات یہ کہ طنز کے جواب میں کہا کہ مجھے آتی ہے مگر وہ تو صحیح کرنے پر ہی صحیح ہونا تھی۔ ان میں اتنا بھی اخلاص نہیں کہ کم از کم سورۃ اخلاص ہی یاد کرلیں: یہی پڑھتے ہیں سارے فاتحہ میں آپ بھولے ہیں سورۃ اخلاص ویسے حیرت ہوتی ہے کہ رحمن ملک جیسا تیز طراز آدمی یہ نہیں جان پایا کہ وہ یہ ان کی کمزوری ہے اور اس کو یاد کرنے کا اہتمام کرلیں تاکہ کوئی انہیں طعنہ نہ دے سکے۔ مجھے تو وہ جاسوس یاد آ گیا کہ وہ پکڑا گیا تو اسے چھ کلمے سنانے کے لیے کہا گیا تو اس نے فر فر چھ کلمے سنا دیئے۔ تھانیدار نے کہا تو تو پکا جاسوس ہے۔ چھ کلمے تو کسی مسلمان کو بھی نہیں آتے۔ پیپلزپارٹی والوں کو چاہیے کہ اپنے اس رہنما کو سورۃ اخلاص ضرور ازبر کروا دیں اور کوئی ایسا اتالیق ڈھونڈیں جسے یہ سورۃ آتی ہو۔ آخر میں ایک خوبصورت شعر کا تذکرہ جو ہمیں موصوف سکالر خضر یاسین نے سنایا اور بعدازاں اقتدار جاوید نے پوسٹ لگا دی۔ یہ شعر سرسید احمد خاں کا ہے یہ اس نعت کا شعر ہے جو انہوں نے اس جواب میں لکھا کہ ان پر کفر کے فتوے لگ رہے تھے۔ شعر دیکھئے: فلاطوں طفلک باشد بہ یونانے کہ من دارم مسیحا رشک می آرد زدرمانے کہ من دارم یعنی افلاطون جیسا نابغہ بھی جوکہ یونان کے علم و فضل کا استعارا تھا اس یونانی یعنی اس علم کے سامنے ایک چھوٹا بچہ ہے جو سرسید کے سینے میں ہے۔ وہ ایک ایسا درمان یا علاج ہے اور ان کے پاس موجود ہے جس پر مسیحا بھی رشک محسوس کرتا ہے۔ اقبال یاد آ گیا: خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوئہ آتش فرنگ۔ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف۔ لیجئے ایک اور شعر پیارا سا جو ہمیں پورے سیاق و سباق سے حمید حسین نے سنایا تھا۔ یہ خواجہ عزیز الحسن مجذوب کا ہے جو مولانا اشرف علی تھانوی کے شاگرد خاص تھے: ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی دل کو خالی تو کرنا ہی پڑتا ہے کہ بقول احمد جاوید: مکان دل ہی گویا لامکاں ہے مکیں ہے جس میں اس کی نامکینی