نادر شاہ طوفانی انداز میں کابل اور جلال آباد فتح کرنے کے بعد دلی کی طرف بڑھ رہا تھا۔دہلی کے دربار میں شاہ محمد رنگیلا کی توجہ اس فوری خطرے کی جانب مبذول کروائی گئی ۔شاہ محمد نے عالم سرور میں کہا ’’ہنوز دلی دور است‘‘مغل شہنشاہ کے یہ الفاظ ریاستوں کی سلامتی کے حوالے سے ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئے۔ریاست کی بقا کا انحصار حکمران کے درست اور بروقت فیصلوں پر ہوتا ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی تین سال تک تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی رہیں۔ دعویٰ یہ تھا کہ عمران خان کی نااہلی کی وجہ سے ملک تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ۔ عمران خان کو بحران خان قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ حکومت میں آنے کے بعد مسلم لیگ نون کے خزانے کے ارسطو معاشی ڈھلوان سے تباہی کی کھائی میں گرتی پاکستانی معیشت کی گاڑی کو ریورس گیئر سے نکال کر ٹاپ گیئر میں ڈالنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔مسلم لیگ کو اگر اقتدار دیا جائے تو ناصرف ڈالر ایک بار پھر 98روپے کی ریکارڈ سطح پر آ جائے گا بلکہ عوام کو پٹرول ،گھی ،چینی اور آٹا بھی 2018ء والی قیمتوں پر میسر ہو گا۔ عوام کو 12روپے فی یونٹ میں بلا تعطل بجلی بھی فراہم کی جائے گی۔پی ڈی ایم کشکول توڑ کر پاکستان کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے بھی نجات دلائے گی۔ ڈونلڈلو کی مہربانی سے ہی سہی مگرمیاں شہباز شریف اچکن پہن چکے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وزیر اعظم بننے کے بعد میاں شہباز شریف پہلے دن سے ہی اپنی معاشی ٹیم کو ملک کی اقتصادی حالت سنوارنے کے لئے متحرک کرتے۔ رات تین بجے تک میٹنگز ہو رہی ہوتیں۔ روپے کی قدر میں استحکام کے لئے دن میں تین بار جائزہ اجلاس بلائے جاتے، مگر ہوا کیا؟ ناتجربہ کار اور نا اہل کو گھر بھیج کر تیس سال کا تجربہ رکھنے والوں کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ چھ ہفتوں میں سوائے میاں نواز شریف کو پاسپورٹ جاری کرنے ، نیب اور ایف آئی اے میں مقدمات سے جان چھڑوانے کے لئے تفتیشی افسروں کے تبادلوں کے سوا کچھ نہ ہوا! ملکی تاریخ میں پہلی بار ملک کی قسمت کے فیصلے پاکستان کے بجائے لندن میںہوئے، سخت حکومتی فیصلوں کو سٹیک ہولڈرز کے ذمہ داری قبول کرنے سے مشروط کر دیا گیا ہے۔چھ ہفتے میں حکومت ابھی تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائی کہ اسے حکومت کرنا بھی ہے یا نہیں!یہ اہداف اور سوچ میں ابہام کا ہی نتیجہ ہے کہ چھ ہفتوں میں ہی مسلم لیگ کے تجربہ کار اقتصادی حدت میں موم کی طرح پگھل رہے ہیں۔وزیر خزانہ امریکہ میں آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے لئے اختیارات لے کر گئے۔مگر صورت حال نجیب احمد کے اس شعر سے مختلف نہیں : اب تو جسموں میں لہو کی بوند تک باقی نہیں پھر بھی ہم کو لوٹنے کی حرص آقاؤں میں تھی اقتدار میں آنے کے بعد حکومت نے اگر کوئی فیصلہ کیا ہے تو وہ یہ کہ ’’ہم‘‘ سابق حکومت کی بری کارکردگی کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں۔ حکومت مشکل فیصلے کرنے کو تیار ہے مگر اس شرط پر کہ نتائج کی ذمہ داری کوئی ’’اور‘‘ لے۔یہ دوسروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کی خواہش کا ہی نتیجہ ہے کہ چھ ہفتوں میں ڈالر تاریخ میں پہلی بار 16روپے تک بڑھ 200روپے سے تجاوز کرچکا۔نئی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد بغیر ایک دھیلہ خرچ کئے ملکی قرضوں میں صرف ڈالر کی قیمت کی وجہ سے 1500ارب ڈالر کا اضافہ کردیا ہے۔ جس کوبحران خان کا طعنہ دیا جاتا تھا وہ اپنے اقتدار کے آخری دن قومی خزانے میں 21ارب ڈالر چھوڑ کر گیا جو چھ ہفتوں میں 7ارب ڈالر رہ گئے۔حالت یہ کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بل 8 آنے۔وزیر اعظم کابینہ کے ساتھ سعودی عرب گئے پھر یو اے ای کا دورہ کیا۔ تین ارب ڈالر کے پیکیج کا دعویٰ بھی ہوا مگر نتیجہ سب کچھ دعوئوں کی حد تک ۔ان چھ ہفتوں میں اگر کچھ کیا تو وہ پی ڈی ایم کے کنگ میکر آصف علی زرداری نے یہ دعویٰ کر کے کیا ہے کہ ان کے پاس ملک کو بحران سے نکالنے کا ’’فارمولا‘‘ ہے ۔نسخہ کیمیا یہ بتایا اگر عالمی مالیاتی ادارے قرض دینے پر آمادہ نہیں تو حکومت پاکستان کے منافع میں چلنے والے اداروں کو فروخت کر کے مالی ضروریات پوری کرے۔ قومی ایئر لائن اورسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی فروخت کی سابق صدر کی تجویز بظاہر قابل عمل محسوس ہوتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ گھر کے برتن بیچ کر آپ کب تک عیاشی کرسکتے ہیں؟۔ گھر کے برتن ہی بیچ دیں مگر یہ خریدے گا کون؟ اس سے بھی اہم بات تو نیت کی ہے۔ ماضی میں ایم سی بی کو جس قیمت میں فروخت کیا گیا ایم سی بی کی یونین کا دعویٰ تھا کہ اس سے کہیں زیادہ قیمت تو بنک کی ملک بھر کی برانچز میں موجود فرنیچر کی تھی۔ماضی میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے وقت بھی یہی ہاہا کار مچی کہ صرف پی ٹی سی ایل لاہور آفس کی زمین کی قیمت میں پورا پی ٹی سی ایل بیچ دیا گیا۔اب خدا جانے کہ آصف علی زرداری پی آئی اے اور سٹیٹ لائف کو فروخت کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں یا خریدنے کا۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے پاس نجکاری کے علاوہ کوئی آپشن نہیں؟ ماہرین اقتصادیات کی رائے ہے کہ حکومت اگر واقعی ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں سنجیدہ ہوتی توچھ ہفتے گارنٹی مانگنے کے بجائے پہلے دن ہی سخت فیصلے کرنا شروع کرچکی ہوتی۔ آغاز ایسے فیصلوں سے کیا جا سکتا تھا جن سے عام آدمی بھی متاثر نہ ہوتا۔ جس ملک میں غریب کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں اس ملک کے امیر 15ارب ڈالر اپنے اور اپنے جانوروں کے لئے غیر ملکی پنیر مکھن اور جانوروں کی خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔حکومت خام مال کے بجائے ہر قسم کی برآمدات پر پابندی لگا کر اور ایکسپورٹ میں مراعات بڑھا کر معیشت کو وینٹی لیٹر سے اتار کی کوشش کر سکتی تھی مگر اس کی ترجیح شاید ملک نہیں خود کو بچانا ہے اس تاثر کو مخالفین کا تعصب کہہ کر رد کرنا اس لئے ممکن نہیں کیونکہ حکومت کا مقدمات پر اثر انداز ہونے کا چلن دیکھ کر سپریم کورٹ بھی سوموٹو ایکشن پر مجبور ہو چکی! اسی صورتحال پر ہی شاید شاعر نے کہاتھا: یوں ہی آتش فشاں کب جاگتے ہیں زمیں کروٹ بدلنا چاہتی ہے