جب سے ہوش سنبھالا ہے یہ سنتے ہوئے کان پک گئے ہیں کہ دیکھو یہودیوں نے دُنیا کے ہر علم اور ٹیکنالوجی میں کتنی ترقی کی ہے، وہ دُنیا کی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں، دُنیا کی سپر پاور امریکہ آج ان کی مٹھی میں ہے۔ طعنہ زن زیادہ تر سیکولر، لبرل اور اسلام دُشمن افراد ہی ہوتے ہیں، جو مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایک فہرست ہر کسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے جسے لہرا کر وہ کہتے ہیں کہ دیکھو اب تک تقریباً نو سو افراد کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ’’نوبل انعام‘‘ سے نوازا گیا،جن میں سے 20 فیصد یہودی ہیں۔ پہلا یہودی جسے نوبل انعام ملا وہ اوڈلف وان بائر (Adolf Von Baeyer) تھا۔ اسے یہ انعام 1905ء میں کیمیاء (Chemistry) کے شعبے میں ملا تھا۔ اسرائیل کے مشہور ماہرِ تعلیم ایلی بین گال (Elay Ben Gal) اور یشویہو لیبوٹز (Yeshayahu Leibowitz) نے تمام یہودی نوبل انعام یافتگان کا انسائیکلوپیڈیا مرتب کیا ہے، اور جس قدر ممکن ہو سکا ان افراد کے انٹرویو بھی کئے ہیں۔ جن لوگوں کے انٹرویو نہیں کئے جا سکے، ان کے سوانحی خاکے اس کتاب میں دیئے گئے ہیں۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، علم و ادب، طب و معاشیات، غرض ہر علمی میدان میں یہودیوں نے نہ صرف نوبل انعامات حاصل کئے بلکہ دیگر عالمی ایوارڈز بھی سمیٹے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے اسرائیل کے شہریوں کی تعداد صرف تیرہ (13) ہے۔ اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ یہودی دُنیا کے کسی بھی خطے میں رہتے ہوں، وہ خود کو ایک نسل اور ایک قوم کہلواتے ہیں اور کہتے بھی ہیں۔ اس لئے دُنیا بھر کا میڈیا کسی بھی امریکی یہودی کے ایوارڈ کو سب سے پہلے اسے یہودی قوم کا ایوارڈ گردانتا ہے اور بعد میں اسے امریکی ایوارڈ کہتا ہے۔ اگر ان تمام بڑے ناموں کی سوانح عمریوں کا مطالعہ، گزشتہ پانچ سو سال کی یہودی تاریخ کے تناظر میں کیا جائے تو صرف ایک ہی بات واضح نظر آتی ہے اور وہ ہے کہ یہودیوں کا اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرنا اور اس آنے والے آخری دَور پر اس قدر یقین کامل رکھنا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں اپنی پُر آسائش زندگی اور وسیع کاروبار چھوڑ کر آج سے ایک صدی پہلے کے اسرائیل میں جا کر آباد ہونا ہے۔ سو سال پہلے یہ علاقہ ایک لق و دق صحراء کے سوا کچھ نہ تھا۔ اگر یہودی بھی مسلمانوں کی طرح گزشتہ دو سو سال میں سیکولر، لبرل، جمہوری اور قوم پرستانہ تصورات کو اپنا لیتے تو وہ یقیناً آج ایک بکھری ہوئی قوم ہوتے۔ دُنیا میں موجود صرف ایک کروڑ سینتالیس لاکھ یہودی اربوں انسانوں کے سمندر میں ایسے گم ہوتے کہ ان کا نشان تک نہ ملتا۔ تقریباً دو ہزار سالوں تک دُنیا بھر کے ممالک میں ذلیل و رُسوا ہونے اور اذیتیں برداشت کرنے والی یہ قوم ایک دن اُٹھ کھڑی ہوتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے کہ اب ہمیں مزید ایسے نہیں رہنا۔ اس بیداری کا آغاز 1492ء میں اس وقت ہوا جب کیتھولک عیسائی حکمرانوں ازابیلا(Isabella) اور فرڈنینڈ (Ferdinand)نے شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد غرناطہ فتح کیا اور مسلمانوں کو سپین سے بیدخل کرنے کے بعد 31 مارچ کو یہ فرمان جاری کیا کہ سپین کو یہودیوں سے نجات دلائی جائے۔ اس فرمان کے تحت انہیں کہا گیا کہ وہ یا تو عیسائیت قبول کر لیں یا پھر سپین سے فوری طور پر نکل جائیں۔ بہت سے یہودی جو قوم پرستانہ جذبات رکھتے ہوئے اُندلس سے محبت رکھتے تھے وہ عیسائی ہو گئے، لیکن 80ہزار یہودی پرتگال چلے گئے اور 50 ہزار مسلمان خلافتِ عثمانیہ میں چلے گئے۔ یہ ایک لاکھ بیس ہزار یہودی اس موجودہ تبدیلی کے پیش رو تھے، جس کے نتیجے میں آج یہودی دُنیا بھر پر چھائے ہوئے ہیں۔ سپین کی جلاوطنی کو انہوں نے ایک نیک فال کے طور پر لیا۔ ان کی مذہبی کتابوں میں لکھا تھا اور ربائیوں نے بھی انہیں اس بات کی تعلیم دی تھی کہ جب چار مسلسل چاند گرہن ان کے مقدس تہواروں کے دوران لگتے ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے ہوتی کہ پہلے یہودی قوم کسی کوئی بہت بڑے المیہ (Tragedy) کا شکار ہو گی، لیکن اس المیے میں بہت بڑی کامیابی (Triumph) چھپی ہوتی ہے۔ یہ چار چاند گرہن خونی کہلاتے ہیں جنہیں "Blood Moon" کہا جاتا ہے۔ 1492ء سے لے کر اب تک ایسا صرف دو دفعہ ہوا ہے، پہلا 1949-50ئ، اسرائیل قائم اور مستحکم ہوا، لیکن اس سے پہلے یہودیوں نے 1948ء کی خوفناک جنگ لڑی، دوسرا 1967-68ء میں ہوا اور یہودی عرب اسرائیل جنگ لڑے، جس میں مصر، اُردن اور شام کے بے شمار علاقے بیت المقدس سمیت، اسرائیل کے قبضے میں چلے گئے۔ لیکن یہودی آج بھی اگست 1492ء کے چار خونی چاند کے واقعے کو اللہ کی طرف سے اپنے لئے بہت بڑی نعمت سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہ نعمت یہ تھی کہ کولمبس نے امریکہ دریافت کر لیا تھا۔ یہودی اپنی مذہبی تعلیمات کے زیرِاثر امریکہ کے اس خطے کو اپنے لئے ایک نیک فال سمجھتے تھے۔ انہوں نے آہستہ آہستہ اس مواقع کی سرزمین (Land of Opportunity) ،یعنی امریکہ کی جانب منتقل ہونا شروع کیا اور ساتھ ہی پوری یہودی قوم میں ایک شدید قسم کی بنیاد پرستی کا آغاز ہو گیا۔ اس بنیاد پرستی کا ماخذ ایک انتظار تھا۔ یہودی صدیوں سے ایک مسیحا کی آمد کا انتظار کر رہے تھے، مگر اب انہوں نے اسے اپنی زندگی اور روح بنا لیا۔ کئی ہزار سال پہلے جب یہودی بابل کی سرزمین پر جلاوطن قیدیوں کی طرح کی زندگی گزار رہے تھے، تو انہیں ایک پیغمبر السیع (Isaiah) نے دو خوشخبریاں دیں، ایک یہ کہ تم اس قید سے آزاد ہو کر واپس یروشلم میں جا کر آباد ہو جائو گے اور دوسری یہ کہ تمہارے درمیان ایک ایسا مسیحا آئے گا جو یروشلم میں تختِ دائودی پر بیٹھ کر عالمی حکومت قائم کر دے گا۔ یہودیوں نے اس وقت اس پیغمبر کی باتوں کو تسلیم نہ کیا اور اسے آرے سے ذبح کر دیا۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد ایران کے سائرسِ اعظم نے بابل پر حملہ کیا، اسے تاخت و تاراج کیا اور یہودیوں کی جلاوطنی ختم کر کے انہیں واپس یروشلم میں آباد کر دیا۔ اس ایک بڑی پیش گوئی کے پورا ہونے کے بعد اب کوئی گنجائش باقی نہ رہی تھی کہ دوسری کو نہ مانا جائے۔ سائرسِ اعظم نے 539 میں یہودیوں کو یروشلم میں واپس آباد کیا تھا۔ تقریباً اڑھائی ہزار سال گزر چکے ہیں، لیکن یہودی بحیثیت قوم اس وقت سے اس مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں۔ سپین سے نکالے جانے سے پہلے تک وہ یہی سمجھتے تھے کہ ہم جس جگہ آباد ہیں، ہمیں بس چُپ چاپ خاموشی سے اس وقت کا انتظار کرنا چاہئے جب وہ مسیحا آئے گا اور ہمیں اس اذیت ناک زندگی سے نجات دے گا۔ لیکن سپین کی جلاوطنی اور پھر اس کے بعد کی دربدری کے بعد انہوں نے اپنے اندر ایک تصور کو مضبوط کر لیا کہ اس سے پہلے کہ ہمارا مسیحا، یروشلم میں آئے، ہمیں خود یروشلم جا کر اس کی بادشاہت کیلئے ایک سٹیج سجانا چاہئے، ایک طاقتور مرکز قائم کرنا چاہئے۔ مسیحا کی آمد سے پہلے ایک مضبوط ریاست وہاں موجود ہونی چاہئے جہاں سے ہم اپنے مسیحا کی فوج کے ہراول دستے کا کام کر سکیں، اس کی عالمی حکومت قائم کر سکیں۔ بنیاد پرستی، مذہب سے وابستگی اور مسیحا کا انتظار، یہودیوں کو 1896ء تک لے آیا جہاں انہوں نے مشہورِ عام پروٹوکولز (Protocols) تحریر کئے۔ (جاری ہے) نوٹ: بیشمار لوگوں نے کتاب ’’ہارن کھیڈ فقیرا‘‘ طلب کی مگر انہیں پبلشر کا نمبر بند ملا۔ کتاب کے مصنف میجر آفتاب احمد کا نمبر 0301-4254250 ہے۔ ان سے رابطہ کر کے بھی کتاب حاصل کی جا سکتی ہے۔