علامہ اقبال نے جب کہا تھا کہ ع ہر قطرہ ٔ دریا میں، دریا کی ہے پہنائی تو یہ "نری شاعری" نہیں تھی! خْدا کی قدرت کے مظاہر، ہر طرف موجود ہیں اور انسان کی بے بسی کے مناظر بھی! یہاں پہاڑ ہیں، جنہیں زمین کی میخیں کہا گیا ہے۔ ان میں کچھ تو اتنے اونچے ہیں کہ سر اٹھا کر دیکھنے والے کی ٹوپی، سچ مچ گر گر جائے۔ ایسے ہیبت ناک سمندر بھی یہاں ہیں، جن پر قْدرت پانے کی کوشش تو کجا، سلامت ان سے گزرنا بھی دشوار ہے! اس لا چاری کے باوجود، انسان کوشاں رہا ہے کہ ستاروں پر بھی کمند، ڈال ہی دے، دریائوں کے بھی رْخ، موڑنے پر قادر ہو جائے۔ لیکن یہ کیا ہوا؟ ایک نظر نہ آنے والے ذرہ ء بے مقدار نے، بڑی بڑی سپر پاوروں کی چْولیں، ہلا کر رکھ دی ہیں! اقبال کا مصرع، ذرا دْہرا لیجیے ع ہر قطرہ ء دریا میں، دریا کی ہے پہنائی! عظیم الشان کارخانوں کا بالکل بند ہو جانا اور انسانوں کا مقید ہو جانا، یہ معمولی واقعات نہیں ہیں۔ کہاں مختاری کے وہ دعوے اور کہاں عاجزی و مجبوری کا یہ حال! پندرہ سو سال پہلے، جھومتا جھامتا، ابرہا کا سینکڑوں ہاتھیوں پر مشتمل لشکر، کعبے پر حملہ آور ہوا تھا۔ پھر چند ابابیلوں کے ہاتھوں، قْدرت نے اسے تباہ و برباد کرا دیا۔ آج ابرہا نہیں ہے۔ دنیا بھی اب ایسے ہتھیاروں سے لیس ہے،جو لاکھوں کیا، کروڑوں انسانوں کو چند ثانیوں میں مٹا دے۔ پر یہ سب انتظام، آج کس کام کے؟ حتمی تجزیے میں ع شلجم ِپختہ بہ، کہ نقرۂ خام؟ ایک ذرا سے وائرس نے، سب کچھ تلپٹ کر دیا ہے۔ دلی کے مسلمانوں پر انگریز، جب ٹْوٹ پڑے تھے، تو غالب نے یہ نوحہ کہا تھا۔ گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا چوک جس کو کہیں، وہ مقتل ہے گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا شہر ِدلی کا ذرہ ذرہ ء خاک تشنہ ء خوں ہے ہر مسلماں کا کوئی واں سے، نہ آسکے یاں تک آدمی، واں نہ جا سکے یاں کا آج ہر ایک کا زہرہ، گھر میں بیٹھے بیٹھے آب ہو رہا ہے۔ کیا غریب اور کیا امیر، کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان، ہر انسان گھر میں زندانی ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ اس محاورے کے صحیح مصداق، سوشل میڈیا کے طْوطی مقال نابغے ہیں۔ ان طْوطیوں نے، آسمان سر پر اْٹھا رکھا ہے! وائرس کے خوف سے بڑھ کر نقصان دہ، ان کی بقراطیت، ان کی حکمت، ان کی حذاقت ہے! مذہبی افراد، اس مصیبت کا سرا، قْرب ِقیامت سے ملا رہے ہیں۔ وہ، جنہیں دال میں کالا ہی نظر آتا ہے، اسے، انسانی ایجاد قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ، اصل نکتہ یہ ہے کہ یہ وائرس، اگر انسان کا ہی تیار کردہ ہے، تب بھی، خْدا کی ناراضی تو ثابت ہے! اس وقت خْدا کی یاد بہت سوں کو آ رہی ہے۔ پر اپنے اعمال پر ندامت کتنوں کو ہے؟ اور کیا اتنی عبرت ہو گی کہ مستقبل میں نہ نادم ہونا پڑے؟ جنہیں ماحولیات کا غم مارے رکھتا ہے، وہ اس پر تو خوش ہی ہیں کہ بڑی بڑی مشینوں سے آلودگی پھیلانے کا کام بند ہے۔ یہاں، امریکا کے بعض علاقوں میں، جنگلی حیات میں نمو تیز ہو گیا ہے۔ نباتات اور حیوانات، "انسان" کا قدم ذرا پیچھے ہٹا اور ان کی افزائش بڑھنے لگی۔ ہرن، کہیں کہیں پہلے بھی، قلانچیں مارتے، چوکڑیاں بھرتے دکھائی دے جاتے تھے۔ لیکن رنگ برنگ کے پرندوں اور حیوانوں کی ایسی کلیلیں، ان علاقوں میں شاید پہلے نہ دیکھی گئی ہوں۔ کیسا افسوس کا مقام ہے کہ انسان کی مصیبت، ان بے زبانوں کے لیے نوید ثابت ہو!۔ عاقبت بیں، بشر سے ہے یہ سوا جانور کو ہنسی نہیں آتی مصیبت کی اس گھڑی میں بھی، نفع خور اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں۔ بڑی بڑی فارماسوٹیکل کمپنیاں، کوشاں ہیں کہ جلد از جلد ویکسین تیار کر کے، دوسروں سے بازی مار لے جائیں! اس کی ویکسین بنانے والی کمپنی، راتوں رات اربوب ڈالرز کما سکتی ہے۔ یہ ویکسین جلد تیار ہو بھی گئی، تو تجربوں کے سارے مراحل سے گزر کر، کم از کم بارہ مہینے بعد دستیاب ہو گی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ تب تک کیسی گْزرے گی چلتے چلتے، ایک واقعہ سْنتے جائیے۔ بعض حضرات کو، قیامت کی نشانیاں گنانے اور دکھانے کا، گویا لپکا ہوتا ہے! اس خاکسار کو، ایسے موقعوں پر یہی فرمان یاد آتا ہے کہ "قیامت کب آئے گی؟، خْدا کے سوا کوئی نہیں جانتا!"۔ قْرب ِقیامت کی نشانیوں میں ایک، یاجوج ماجوج کا ورود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جب بے قید ہو جائیں گے تو ان کے غٹ کے غٹ، سمندر کے پانی پر بھی، یوں بے طرح ٹوٹ پڑیں گے کہ اسے خشک ہی کر دیں گے! یہاں امریکا میں، کاسٹکو نام کا ایک بہت بڑا اسٹور ہے جس کی شاخیں اب تو ملک سے باہر بھی پھیل رہی ہیں۔ اس اسٹور کا مال نہایت معیاری ہونے کے باوجود، بہت سستا ہے۔ اتنا سستا کہ اس سے بھی اگر کم قیمت ہوتا تو خدمت ِخلق کے زمرے میں آ جاتا! کاسٹکو پر پچھلے چند ماہ، وہ قوم، جو کتوں، بلیوں اور چوہوں سے لے کر کاکروچوں تک، ہر جاندار کو چٹ کر جاتی ہے، بلا ناغہ، علی الصباح دھاوا بولتی رہی اور پانی کی ساری بوتلیں اٹھا لے گئی۔ پانی کے ساتھ ساتھ، آٹے، چاول اور اناج کی بھی بوریاں یہ ذخیرہ کرتے گئے۔ ٹشو پیپر اور صفائی ستھرائی کے دیگر مغربی سامان، شاید ہی کسی بڑے اسٹور پر، یہ باقی چھوڑتے رہے ہوں۔ ان کی اس لوٹ مار اور خصوصا پانی پر پل پڑنے سے، یاجوج ماجوج اور سمندر کی روایت یاد آتی ہے! تنگ آمد بجنگ آمد، ان کے اس نہلے پر، کاسٹکو نے دہلا مارا ہے۔ ایک اعلان، ان الفاظ کے ساتھ، اسٹور میں جگہ جگہ چسپاں ہے کہ "خریدے ہوئے ٹشو پیپر، پانی، آٹا اور چاول- یہ سامان اب واپس نہیں ہو گا!"- کورونا وائرس کی بلا،ان شاء اللہ، دور ہو ہی جائے گی۔ تب یہ قوم، اس سارے سامان کو واپس کرنے آئے گی۔ پہلے سیدھے سبھائو، پھر سخت کلامی اور آخر میں لجاجت سے لے کر رونے دھونے تک، سامان کی واپسی کی ساری کوششیں کی جائیں گی، لیکن کچھ بن نہ آئے گی۔ یہ سامان، اب ان کی حرص کا نشان بنا، ان کے پاس ہی رہ جائے گا۔ بقول ِمیرؔ جم گیا خوں کف ِقاتل پہ ترا میر! زبس ان نے رو رو دیا کل، ہاتھ کو دھوتے دھوتے