سیاست میں اقدار پر اقتدار ہمیشہ حاوی رہا ہے۔اقتدار کے لئے باپ نے بیٹے اور بھائی نے بھائی کی گردن مارنے میں بھی عار محسوس نہیں کی۔وفاداری مفاد کے ترازو میں تلتی رہی ہے۔پاکستانی سیاسی جماعتوں نے اراکین اسمبلی کی وفاداریوں کو پارٹی ڈسپلن کے پنجرے میں قید کرنے کی کوشش کی۔ تو پریشر گروپ میں پارٹی سے بغاوت کا نیا روپ سامنے آیا۔عمران خان نے جس دن سے حلف اٹھایا ہے اسی روز سے اپوزیشن عمران خاں کو گھر بھیجنے کے خواب دیکھ رہی تھی۔احتجاج ہوئے دھرنے ہوئے مگر عمران خان ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اپوزیشن نے حکومتی اتحادیوں کو توڑنے کی کوشش بھی کر دیکھ لی ۔اپوزیشن نے چودھری برادران کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ تک کی پیش کش بھی کی مگر اتحادی عمران خان کے ساتھ کھڑ رہے۔حکومت نے غریب امیر کے لئے ایک قانون کی بات کی اور بلا امتیاز پارٹی اورحیثیت سب کو قانون کے ماتحت لانے کی کوشش کی نتیجتاً تحریک انصاف میں توڑ پھوڑ شروع ہوئی۔چینی سکینڈل میں حکومتی اداروں نے ترین سے سوال کیا تو ترین گروپ بن گیا ۔جو کام اپوزیشن کے 152ارکان ساڑھے تین سال تک نہ کر سکے وہ ترین گروپ کے 30ارکان کرنے میں بظاہر کامیاب نظر آتے ہیں۔آپسی اختلافات کی وجہ سے نا صرف تحریک انصاف میںخلیج گہری ہوتی گئی بلکہ عوام کے عمران خان سے وابسطہ خواب بھی چکنا چور ہوتے بھی نظر آرہے ہیں تحریک انصاف کی حالت پر یہ شعر صادق آتا ہے: ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے یہ تحریک انصاف کی اپنی ہی صورت بگاڑنے کا نتیجہ ہے کہ مسلم لیگ ن اقتدار کے کنویں پر اپنی تصویر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔چودھری برادران نے اپوزیشن کی وزارت اعلیٰ کے جس دانے کو چگنے سے انکار کیا تھا اسے ترین گروپ نگلنے کی کوشش کر رہا ہے جو ان کے حلق میں اٹک بھی سکتا ہے ۔عمران خان یہ جانتے ہوئے بھی کہ ترین گروپ کے ارکان کی تعداد وفاق اور پنجاب میں اتحادی اراکین کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے بلیک میل ہونے کے لئے تیار نہیں۔ ترین گروپ کے بزدار کو ہٹانے کے مطالبہ کے بعد عمران خان نیوزیراعلیٰ پنجاب کو نہ صرف کام جاری رکھنے کی ہدایت کی بلکہ میلسی اور کراچی میں ان کا لب لہجہ مزید تلخ ہو گیا ۔کپتان کا ضرورت سے زیادہ اعتماد اس بات کا اشارہ ہے کہ یا تو انہوں نے سیاسی سودے بازی کے بجائے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا ہے یا پھر ان کے پاس ترپ کا ایساپتہ ہے جس سے وہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کے منحرف ارکان کو بھی مات دے سکتے ہیں۔یہ ترپ کا پتہ کیا ہے؟اپوزیشن گزشتہ ایک ہفتے میں ایک درجن سے زائد بار یہ تسلیم کر چکی ہے۔اب اسٹیبلشمنٹ حکومت کو سہارا دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس لئے اپوزیشن حکومت گرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سیاسی پنڈت ایمپائر کے نیوٹرل ہونے کو بھی وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈالنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔گزشتہ ایک ہفتے سے اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ اگر ایمپائر کا اشارہ نہ ہوتا تو اپوزیشن تحریک عدم اعتماد ہی نہ لاتی۔ حکومت اپوزیشن کی ترین گروپ کی حالیہ سرگرمیوں میں بین الاقوامی سازش دیکھ رہی ہے۔ حکومتی ترجمان اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو پاکستان کے روس اور چین کی طرف جھکائو کے فیصلے کا ردعمل قرار دے رہے ہیں۔نواز شریف کی لندن میں سیاسی سرگرمیوں اور تحریک عدم اعتماد سے پہلے جہانگیر ترین کی علاج کے لئے لندن روانگی اور لندن میں مسلم لیگ ن سے رابطوں کی خبروں کو دلیل بنایا جا رہا ہے۔ اس تھیوری کو یکسر مسترد کرنا اور تحریک عدم اعتماد کو خالصتاً سیاسی جوڑ توڑ سمجھنااس لئے مشکل ہے کہ ماضی میں پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی اور سیاست میں بین الاقوامی مداخلت کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا لیاقت باغ میں افغان شہری کے ہاتھوں قتل ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کا سفید ہاتھی کو للکارنے کے بعد تختہ دار پر چڑھایا جانا، اس بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا۔ نواز شریف کے جیل سے سعودی عرب کے سرور محل میں پہنچنے کے پیچھے حریری اور سعودی عرب کے کردار کی تو اب تصدیق بھی ہو چکی۔ سیاسی تجزیہ کار حکومت کے خلاف حالیہ تحریک عدم اعتماد کو یورپی یونین کے سفیروں کے حکومت کو سفارتی آداب کے خلاف لکھے جانے والے خط کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ کڑی سے کڑی ملائی جا رہی ہے۔ پاکستان کی چین سے قربت اور امریکہ سے دور ی ایک دن کی بات نہیں برسوں کاقصہ ہے۔ وزیر اعظم روس کے دورے پر جانے سے پہلے پوٹن سے متعدد عالمی فورمز پر مل چکے تھے۔ جس سے پاکستان کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کے اشارے مل رہے تھے۔امریکہ اور یورپ کی پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونے کی کوشش بھی نئی نہیں۔ گرے لسٹ کی تلوار کی صورت میں پاکستان کو خبردار کیا جاتا رہا ۔ امریکہ اور اس کے اتحادی حکومت کو ہی مجبور نہیں کر رہے تھے بلکہ پاکستانی سیاستدانوں سے بھی ملاقاتیں ہو رہی تھیں۔ سیاسی پنڈت مارچ 2021ء میں امریکی سفیر کی حمزہ شہباز سے ملاقات اور اکتوبر میں مریم نواز اور شہباز شریف سے الگ الگ ملاقات کو تحریک عدم اعتماد کے محرک کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کے بعد ہی مریم نواز اور شہباز شریف کے درمیان سردجنگ ختم ہوئی اور معاملات شہباز شریف کے ہاتھ میں آئے۔ اس تھیوری کو ایک لمحے کے لئے درست تسلیم کر لیا جائے تو ایک بات تو صاف ہو جاتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد ملکی سیاست کا صرف اندرونی معاملہ ہے نا ہی اتنا سادہ جتنا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومتی فیصلوں سے عسکری قیادت کو الگ کرنا مشکل ہے اگر خارجہ پالیسی کے معاملے میں حکومت اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں تو یہ سازش تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کیوں نہ ہوئی؟ اگر سازش حکومت کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف ہے تو عسکری قیادت کا نیوٹرل رہنا بھی ممکن نہیں کیونکہ عدم اعتماد کا نتیجہ جو بھی نکلے اس کے اثرات پاکستان کے اندرونی ہی نہیںخارجہ معاملات پر بھی مرتب ہوں گے۔ ممکن ہے عمران خان جس ترپ کے پتے کو ابھی تک سینے سے لگائے ہوئے ہیں یہ ترپ کا پتہ یہی ہو۔