اب وہ دن کہاں سے واپس لاویں جب ملک میں پورے ایک دہائی ، دوہزار آٹھ سے دو ہزار اٹھارہ تک، جمہوریت تو تھی لیکن حزب اقتدار اور حزب اختلاف باہم شیر و شکر تھیں۔ اتحاد و اتفاق کی برکتوں سے نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کو کاٹ دوڑتی پارٹٰیاں ایسے آشنا ہوئیں کہ اس وقت اکٹھی اقتدار کے مزے لے رہی ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب امریکہ اور اسکے اتحادی افغانستان پر تسلط جما ئے اپنے تئیں خطے سے دہشت گردی کی جڑیں کاٹ رہے تھے اوروہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو۔مبادا کہ پاک۔افغان سرحد پر براجمان طالبان اس صورتحال کا فائدہ اٹھائیں۔ کنڈولیزا رائس، جو جارج بش انتظامیہ میں وزیر خارجہ تھیں، نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو دوہزار چھ میں میثاق جمہوریت کے بندھن میں باندھ کر جنرل مشرف سے این آر او دلادیا۔ بینظیر بھٹو اپنی خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے واپس آئیں تو نواز شریف بھی دبے پاوں پیچھے پیچھے آگئے۔ رحیم یار خان میں جلسے سے خطاب میں بے نظیر بھٹو نے انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر پیپلز پارٹی پہلے اور ن لیگ دوسرے نمبر پر نہ آئی تو وہ نتائج تسلیم نہیں کریں گی۔ بینظیر بھٹو کو تو شہید کردیا گیا لیکن ان کے 'سیاسی وارث' جنابِ آصف علی زرداری نے سیاسی بھائی چارے کا نعرہ لگایا تو ساری پارٹیاں اقتدار میں آگئیں۔ نہ عتاب اور نہ ہی احتساب۔ دہشت گردی کی عالمی جنگ میں امریکہ کے صف اول کے اتحادی ہونے کا مزہ ہی الگ تھا۔ امریکہ ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ امداد دیتا ،عالمی مالیاتی اداروں اور بنکوں سے بے حساب قرضے ملتے اور عرب ممالک سے سستا تیل۔ سیاستدانوں اور عوام دونوں کی موجیں لگی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں جذبہ خیر سگالی کے تحت اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد سے انتہائی ڈرامائی حالات میں برآمد کرایا گیا تو اوبامہ دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ لیکن انہوں نے پہلی ہی تقریر میں اعلان کرڈالا کہ امریکہ دو ہزاربارہ کے وسط تک افغانستان سے اپنی افواج نکال لے جائیگا۔ اس پر 'زمینی حقائق' ایسے تبدیل ہوئے کہ یہ معاملہ لٹک ہی گیا۔ ہوا یوں کہ دو ہزار بارہ میں سلالہ کا حادثہ ہوا، نیٹوجہازوں نے پاکستانی چوکی پر بمباری کردی۔ پاک۔امریکہ تعلقات میں سرد مہری آگئی۔ پاکستان نے امریکہ سے اپنی سرزمین پر موجود ہوائی اڈے خالی کرالیے اور زمینی راستے سے نیٹو افواج کو سازو سامان کی ترسیل بھی متاثر ہوئی۔ امریکہ افغانستان میں پھنسا تو ڈیموکریٹک پارٹی کے اقتدار کا سورج بھی ڈوب گیا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ شاکی رہی کہ پاکستان نے پیسہ بھی لیا اور اپنے حصے کا کام نہیں کیا۔ دو ہزار سولہ میں ریپبلکن پارٹی کے ٹرمپ امریکی صدر بنے تو انکی زبان پر یہی شکوہ تھا۔ انکی ترجیحات کچھ مختلف تھیں۔ انہیں پاکستان اور اسکی جمہوریت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ دلچسپی تھی تو اتنی کہ کسی طرح نیٹو افواج افغانستان سے بخیر و عافیت نکلیں تاکہ بحر ہند و اوقیا نوس میں بڑھتے چینی اثرو رسوخ کا مقابلہ کیا جاسکے۔ پاکستان میں برسراقتدار سیاسی قبیلے کا مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو امریکہ سے امداد بند ہوگئی ، دوسرے عالمی مالیاتی اداروںکا قرض بھی واپس کرنا تھا۔ تاجروں، پیشہ ور افراد اور بڑے زمینداروں کی آمدنیوں پر ٹیکس لگا کر محصولات میں اضافہ کیا جاسکتاتھا۔ لیکن ایسا کرنا چوری کھانے والے مجنووں کے بس کی بات نہیں تھی۔ اسٹیبلشمنٹ ایک نئی پارٹی، پاکستان تحریک انصاف ، کی طرف متوجہ ہوئی۔ پانامہ سکینڈل اور چوٹی کے سیاستدانوں کے بیرون ملک اثاثوں کی خبروں کے تناظر میں دوہزار اٹھارہ کے انتخابات ہوئے اور ایک نئی پارٹی اقتدار میں آگئی۔ اس دن سے لیکر آج تک پاکستان میں نہ تو فرینڈلی اپوزیشن کا عنصر دیکھنے میں آیا ہے اور نہ ہی سیاسی استحکام۔ عمران حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ، جیسے تیسے ساڑھے تین سال کاٹے ، قرضوں سے صرف سود کی رقم ہی ادا کرسکی۔ واضح عددی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے نہ تو مراعات یافتہ افراد پر ٹیکس لگا سکی اور نہ ہی احتساب کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچا سکی۔ نئے آئی ایم ایف قرضے کا وقت آنے سے پہلے ہی اقتدار سے باہر ہوگئی۔ سابقہ حکمران پارٹیوں نے اپنی قیادت کو نیب کے شکنجے سے گردن چھڑانے کے لیے اس کی جگہ تو لے لی لیکن اپنا سیاسی سرمایہ گنو ا بیٹھیں۔ ٹیکس اصلاحات اس نے نہیں کیں، مراعات یافتہ طبقے پر بوجھ یہ نہیں ڈال سکتی، آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں تاخیر ہورہی ہے اور صوبائی الیکشن (پنجاب اورپختونخوا ) سر پر ہیں۔ اگر ن لیگ کے ہاتھ سے پنجاب نکل جاتا ہے تو وفاق سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ پیپلز پارٹی نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ وہ عام انتخابات اکیلے لڑے گی۔ سندھ اسکے ہاتھ میں رہتا ہے تو اسی پر گزارہ کرلے گی اور ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر ہی سہی اپنا سیاسی سفر جاری رکھے گی۔ اگر ن لیگ صوبائی انتخابات کے مسئلہ پرعدلیہ سے محاذ آرائی پر اترتی ہے تو پیپلز پارٹی ن لیگ کی سربراہی میں قائم حکومت سے علیٰحدہ ہوجائیگی۔ معروضی عالمی حالات کے تناظر میں امریکہ پاکستان سے جس نہج پر تعلقات استوار کررہا ہے اس میں وہ پاکستان کو ایک فوجی اتحادی کے طور پر نہیں بلکہ ایک توانا جمہوریت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ وہ وقت دور نہیں کہ ایک نیا میثاق جمہوریت ہو جس میں فریقین آئین کی بالادستی اور صاف و شفاف حکمرانی پر نہ صرف متفق ہوں بلکہ عملی اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائیں۔ لگتا نہیں کہ ن لیگ اس معاہدے کا حصہ ہوگی۔