توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے کون دیکھے گا تہہِ آب نظارے سارے نظر انداز کیا میں نے کبھی اس دنیا کو اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے میں نے کبھی ایک فلم دیکھی تھی God forgives but I don't خدا معاف کر دیتا ہے مگر میں نہیں۔سچ مچ انسان میں اتنا حوصلہ ہی نہیں۔ یہ تو ظرف کی بات ہے تم ذرا چھیڑ کے دیکھو تو سہی دنیا کو۔ ۔ مجھے اس قسم کی تمہید سے ایک منفرد اور معصوم کردار زاہد ڈار پر لکھناہے کہ وہ اپنی شرائط پر ہی جیئے اور چلے گئے۔ آپ سب کو اپنی سوچ اور خواہش کے مطابق نہیں ڈھال سکتے۔وہ ہمیں تو 80ء کی دھائی میں ملے۔ ملے تو شاید وہ اپنے آپ سے بھی نہیں۔ منحنی سا کتابی جسم ،انہیں جب بھی دیکھا وہ انارکلی سے سروس روڈ سے ہوتے ہوئے پرانی کتابوں کے چھابڑوں کے درمیان سے پاک ٹی ہائوس کی طرف آتے دکھائی دیتے اور ہمیشہ کتاب بہ دست ہوتے۔ باقاعدہ کتاب پڑھتے ہوئے خراماں خراماں آتے اور پاک ٹی ہائوس کی درمیانی میز پر آن بیٹھتے۔ کسی نے بھی کتاب کو ان سے الگ نہیں دیکھا۔ ایک مرتبہ مشفق خواجہ صاحب تفنن طبع کے تحت لکھا تھا کہ ایک انیس ناگی ہے جو لکھتا ہی چلا جاتا ہے اور پتہ نہیں چلتا کہ کیا لکھ رہا ہے ،دوسرا زاہد ڈار ہے جو پڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور پتہ نہیں کیا پڑھ رہا ہے: خون جلایا ہے رات بھر میں نے لفظ بولے ہیں تب کتابوں سے ان کو کتاب سے والہانہ محبت تھی۔ان کا ناشتہ دوپہر کا کھانا اور ڈنر شاید کتاب ہی تھی۔ یہ ایک دنیا ہے جہاں لفظ مہکتے ہیں اور خیال نشہ بن کر طاری ہو جاتا ہے۔ وہ جس کہکشاں کے حصہ تھے وہ ادب کے نہایت زرخیز دور کے لوگ تھے۔ انتظار حسین‘ ناصر کاظمی‘سہیل احمد خان‘ منیر نیازی‘ حبیب جالب اور ایسے ہی نابغہ روزگار لوگ۔ زاہد ڈار صاحب کی غالباً ریڈنگ یعنی مطالعہ میں سپیشلائزیشن تھی۔ کتاب سے ان کی وابستگی ایک دلچسپ واقعہ سے لگائی جا سکتی ہے۔ ایک مرتبہ ان کے سامنے انور سجاد صاحب آن بیٹھے تو زاہد ڈار نے ان سے استفسار کیا کہ وہ ان دنوں کیا لکھ رہے ہیں؟انور سجاد بولے میں یہ قوم اس قابل نہیں کہ ان کے لئے کچھ لکھا جائے۔ زاہد ڈار نے اپنا چائے کا کپ اٹھایا اور دوسری میز پر جا بیٹھے۔ ڈاکٹر انور سجاد کو تشویش ہوئی اور جا کر زاہد ڈار سے پوچھا کہ آخر یہ رویہ کیوں؟زاہد ڈار نے کہا کہ ’’دیکھو ڈاکٹر!تم لکھتے ہو تو میں پڑھتا ہوں۔ تم نہیں لکھو گے تو میرا تمہارے ساتھ کیا رشتہ‘بہرحال کتابیں صرف پھول رکھنے کے لئے نہیں ہوتیں یا پھر الماری میں پردوں کے ساتھ میچ کر کے رکھنے کے لئے نہیں۔جو قدر دان ہیں انہیں آنکھوں سے دل میں اتار لیتے ہیں۔ پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں میں آخری مرتبہ انہیں انتظار حسین کے گھر پر ملا۔ وہ مسکراتے ہوئے ملے‘دو گھڑی کے لئے کتاب بند کر لی۔ پھر ہم انتظار حسین کے لائبریری نما ریڈنگ روم میںمحو گفتگو تھے۔ زاہد ڈار باہر ہم سے بے نیاز کتاب میں گم رہے۔ پتہ چلا کہ ان دنوں وہ انتظار حسین کی طرف آ جاتے ہیں اور وہ دونوں دوست اکٹھے چائے پیتے ہیں۔وہ زیادہ تر خاموش رہتے تھے۔ کبھی کبھی پتہ چلتا کہ وہ کسی محبت میں مبتلا ہیں، مگر ایسے لوگوں کی محبتیں بھی خاموش ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی ان کی میز پر کشور ناہید کو بھی بیٹھے دیکھا۔ مستنصر حسین تارڑ سے سعادت سعید تک کس کس کا نام لکھوں۔ ہم تو جونیئر تھے۔وہاں بیٹھ کر چانپیں کھانے والے۔ الٰہی بخش اپنی کھڑی مونچھوں کے ساتھ آن کھڑا ہوتا اور ہم آرڈر لگاتے۔ مزے کی بات یہ کہ بعض اوقات دانشور دوستوں کی مجلس میں بھی زاہد ڈار کتاب پڑھ رہے ہوتے۔ وہ نظمیں لکھتے مگر چھپاتے پھر انہوں نے صفدر میر کو رازدار بنایا تو وہ نظمیں کراچی کے ایک رسالہ میں ’’سادھو‘‘ کے فرضی نام سے شائع ہوئیں۔ لوگ سادھو کو ڈھونڈنے لگے۔ آخر پتہ چل ہی گیا کہ سادھو تو یہی زاہد ڈار ہے۔ پتہ نہیں وہ گم نام رہنا چاہتے تھے: بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں وہ انتہائی معصوم اور صاف گو تھے۔ کہنے لگے کہ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ لہٰذا کسی نے میرے ساتھ محبت نہیں کی اور شاعری میں اس لئے نہیں کرتا کہ میرے پاس محبت کاتجربہ نہیں۔لہٰذا انہوں نے تجربے آنے والی تنہائی اور مایوسی پر ضرور طبع آزمائی کی۔ انہوں نے شادی نہیں کی‘میں اس حوالے سے موقف رکھتا ہوں کہ اگر وہ کر سکتے تو ضرور کرتے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے فرار کا راستہ اختیار کیا اور کتاب میں پناہ ڈھونڈی۔کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کی شاید کیمسٹری ہی ایسی تھی کہ کتاب ان کے لئے نشہ کا درجہ حاصل کر چکی تھی۔وہ دنیا بھر سے کیا، کائنات سے بھی ایک علاقہ تو رکھتے تھے۔ انہوں نے درد کا شہر اور کچھ اور مجموعے بھی شائع کروائے۔ رنگ ان کا جداگانہ ہے۔ آپ کسی پہ پابندی نہیں لگا سکتے۔ زندگی میں رنگا رنگی تو ہے۔ آخر pinterنے بھی تو لایعنیت پر ڈرامے لکھے۔ یہ سب زندگی کے رنگ ہیں اور زندگی کے بغیر ہر شے بے رنگ ہے۔ زاہد ڈار ایک خاص انداز میں ماہ و سال گزار کر خاموشی کے ساتھ غروب ہو گئے۔قیصر ا لجعفری شعر یاد آ گیا: جوڈوبنا ہو تو اتنے سکون سے ڈوبو کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتہ نہ چلے ویسے میں کبھی سوچتا ہوں کہ محبت تو انہیں یقینا ہو گی۔ شاید وہ اظہار نہیں کر پائے۔ اسی لئے اس تجربے سے نہیں گزرے۔ ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں ہوتی شاید ہمیں بتانے کی جرأت نہیں ہوتی ہم نے Happinessکے مضمون میں پڑھایا تھا کہ فلسفیوں نے ایک نووارد کو اس لئے محفل سے نکال دیا کہ اس کے پاس محبت کا تجربہ نہیں تھا۔ جو بھی ہے زاہد ڈار کا کردار بہت ہی پیار اور محبت کرنے کے قابل تھا. کتاب سے ان کی دوستی انہیں ممتاز کرتی ہے۔ یہ کم نہیں کہ وہ لفظ سے جڑے ہوئے تھے۔ کتاب سے بیاہے ہوئے تھے۔ ادب ایک مزاج اور انداز کا نام ہے۔سب ایک طرح کے نہیں ہوتے کوئی ہمیں بھی تو کہہ سکتا ہے کہ اتنی دوڑ دھوپ کا فائدہ کیا۔ میں نے تو ایک نظم ثمینہ راجا کی بھی پڑھی تھی۔ مجھے کیوں بنایا‘وہاں بھی یہ شکایت تھی کہ اتنا کچھ کائنات میں تھا پھر ثمینہ راجا کی کیا ضرورت تھی۔ مگر وہی جو شیکسپیئر نے کہا کہ ہر شخص ایک کردار کی طرح دنیا کے سٹیج پر آتا ہے اور اپنا کردار ادا کر کے چلا جاتا ہے۔ زاہد ڈار اپنی جبلت میں ایسے ہی تھے۔ ادب کی تاریخ میں یہ کردار ہاتھ میں کتاب اٹھائے اور کتاب پر نظر جمائے ہمیں یاد آتا رہے گا۔