ہمارے رپورٹر نے خبر دی ہے کہ کاٹن،پویسٹر،سٹیپل،اکلیرک اور دوسرے دھاگوں کی قیمتیں بڑھنے پر ٹیکسٹائل کے برآمدی آرڈرز کی لاگت پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے،اس صورتحال سے پاور لومز مالکان اور تاجر حضرات کی پریشانی بھی سوا ہو گئی ہے۔ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات بڑھنے کے بعد دھاگے کی قیمتوں میں اضافے نے برآمدات پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔فیصل آباد کی ٹیکسٹائل فیکٹریوں اور مشنیوں پر دن رات ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری کے لیے خام مال کی کمی ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے، عدم دستیابی کی وجہ سے خام مال مہنگا اور برآمدکنندگان کی پیداواری لاگت کے تخمینے سے باہر ہو تا جا رہا ہے۔ صنعتکار وںکا کہنا ہیکہپاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہونے والی ہیں۔پچھلے 2 مہینے کا ڈیٹا دیکھیں تو ایکسپورٹس آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ دھاگے کی قیمتیں بڑھنے کا ردعمل منفی آئے گا۔صعنتکار کہتے ہیں کہ خام مال کی عدم دستیابی کے مسئلے کے حل کے لیے وہ حکومت کو تجاویز دے چکے ہیں،وزیر تجارت رزاق داؤد کو آگاہ کیا گیا ہے کہ خام مال کی قلت کم کرنے کے لیے بھارت سے کاٹن یارن کی امپورٹ کی اجازت دی جائے جس پر انہوں نے ازبکستان اور ترکمانستان کے راستے امپورٹ کی اجازت دینے کا وعدہ کیا۔اس وجہ سے آئندہ چند ماہ خام مالکی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ دھاگے کی صنعت کو پانچ سال پہلے بھی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ چین سے سست بارڈر کے ذریعے دھاگے کی بڑھتی ہوئی سمگلنگ دھاگہ سازی کی مقامی صنعت کی بقاء کیلئے خطرہ بن گئی تھی۔ اس وقت پاکستان میں منظم اور غیرمنظم شعبے کے تحت قائم چھوٹی بڑی صنعتیں سالانہ 6 ہزار ٹن کاٹن اور پولسٹر دھاگے کی پیداوار دے رہی تھیں جس میں 50 فیصد سے زائد دھاگہ تولیہ ساز، لیدر اینڈ ریڈی میڈ گارمنٹس، ہوزری سمیت ہوم ٹیکسٹائل کے برآمدی صنعتوں میں استعمال ہورہا تھا ۔ باقی ماندہ 40 تا پچاس فیصد دھاگے سے ملکی ضروریات کو پورا کیا جاتا ۔ مقامی پیداوار کا 10 فیصد پولسٹر دھاگہ سست بارڈ رسے مستقل بنیادوں پر سمگل ہورہا تھا جو مارکیٹ میں مقامی طور پر تیار ہونیوالے دھاگے کی نسبت 15 فیصد کم قیمتوں پر فروخت کیا جاتا تاہم چین سے سمگل ہونیوالا دھاگہ صرف چند رنگوں پر مشتمل ہے جس کی مقامی مارکیٹ میں زیادہ کھپت ہے۔ سن 2009 میں بھی ایسا ہی بحران پیدا ہوا تھا،ملک میں دھاگے کی قیمتوں میں اضافے، بلیک مارکیٹنگ اور عدم دستیابی کے باعث ٹیکسٹائل کی صنعت مزید بحران کا شکار ہو گئی جبکہ یورپی خریداروں نے پاکستانی ایکسپورٹرز کو دئیے گئے 60 لاکھ ڈالر مالیت کے ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل آرڈرز منسوخ کردئیے تھے۔ ملک بھر میں دھاگہ اور کپاس انتہائی مہنگا ہونے اور دھاگے کی قلت کی وجہ سے ساٹھ لاکھ ڈالر مالیت کے تولیے اور فیبرکس کے برآمدی آرڈرز منسوخ ہوگئے جبکہ پیداواری لاگت میں تقریبا تیس سینٹس اضافے کی وجہ سے غیر ملکی خریداروں نے آرڈرز منسوخ کئے ۔ایکسپورٹرزکے مطابق یارن کی بھاری مقدار چین ایکسپورٹ کردی گئی جس کے باعث چین اور بنگلہ دیش کم نرخوں پر عالمی مارکیٹ کو گارمنٹس فراہم کرنے لگے ۔ ایکسپورٹرز اس قابل نہیں رہے تھے کہ آرڈرز کو مقررہ نرخوں پر فراہم کرسکیں۔ سینکڑوںپیداوارییونٹ بند ہونے کے ساتھ ساتھ لاکھوں افراد بیروز گار ہوگئے۔ چین سے دھاگے اور ٹیکسٹائل سے منسلک دیگر خام اشیا کی برآمد بند ہونے سے اندرون ملک تیار دھاگے کی مانگ میں خاصا اضافہ ہو ہوا ہے۔ سلائی کا دھاگہ وہاں بنتا تھا جو اب بند ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ بٹن اور کپڑوں میں استعمال ہونے والی زپ وغیرہ بھی نہیں آ رہی تو ایسے میں مقامی صنعت کاروں کو فائدہ ہوا ہے۔یو این سی ٹی اے ڈٰی کے تخمینوں کے مطابق کورونا وائرس یا کووڈ-19 کی وبا کی وجہ سے چین میں مینوفیکچرنگ کی سست روی عالمی تجارت میں خلل ڈال رہی ہے اور اس کا نتیجہ عالمی ویلیو چین میں برآمدات میں 50 ارب ڈالر کی کمی ہو سکتی ہے۔ چینی پیداوار میں کمی کسی بھی ملک کے لیے اس لیے اہم ہے اس کی صنعتوں کا چینی سپلائرز پر کتنا انحصار ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ معیشت بحال ہو، کاروبار آگے بڑھے اور اس حوالے سے تمام ضروری اقدامات کئے جائیں۔وزیر اعظم خود فیصل آباد گئے اور ٹیکسٹائل صنعت کی بحالی کے امکانات پر متعلقہ شخصیات سے تبادلہ خیال کیا ۔ حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر کے ساتھ مذاکرات کئے اور ان کے تمام اہم مطالبات کو تسلیم کر لیا ۔ صنعتوں کو رعائتی ساڑھے سات سینٹ فی یونٹ بجلی دی گئی اور گیس ساڑھے چھ ڈالر ایم ایم بی ٹی یو ریٹ سے فراہم کی جائے گی۔ گویا ایکسپورٹرز کے مسائل حل کر دیئے گئے۔مزید یہ کہ ایکسپورٹرز کو پہلے سے بہت کم شرح سود پر قرضے مل رہے ہیں۔ بتایا گیاکہ جنوری 2019 سے ایکسپورٹرز کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں جو اضافی چارجز لگائے گئے تھے وہ بھی واپس لے لئے جائیں گے۔مشیر تجارت رزاق داؤد نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو ان کے ریفنڈ کی ادائیگی کے لئے ڈیڑھ ارب روپے جاری کر دیئے ہیں۔اپٹما کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو ٹیکسٹائل انڈسٹری سے متعلق گمراہ کیا جا رہا تھا۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری 10 لاکھ لوگوں کو روزگار دے سکتی ہے۔اصل مسئلہ انرجی پرائس کا تھا، پاکستان کے پاس 3 ارب ڈالر کا کپڑا ہے، چھوٹا صنعت کارپاکستان میں صنعت لگا سکتا ہیصرف پالیسیوں میں تسلسل کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اس سلسے میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،یہ دیکھا جانا بھی ضروری ہے کہ کہیں ملک دشمن عناصر تو متحرک نہیں ہو گئے ،جنہیں برآمدات میں اضافہ ایک آنکھ نہیں بھا رہا ۔ حکومت ٹیکسٹائل کی صنعت کو خام مال کی عدم دستیابی کے مسئلہ کا فوری حل نکالے۔