وفاقی اور صوبائی حکومت اس وقت سیاسی اور معاشی دونوں محاذوں پر مشکلات میں گھری ہے، مہنگائی سے پریشان عوام کو ریلیف دینا اس وقت حکومت کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے، بجٹ کی بھی آمد آمدہے اور اعدادو شمار کا گورکھ دھندا اگلے ماہ عوام کے سامنے پیش کیا جانے والا ہے ۔بجٹ میں حکومت اگلے مالی سال میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پرو گرام میں 900 ارب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی حکومت کیلئے کیا یہ ممکن ہو پائے گا اور اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے افراد کی تعداد ہر روز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ہر سال 25لاکھ افراد غربت کی لکیر کے نیچے جا رہے ہیں ،ایک طرف تو غربت بڑھ رہی ہے، دوسری جانب ایف بی آر ٹیکس اہداف میں اضافہ کرنے کا سوچ رہا ہے۔ اس بار 5.5کھرب روپے کا ہدف رکھا جا رہا ہے۔عوام کو ایک طرف مہنگائی اور دوسری طرف بے روز گاری نے گھیر رکھا ہے،جو لوگ روز گار پر ہیں،ان کی آمدنی اتنی کم ہے کہ گزاراہ نہیں ہو رہا۔حکومت خود قرضوں کے بوجھ میں دبی ہوئی ہے،ان قرضوں سے چھٹکارہ پانے کیلئے ٹیکس میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔کیا اس صورتحال میں حکومت ٹیکس کا ہدف اکٹھا کر پائے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت میں ایک چیز کی کمی ہے ،وہ ہے فیصلہ سازی۔ حکومت اگر درست فیصلے کرے اور مینجمنٹ بہتر کرلے تو مہنگائی بھی کم ہو سکتی ہے، غربت میں کمی بھی آسکتی ہے، روز گار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ گروتھ ریٹ بہتر ہو سکتی ہے ۔ماہرین کے مطابق ٹیکس ریٹ بڑھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔جتنا حکومت ٹیکس ریٹ بڑھائے گی،اتنی ہی ٹیکس چوری بڑھتی جائے گی۔دنیا میں خوشی سے کوئی بھی ٹیکس نہیں دیتا،چاہے وہ ترقی یافتہ ملک ہو،چاہے ترقی پزیر ملک،جیسا کہ پاکستان۔حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس اتنا لے کہ کسی کو دیتے ہوئے بھاری نہ پڑے، ٹیکس نیٹ بڑھا لیں، چھوٹے چھوٹے دکانداروں سے بھلے تھڑا ہی ٹیکس لیں لیکن لیں ضرور ۔پاکستان میں لاکھوں دکاندار ہیں۔ ایک دکان سے 1000یا 500 روپے بھی ٹیکس لیں تو بہت زیادہ رقم اکٹھی ہو سکتی ہے۔ اب حکومت اگر ٹیکس ریٹ بڑھاتی ہے،تو اس سے فائدہ کوئی نہیں ہوتا، لوگ ٹیکس چوری شروع کردیتے ہیں۔ اصل ٹیکس حکومت تک نہیں پہنچ پاتا ،امپورٹ پر 5.5فیصد انکم ٹیکس 17 فیصد سیلز ٹیکس لگتا ہے 3فیصد ایڈیشنل ٹیکس لگتا ہے۔ اس کے بعد کسٹم ڈیوٹی لگتی ہے تو جو ٹیکسز اور ڈیوٹی ہیںکچھ کیسز میں،40 سے 50 فیصد تک بھی ہوتے ہیں، اس سے چیز مہنگی ہو جاتی ہے لیکن وہی چیز اسمگل ہو کر آپ کو آدھی قیمت پر پڑتی ہے تو کون ہو گا، جو ڈیکیو منٹڈ اکانومی میں آنا چاہے گا ۔حکومت طرح طرح کے قدغن لگا کر لوگوں کو ڈاکیو مینٹڈ سے خود لوگوں کو بھگا رہی ہے۔ایک تو حکومت اسمگلنگ پر قابو نہیں پا رہی ۔ٹیکس ریٹ ہائی ہیں، بیوپاری تو کہے گا ہی کہ مجھے کم قیمت میں مال چاہئے جب کم قیمت پر مال ملے گا،تو جیسا بھی مال ہو گا، وہ خرید لے گا کیونکہ وہ تو اپنا منافع دیکھے گا ،تو جتنا ٹیکس ریٹ کم ہوگا،اتنا ہی ٹیکس بیس بڑھے گی۔حکومت کو بھی فائدہ ہو گا ۔حکومت کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ محصولات ہیں جو بلا واسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کی شکل میں عوام سے وصول کئے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں براہ راست انکم ٹیکس کی وصولی اور بالواسطہ ٹیکسوں کسٹم ڈیوٹی، ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے کا نظام نہایت فرسودہ ہے۔محصولات اکٹھا کرنے کا ایک بنیادی اصول جو دنیا میں صدیوں سے رائج ہے،وہ یہ ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والی مشینری کودیانت دار،ایماندار اور ہر قسم کے دبائوسے آزاد ہونا چاہئے۔ اگر محصولات اکٹھا کرنے والا عملہ ہی جمع شدہ رقومات میں خوربرد کرے گا،تو قومی خزانے میں کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس قوانین نہایت ہی سخت بنائے جاتے ہیں۔ ایک عام شہری سے لے کر صدر تک کوئی بھی ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں ہے اور ٹیکس چوری کرنے کو ایک سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔ جب کہ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ٹیکس چوری ایک وباء کی طرح پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ عام تاجر، صنعتکاروں کے علاوہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے جاگیر دار، وڈیرے سب ہی ٹیکس دینے سے گریزاں رہتے ہیں۔ 22 کروڑ آبادی والے ملک میں اس وقت صرف 27 لاکھ 50 ہزار افراد ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ پر ہیں۔ ان میں سے بھی زیادہ تعداد سرکاری ملازمین کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سالانہ بجٹ بناتے وقت محصولات کا جو اندازہ لگایا جاتا ہے وہ کبھی درست ثابت نہیں ہوتا ہے۔ٹیکسوں کی وصولی کے جو اہداف مقرر کئے جاتے ہیں وہ کبھی پورے نہیں ہوتے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح 4 فیصد سے بھی کم ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح نوے فیصد سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں عوام کے لئے تمام سہولتوں کی ارزانی ہے۔ پاکستان کے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس دینے والوں کی شرح تقریباً 9 فیصد بنتی ہے جب کہ پاکستان کے مساوی جی ڈی پی والے دیگر ممالک میں یہ شرح 14 فیصد سے کم نہیں۔ جب تک پاکستان اپنے ذرائع آمدنی میں اضافہ نہیں کرتا، اسے بدستور قرضوں پر ہی گزر بسر کرنی پڑے گی ،جن کے سود کی قسطیں ادا کرنے کے لئے وہ مزید سود در سود لیتا رہے گا یا پھر بیرونی ممالک سے جھولی پھیلا کر امداد کی التجا کرنا پڑے گا۔ اس وقت پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ تقریباً 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جس کا سیدھاسادا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی آمدنی کا 60 فیصد تو قرضوں کی اقساط اور ان کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے۔ طاقتور اور متمول طبقے اگر خود دیانتداری سے ٹیکس ادا کریں تو وہ تمام نیچے والوں کے لئے مثال قائم کر سکتے ہیں۔ ان لوگوں کے ٹیکس دینے سے ٹیکس جمع کرنے والوں کی بدعنوانیاں بھی ختم ہو سکتی ہیں جو پورا ٹیکس وصول کرنے کی بجائے ٹیکس دہندگان کے ساتھ مک مکا کر لیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو بخوبی احساس ہے کہ ملک میں ٹیکس وصولیاں بہت کم ہیں،یہی وجہ ہے کہ اپنے انتخابی دعوئوں میں اس نے ٹیکس وصولیوں کو جی ڈی پی کے 15 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ حکومت کی معاشی ٹیم اس کے لئے کوشش بھی بہت کر رہی ہے لیکن پاکستان کے عوام ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے بہانے تراشتے ہیں اور حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔اس بات کا تذکرہ وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی کیا ہے کہ وہ جو اصلاحات کرنا چاہتے ہیں،طاقتور عناصر ان کے لئے مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں۔پاکستان اس وقت جس قسم کی صورتحال کا شکار ہے ایمانداری سے ٹیکس دیئے بغیراس سے نہیں نکلا جا سکتا ہے۔ حکومتی ذرائع آمدن یعنی جب تک ٹیکس وصولیوں میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہو گا۔ عوام کی حالت بہتر نہیں بنائی جا سکے گی۔ پاکستان کی اشرافیہ نہایت پر تعیش زندگی گزارتی ہے لیکن یا تو ٹیکس دیتی ہی نہیں ہے یا پھر پھر بہت کم ٹیکس دیتی ہے۔ بعض صورتوںمیں تو وہ کاروباری مراکز سے مہنگی اشیاء خریدتے ہیں لیکن انہوں نے این ٹی این نہیں لے رکھا ہے۔ اس کے لئے ٹیکس ادائیگی کو قومی فریضہ سمجھنا پڑے گا۔ عوام کے پاس پیسہ بھی ہے مگر وہ ٹیکس نظام سے بچنے کے لئے آگے نہیں بڑھتے۔ ٹیکس کے نظام میں بہتری کے لئے عوام کے اعتماد میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت ٹیکس کے نظام کو آسان اور شفاف بنائے۔