اللہ تعالیٰ ڈاکٹر سعد ایس خان کا بھلا کرے‘ انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے ایک ایسے پہلو پر داد تحقیق دی جس پر ان کے سوانح نگاروں نے قرار واقعی توجہ نہیں دی‘ قائد اعظم کی سیاسی عظمت اور ذاتی بلند کرداری پر بہت کچھ لکھا گیا‘ ان کی امانت و دیانت کا اعتراف ہر ایک نے کیا‘ ڈاکٹر سعد ایس خان نے مگر قائد اعظم کو ایک ٹیکس گزار شہری کے طور پر پیش کیا ہے ‘ایسا ذمہ داری شہری جو اپنی آمدن پر عائد جملہ ٹیکس دیانتداری سے ادا کرتا اور دوسروں کے لئے نمونہ تقلید بنتا ہے‘ متحدہ ہندوستان کا ایک دولت مند شہری ذاتی اخراجات میں کفایت شعاری اور جزرسی کا عادی مگر ٹیکس کی ادائیگی میں انتہائی فراخدل اور پرجوش۔ ڈاکٹر سعد ایس خان اپنی کتاب ’’محمد علی جناح۔ دولت‘ جائیداد اور وصیّت‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’قائد اعظم تمام عمر اپنی کمائی پر ٹیکس گزار رہے ۔کئی اقسام کے مرکزی ٹیکس (جیسا کہ آمدنی ٹیکس) صوبائی ٹیکس(جیسا کہ پراپرٹی ٹیکس) اور بلدیاتی محصولات)مثلاً واٹر ریٹ یا آبیانہ وغیرہ) ادا کرتے رہے۔1931ء میں آمدن کی مدمیں 1.177روپے 10آنے‘1932ء میں 1.432روپے‘ 1935ء میں 17.754روپے‘1937ء میں 4.877روپے 8آنے جبکہ مالی سال 1939-40ء کا آمدن ٹیکس 4.998روپے ادا کیا۔ آخرالذکر ٹیکس ریٹرن کا عکس اسی کتاب کے تصاویر کے صفحات پر شائع کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح آپ کی برطانیہ میں قیام کے دور کی کچھ دستاویزات حوادث زمانہ سے بچ گئیں۔ ان دستاویزات کے مطابق 1933-34ء کا پراپرٹی ٹیکس آپ نے 66پونڈ 3شیلنگ11پنس ادا کیا جس کی رسید قومی آرکائیوز کی زینت ہے۔‘‘ ’’برطانوی دور کے اواخر میں ہندوستانی وائسرائے کی سالانہ تنخواہ 18.810 برطانوی پونڈ یعنی 2,50,900روپے (1947ء کی شرح مبادلہ کے لحاظ سے) بنتی تھی جو کہ ماہانہ 20,900روپے ہوئی۔ پاکستان کے مالی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں گورنر جنرل کی ماہانہ تنخواہ اس کے نصف سے بھی کم یعنی 10,416روپے 10آنہ مقرر ہوئی۔ تین ہزار ماہانہ سے زائد تنخواہ پر آمدن ٹیکس کا سب سے اونچا سلیب لاگو تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ پانچ ہزار روپے ماہانہ سے اوپر جتنی آمدنی ہو اس کا 60فیصد ایک سپر ٹیکس کی مد میں کٹ جاتا تھا۔‘‘ ’’ بطور گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم ہر ماہ 2,291روپے 4آنہ آمدن ٹیکس اور 3,190روپے 2آنہ سپر ٹیکس ادا کرتے۔ اب تنخواہ میں مجموعی 6,112روپے کی ٹیکس کٹوتی کے بعد آپ کو ماہانہ فقط 4,304روپے 10آنہ ملتے۔ وکالت کے دور کی 1,500روپے یومیہ آمدنی کے لحاظ سے یہ آپ کی تین دن کی بھی آمدن نہ تھی۔ مزید برآں آپ کی تمام سرمایہ کاری پر منافع ٹیکس منہا کر کے ادا کیاجاتا جبکہ جائیداد کے لین دین پر ٹیکس الگ تھا۔ صرف مہتہ بلڈنگ کراچی خریدنے پر 30,300روپے ٹیکس ادا ہوا۔‘‘ ’’پاکستان بننے کے بعد آپ کی زندگی کے ایک سال 27دن میں آپ کو سرکاری خزانہ سے55,920روپے 6آنہ تنخواہ کی مد میں ملے اور اسی دور میں 1,66,620 روپے 12آنہ آپ نے ٹیکس کی مد میں خزانہ میں جمع کروائے یعنی آمدن سے تقریباً چار گنا زیادہ‘‘ ’’آئیے اب قائد اعظم کے جائیداد ٹیکس کی ادائیگیوں پر نگاہ دوڑاتے ہیں: قائد اعظم کے سب سے بڑے مکان سائوتھ کورٹ المعروف جناح منزل بمبئی پر 790روپے 3آنہ سالانہ ٹیکس ادا ہوتا تھا جس میں سے گرائونڈ رینٹ 472روپے 8آنہ دوشش ماہی قسطوں میں جبکہ 17روپے 4آنہ ماہانہ(جو سال کا 207روپے بنتا تھا) فری ہولڈ کی مد میں باغات کے ٹیکس کے طور پر حکومت کو ادا ہوتا تھا۔ باقی 111روپے سالانہ متعدد بلدیاتی محصولات کی مد میں واجب الادا ہوتے۔جناح منزل دہلی 470روپے سالانہ گرائونڈ ٹیکس 235روپے کی دوشش ماہی قسطوں میں ادا کیا جاتا جبکہ 3ایکڑ باغات کے لئے غیر فلٹر شدہ پانی کا آبیانہ(واٹر ریٹ) سالانہ 255روپے بھی 127روپے 8آنہ کی دوشش ماہی قسطوں میں ادا ہوا کرتا تھا۔جناح منزل لاہور کی خریداری کے وقت قائد اعظم نے مبلغ 441 روپے بطور پراپرٹی ٹیکس ادا کئے تھے جس کا ریکارڈ موجود ہے پھر یہ مکان فوج کی کرایہ داری میں چلا گیا اور طے شدہ سالانہ 8.400روپے کرایہ (یعنی 700روپے ماہانہ) میں سے قائد اعظم کو ہر سال صرف 3,600روپے(یعنی 300روپے ماہانہ) ملا کرتے تھے۔ہر ماہ جو 400روپے کی کٹوتی ہوتی اس میں سے کچھ تو ٹیکس تھا اور باقی مکان کی مرمت وغیرہ کے اخراجات قائد اعظم کو واجب الادا کرایہ سے منہا کئے جاتے۔ ٹیکس کی سالانہ تشخیص کیا تھی۔ اس بارے میں کوئی حتمی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔ تاہم اس بنگلے پہ قائد اعظم اپنی زندگی میں ہزار ہا روپے بطور ٹیکس ادا کرتے رہے۔‘‘ ’’1946ء کی عبوری حکومت میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں شریک تھے۔ اہم وزارتوں میں سے وزارت خارجہ جواہر لال نہرو(یعنی کانگریس) اور وزارت خزانہ لیاقت علی خان(یعنی مسلم لیگ) کو ملی۔ یہی دونوں صاحبان 1947ء میں آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان کے پہلے پہلے وزیر اعظم بنے۔1946ء میں جب لیاقت علی خان نے بجٹ پیش کیا تو ایک لاکھ روپے سے اوپر کی آمدنی والے افراد پر 25فیصد آمدن ٹیکس لگا دیا۔ نیز کارپوریٹ ٹیکس اور چائے پر درآمدی ڈیوٹی دگنی کر دی۔5,000روپے سے اوپر منافع پر Capital Gains Taxنافذ کر دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک کمیشن تجویز کیا تاکہ ان عناصر کی نشاندہی کی جا سکے جنہوں نے جنگ عظیم میں منافع خوری سے دولت بنائی یا ٹیکس چوری کیا اور ان پر بھاری جرمانے تجویز کئے۔ اس بجٹ کو عام طور پر ’’جناح بجٹ‘‘ کہا جاتا تھا جس سے کانگریس کے حامی سرمایہ داروں اور ساہوکاروں کے مفادات پر کاری ضرب پڑی اور وہ بلبلا اٹھے۔ کانگریس تو اتنی سیخ پا ہوئی کہ اسے اندازہ ہوا کہ مسلم لیگ کے ساتھ چلنا ناممکن ہے۔ یہ قیام پاکستان کے عوامل میں انتہائی اہم پہلو ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس ملک کا بانی اتنی فرض شناسی کے ساتھ ٹیکس دہندہ رہا ہو‘ کیا وجہ ہے کہ وہاں ٹیکس چوری کا رجحان سرطان کی طرح پھیل گیا؟‘‘ جواب واضح ہے کہ جب حکمران ٹیکس چور‘فضول خرچ اور قومی خزانے کو حلوائی کی دکان سمجھ کر نانی‘ دادی کی فاتحہ پڑھنے پر کمر بستہ ہو گئے ‘ عام شہری تاجر‘ صنعت کار‘ بیورو کریٹس وغیرہ پیچھے کیوں رہتے سبھی ان کے نقش قدم پر چلنے لگے‘ الناس علی دین ملوکہم۔