وہ قائدین بڑے قابل قدر ہوتے ہیں جو اپنی قوم کو بڑے خوبصورت خواب دکھاتے ہیں اور وہ قومیں بڑی خوش قسمت ہوتی ہیں جنہیں ان خوابوں کی تعبیر مل جاتی ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے خواب دیکھا اور اپنی قوم کو واضح تصور پاکستان دے دیا۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے اس خواب کی تعبیر تخلیق پاکستان کی صورت میں پیش کر کے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور دنیا کو حیران کردیا۔ اس کے بعد خوابوں اور ان کی تعبیروں کا سلسلہ رک گیا۔ درمیان میں کبھی کبھی بڑے جذباتی انداز میں کچھ سہانے سپنے دکھائے گئے مگر قوم کو کسی خواب کی کوئی تعبیر نہ مل سکی۔ مدتوں بعد عمران خان نے بہت سے خوابوں کی تجدید کی اب قوم منتظر ہے کہ انہیں تعبیر کب نصیب ہوتی ہے۔ کوئی تقریباً پندرہ برس قبل عمران خان کے جس خواب نے مجھے اپنی طرف مائل کیا وہ یکساں تعلیم کا خواب تھا۔ میرا خیال تھا کہ خان صاحب اور ان کی ’’تعلیمی ٹیم‘‘ اگر کوئی تھی یا ہے، تو اس نے اس بارے میں بڑا تفصیلی ہوم ورک کیا ہوگا اور عملاً اسے نافذ کرنے کا روڈ میپ تیار کیا ہوگا۔ مگر یکساں تعلیم کے نام پر جو کچھ صوبہ کے پی کے میں نافذ کیا گیا اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ تم کو اس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں میاں شہبازشریف کی یکساں تعلیم کے پنجاب میں اور عمران خان کی یکساں تعلیم کے خیبر پختونخوا میں جو ہولناک نتائج سامنے آئے ان کا تجزیہ پیش کرنے سے پہلے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جسے یکساں تعلیم سمجھتے ہیں ان کی جھلک پیش کرنا ضروری ہے۔ کینچی اوماہے جاپان کا ایک ایسا ماہر اقتصادیات ہے جس کی مغرب میں بھی بہت پذیرائی ہوتی ہے بلکہ وہ کئی امریکی کمپنیوں کا مشیر بھی رہا ہے۔ کینچی نے اپنی کتاب The Art of Japanese Business میں لکھا ہے کہ دنیا نے ہماری زبردست ترقی کے بارے میں کئی خیالی و فرضی کہانیاں مشہور کر رکھی ہیں جبکہ ہماری ترقی کا ایک ہی راز ہے اور وہ ہماری تعلیم، یکساں تعلیم کا نظام ہے۔ جاپان میں ایک ہی طرح کی تعلیم دی جاتی ہے اور سوفیصد جاپانی زبان میں دی جاتی ہے۔ بچہ جس روز چھ برس کا ہوتا ہے تو قریب ترین سکول کی ایک خوش اخلاق ٹیچر بچے کے گھر آتی ہے، گھر والوں کو گلاب کا پھول پیش کرتی ہے اور بچے کو لے کر سکول چلی جاتی ہے اور اس کے بعد گھر والوں کی ذمہ داری ختم اور سکول کی ذمہ داری شروع۔ جاپان میں زیادہ پبلک سکول ہیں تھوڑے سے پرائیویٹ سکول بھی ہیں مگر سلیبس سب سکولوں میں یکساں ہے اور اپنی زبان میں ہے۔ البتہ پرائیویٹ سکولوں کو میوزک اور آرٹ وغیرہ کے سلسلے میں تھوڑی سی آزادی ہے اور بس۔ جاپانی سکولوں میں پڑھایا کیا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب بھی کینچی اوماہے دیتا ہے کہ کنڈرگارٹن میں آداب زندگی اور جاپانی اقدار سکھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بار بار جو بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جاپان ایک ایسا ملک ہے جس میں قدرتی وسائل نہیں۔ زندہ رہنے اور بہترین معیار زندگی کے ساتھ جینے کا ہمارے پاس صرف اور صرف ایک طریقہ ہے کہ ہم دنیا سے خام مال منگوائیں اور اپنے علم اور مہارت سے اس کی قدر بڑھائیں اور انواع و اقسام کی اشیاء دنیا کو برآمد کریں۔ اپنا اقتصادی ماڈل وہ ایم اے اور پی ایچ ڈی کے طلبہ و طالبات کو نہیں سمجھاتے بلکہ سادہ اور آسان مثالوں سے کنڈر گارٹن کے بچوں کو بتاتے ہیں۔ یہ بات ہر پبلک و پرائیویٹ سکول میں کنڈر گارٹن سطح ہی کے بچوں کو سمجھا دی جاتی ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے بہترین نظام تعلیم فن لینڈ میں رائج ہے۔ جس پر تمام ممالک رشک کرتے ہیں۔ 60 لاکھ آبادی کا یہ چھوٹا سا یورپی ملک بہت خوش حال، بہت خوش باش اور کرپشن سے پاک ہے۔ فن لینڈ کے دانشوروں اور حکمرانوں نے اپنی ترقی و خوشحالی کا راز بھی دنیا پر آشکارا کردیا ہے۔ راز یکساں سکول سسٹم ہے، اساتذہ انتہائی تربیت یافتہ بالخصوص عملی سائنس کی زبردست ٹریننگ انہیں دی جاتی ہے اور استاد کے لیے زبردست احترام کا حقیقی کلچر اپنایا گیا ہے۔ چین دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایک ارب سے زائد آبادی کا ملک مگر ہر سکول میں ایک طرح کا نصاب اپنی زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔ نتیجہ کیا ہے؟ نتیجہ یہ ہے جاپان جاپانی زبان میں، امریکہ امریکن انگریزی میں، جرمنی جرمن زبان میں، برطانیہ انگریزی میں، فن لینڈ فن زبان میں، چین چینی زبان میں ایک جیسی تعلیم دیتے ہیں۔ اسی طرح ترکی اور عرب دنیا اپنی اپنی زبانوں میں یکساں تعلیم دیتے ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں عمران خان نے سرکاری سکولوں میں ذریعہ تعلیم کے طور پر انگریزی نافذ کر کے سمجھا کہ یکساں تعلیم نافذ ہوگئی ہے اس کا جو بھیانک نتیجہ سامنے آیا وہ یہ ہے کہ وہاں پرائمری سکولوں سے 44 فیصد اور سکینڈری سکولوں سے چالیس فیصد بچے اس بے مزہ تعلیم سے گھبرا کر سکول چھوڑ گئے ہیں۔ 2013ء میں چھ لاکھ 85 ہزار بچوں نے پرائمری سکول میں داخلہ لیا اور اب ان کی تعداد صرف تین لاکھ 69 ہزار رہ گئی ہے جبکہ سکینڈری سکولوں کی تعداد تین لاکھ سے کم ہو کر ایک لاکھ 69 ہزار ہو گئی ہے۔ اس ڈراپ آئوٹ کا سب سے بڑا سبب ناقابل فہم ’’انگلش میڈیم‘‘ ہے۔ اس سے پہلے بیچاری کم علم قوم کو ’’انگلش میڈیم‘‘ کا لالی پاپ دینے کے لیے پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے 2009ء میں انگریزی ذریعہ تعلیم پنجاب کے ہر دیہاتی، قصباتی اور شہری سکول میں نافذ کردیا۔ اسی طرح وہاں پینتیس چالیس فیصد بچے سکول چھوڑ گئے۔ باقی بے چارے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو گھسیٹتے رہے۔ بعدازخرابی بسیار 2013ء سے لازمی انگلش میڈیم ختم کرکے اردو میں بھی تعلیم حاصل کرنے کاپرانا طریقہ رائج کردیا گیا۔ یہ اسی پرانے طریقہ تعلیم کا اعجاز تھا کہ پنجاب کے نسبتاً ’’پسماندہ‘‘ علاقوں سے بھی بچے اردو میڈیم میں بہترین نمبرلاتے، گورنمنٹ کالج لاہور جیسے اداروں میں داخلہ لیتے۔ پھر پروفیشنل کالجز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے اور سی ایس ایس کے امتحان میں بہترین پوزیشن لاتے۔ کالج و یونیورسٹی میں انگریزی میں پڑھتے ہوئے انہیں کبھی دقت پیش نہ آئی۔ اب اس جبری انگریزی میڈیم کے نتیجے میں چھوٹے علاقے سے تعلق رکھنے والے بچے اگر دل برداشتہ ہو کر سکول چھوڑ جائیں یا تھرڈ ڈویژن لے کر پاس ہو جائیں اور اچھے کالجوں میں پہنچنے کے بجائے کہیں چپڑاسی کی نوکری تلاش کریں یا چھابڑی لگائیں تو کیا انگلش میڈیم کے نام پر یہ ان کے ساتھ اچھائی ہے یا ظلم۔ اس وقت پاکستان میں کم و بیش دس بارہ قسم کے انگریزی میڈیم سلیبس سکولوں میں رائج ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سکولوں میں تیس ہزار سے لے کر ستر ہزار ماہانہ فیس ادا کرنے کے بعد بھی بچوں کو اکیڈمی جانا پڑتا ہے یا ٹیوٹر سے مدد لینا پڑتی ہے۔ اردو میڈیم سکولوں میں الگ نصاب تعلیم ہے۔ دینی مدارس کا جدید تعلیم سے برائے نام تعلق ہے۔ سردست یکساں سہولتوں کو چھوڑیئے۔ اگر قوم حقیقی ترقی و خوشحالی اور یکجہتی چاہتی ہے تو پھر اس کا ایک ہی طریقہ ہے ہر سکول اور ہر دینی مدرسے میں میٹرک تک ایک ہی نصاب تعلیم رائج کیجئے۔ اس کے علاوہ عمران خان کے ذہن میں کوئی ’’ماڈل‘‘ تھا تو وہ خیبرپختونخوا میں ناکام ثابت ہو چکا ہے۔ عمران خان بار بار سٹیٹس کو توڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر پھر انہی پامال راستوں پر چل پڑتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کا اپنا تعلق بھی اسٹیبلشمنٹ سے تھا مگر اردو میں یکساں نصاب تعلیم کا ان کا پروگرام مقتدر حلقوں نے نہ چلنے دیا اور پھر اسی طبقاتی تعلیم نے پہلے سے بڑھ کر اپنے پنجے گاڑ دیئے۔ خان صاحب کے اندر اگر قوت بازو ہے تو سٹیٹس کو توڑیں، اردو کو سرکاری زبان اور نصاب تعلیم کے طور پر نافذ کریں اور سی ایس ایس کا امتحان اردو میں لیں۔ نفاذ اردو فرمان قائد بھی ہے، دستوری تقاضا بھی ہے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے۔ اگر خان صاحب سٹیٹس کو نہ توڑ سکے اور اردو میں یکساں نصاب نہ نافذ کرسکے تو لوگ یہ تو ضرور کہیں گے۔ کہیے تو اب وہ قوت بازو کہاں گئی۔ میں تنظیم اساتذہ پاکستان کے صدر میاں محمد اکرم اور پروفیسر شفیق احمد کا شکرگزار ہوں جنہوں نے مجھے ’’ایک قوم۔ ایک منزل۔ ایک نصاب تعلیم‘‘ کے موضوع پر یہ گفتگو کرنے کا موقع دیا جسے میں نے قارئین سے بھی شیئر کیا ہے۔ ہم اور ہمارے قائدین قومی سطح پر اپنے آپ کو فریب میں مبتلا کئے ہوئے ہیں اور انگلش میڈیم کے نام پر بچوں کو کونین کی کڑوی گولی کھانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ قوم نے عمران خان سے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے اور اپنی زبان میں یکساں نصاب رائج کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر اسٹیٹس کو کا ہی حصہ بن جاتے ہیں۔