پاکستان کے جاگیردارانہ ‘ طبقاتی معاشرہ میں یکساں نصاب تعلیم نافذ کرنا کسی جہاد سے کم نہیں۔ملک کے امیر‘ دولتمند لوگ یہ نہیں چاہتے کہ انکے بچے وہی تعلیم حاصل کریں جو کم آمدن والے گھرانوںکے بچے حاصل کرتے ہیں۔ انکے بچے بھی وہی زُبان بولیں جس میں غریب غربا گفتگو کرتے ہیں۔ امیر لوگ چاہتے ہیں کہ انکی اولاد شروع دن سے عوام الناس سے منفرد و ممتاز ہو‘ اُن سے برتر نظر آئے۔ وہ انگریزی زبان میںبات چیت کرے ‘انگریزی لکھے۔ پاکستان کی اشرافیہ نے عوام الناس کو محکوم و مغلوب رکھنے کے لیے بدیسی زبان کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔اسی طرح کئی دہائیوں سے حکومتوں نے تعلیم کے شعبہ کو بُری طرح نظر انداز کیا‘ اس میںسرمایہ کاری نہیں کی کیونکہ صاحبِ حیثیت افراد اپنے بچوں کو مہنگے نجی تعلیمی اداروں میں بھیجنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ کم آمدن والوں کو مفت تعلیم دیکر انہیں اپنے برابر آنے کے مواقع کیوں فراہم کرے؟ اسی لیے ملک میں تین‘ چار مختلف قسم کے تعلیمی اداروں کو پنپنے کا موقع دیا گیا۔ اب تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے انتخابی منشور پر عمل کرتے ہوئے ملک بھرمیں پہلی سے پانچویں جماعت تک یکساں نصاب ِتعلیم نافذ کردیا ہے۔تاہم صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اسے نافذ نہیںکیا ۔وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں آٹھویںاور دسویں جماعت تک کے لیے بھی یکساں نصابِ تعلیم نافذ کردیا جائے گا۔نئی پالیسی کے تحت تین صوبوں میں سرکاری اسکولوں‘مدرسوں‘ کم فیس والے نجی اسکولوں اور زیادہ فیس والے نجی اسکولوں میں ایک نصاب کے مطابق تعلیم دی جائے گی۔ نصاب کا مطلب وہ لازمی مضامین اور انکے خاکے ہیں جن کے تحت درسی کتابیں شائع کی جائیں۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہر اسکول اور مدرسہ کسی مضمون کی ایک ہی کتاب پڑھائے۔ کتابیں سرکار ی ٹیکسٹ بک بورڈز کی بھی ہوسکتی ہیںاور نجی ناشرین کی بھی۔ البتہ تمام نصابی کتابوں کے موضوعات یکساں ہونگے ۔ انکے مندرجات اور انکو پیش کرنے کے انداز میں فرق ہوسکتا ہے۔سرکاری اور نجی کتابوں کی طباعت کے معیار بھی مختلف ہوسکتے ہیں۔ نئے نصاب کے ناقدین کا کہنا ہے کہ مدارس کو ذہن میں رکھتے ہوئے نصاب کو آسان بنادیا گیا ہے یعنی سائنس‘ ریاضی‘ معاشرتی علوم کے مضامین کے مندرجات کم کردیے گئے ہیں۔ اس سے نجی اسکولوں کا معیارِ تعلیم گر جائے گا۔ لوگ جس بہتر تعلیم کے لیے اپنے بچوں کو مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجتے ہیں وہ مقصد ختم ہوجائے گا۔ تاہم اس تنقید میں وزن نہیں ہے۔ یکساں نصابِ تعلیم کم سے کم تعلیم کی حدود مقرر کرتا ہے۔ اگر کوئی اسکول چاہے تواپنے طالبعلموں کو اس سے بڑھ کرزیادہ عنوانات پڑھا سکتا ہے۔ مثلاًمدارس شروع ہی سے بچوں کو عربی زبان کے ابتدائی اسباق پڑھاسکتے ہیں تاکہ آگے چل کر انہیں حدیث اور قرآن مجید کا علم حاصل کرنے میں آسانی ہو۔البتہ مدارس کو سائنس‘ ریاضی ایسے علوم پڑھانا ہونگے۔ اسی طرح نجی اسکول انگلش زبان اور دیگر مضامین کی اضافی تعلیم دے سکتے ہیں لیکن انہیں ناظرہ قرآن لازمی پڑھاناہوگا۔ کچھ آزاد خیال لوگوں کو اس کا دُکھ ہے۔ جہاں تک انگریزی زبان کا تعلق ہے تو بحیثیت مضمون تو اسے پڑھایا جائے گا۔ نجی تعلیمی ادارے انگریزی زبان کی بہتر تدریس اور زیادہ نصاب پڑھا کر اپنے امتیاز کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ یکساں نصابِ تعلیم کے تحت تمام سرکاری‘ نجی اسکولوں اور مدارس کو پابند کردیا گیا ہے کہ تمام مضامین کی تعلیم قومی زبان اُردو میں ہوگی۔مشکل یہ ہے کہ مہنگے نجی اسکولوں کے اساتذہ کو خود بھی اُردو زبان نہیں آتی کیونکہ انہوں نے ہر مضمون انگلش میں پڑھا ہُواہے۔اسلامیات‘ معاشرتی علوم (سوشل اسٹڈیز) اور سائنس ایسے مضامین اُردو میںپڑھانا انکے لیے مشکل کام ہوگا۔اسی لیے بہت سے نجی اسکول اپنے اساتذہ کے تربیتی سیشن کروارہے ہیں۔بعض لوگ معترض ہیں کہ جو بچے سائنس اور دیگر علوم شروع میں اُردو زبان میںپڑھیں گے انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں دشواری پیش آئے گی۔ خاص طور سے ان بچوں کو جوبیرون ملک یونی ورسٹیوں میں جانا چاہتے ہیں۔تاہم‘ یہ ایسا بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ سائنسی اور سماجی علوم کے لیے انگلش زبان کی جتنی مہارت درکار ہوتی ہے وہ چھ ماہ سے ایک سال میں حاصل کی جاسکتی ہے۔جاپان‘چین‘جنوبی کوریا‘ایران وغیرہ میں بھی طالبعلم اپنی قومی زبانوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اسکے بعد وہ بڑی تعداد میں امریکہ‘یورپ کی یونی ورسٹیوں میں بھی پڑھنے کے لیے جاتے ہیں۔ ذریعۂ تعلیم اُردو زبان میں ہونے کاایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس زبان کی پیشہ وارانہ زندگی اور ملازمت حاصل کرنے کیلیے افادیت نہیں ہے۔ملک میں ہر اہم کام انگلش زبان میں کیا جاتا ہے۔ انگلش میڈیم میں پڑھنے والوں کو زیادہ اچھی ملازمت ملتی ہے۔انہیں ہر شعبہ میں ترجیح دی جاتی ہے۔جب تک عملی زندگی میں اُردوزبان مفید نہیں بنائی جاتی امیر لوگ اسکی طرف راغب نہیں ہونگے۔ اس مقصد کیلیے دفتری اور عدالتی زبان کے طور پر اُردو کو اختیارکیا جانا ضروری ہے۔ سرکاری ملازمت کے مقابلے کے امتحانات میں انگلش میڈیم کی شرط ختم کی جانی چاہیے۔ تمام دفتری‘ قانونی‘ سائنسی اصطلاحات کی انگلش سے اُردو لغات (ڈکشنریاں) موجود ہیں جن پر برسوں تحقیق کی گئی ہے۔ انہیں وسیع پیمانے پر رائج کرنے کی ضرورت ہے۔اب مصنوعی ذہانت کا دور ہے۔ کمپیوٹر سافٹ وئیر پلک جھپکنے میں انگلش سے اردو میں ترجمہ کردیتے ہیں۔ اس ترجمہ پر صرف معمولی سی نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بتدریج دفتری اور عدالتی کام کاج قومی زبان میں ہونے لگیںتو ہر طبقہ کے لوگ اُردوذریعۂ تعلیم کو قبول کرلیں گے۔ یکساں نصاب کو نافذ کرنے میں بعض مشکلات کورونا وبا کے باعث پیدا ہوئی ہیں کیونکہ تعلیمی ادارے جزوی طور پر آن لائن تعلیم دے رہے ہیں۔ سارا نظام تلپٹ ہے۔ ان حالات میں اسکولوں پر یکساں نصاب تعلیم کی تبدیلی کے مطابق خود کو ڈھالنے کا اضافی بوجھ پڑ گیا ہے۔ اس صورتحال میںحکومت اسکولوں کا مہلت دے کہ وہ اس پر اسی سال مکمل عمل کرنے کی بجائے دو تعلیمی برسوں میںیہ عمل مکمل کرلیں۔