کرونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اورشاید ہی تاریخ میں اتنے بڑے بحران کی کوئی مثال ملتی ہو۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حالیہ دہائیوں میں برق رفتار ترقی کے باوجود دنیا اتنے بڑے انسانی بحران سے نبرد آزما ہونے کے لیے یکسر تیار نہیں تھی۔ امریکہ اور یورپ جیسے جدید ٹیکنالوجی سے لیس اور دنیا کو سر کرنے کی صلاحیت رکھنے والے مغربی ممالک یمن‘ افغانستان،پاکستان اور بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک کی طرح ہی اس معاملے میں ابھی تک بے بس نظر آ رہے ہیں۔پاکستان کی مختصر ایلیٹ جو ذہنی طور پر مغرب میں رہتی تھی اس کی تمام تر ضروریات زندگی بھی وہیں سے پوری ہوتی تھیں ،ان کے شاپنگ اور علاج معالجے کے لیے سال میں سینکڑوں چکر لندن ،پیرس ،بنکاک اور دبئی کے لگتے تھے‘ اب غریب آدمی کی طرح محصور ہونے پر مجبور ہیں۔اس خوفناک وبا نے محمود وایاز کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔اس سے یہ بد یہی حقیقت روز روشن کی طرح آشکار ہو گئی ہے کہ ہر انسان برابر ہوتا ہے اور برابر ہی مرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے خوب لتے لیے جا رہے ہیں کہ انہوں نے کو رونا سے پیدا شدہ بحران کو ٹھیک طریقے سے ہینڈل نہیں کیا اور ابھی بھی ان کی انا آڑے آ رہی ہے لیکن اس معاملے میں بھی پاکستان تنہا نہیں۔ اگر جائزہ لیا جائے تو برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک کے حکمرانوں کو بھی ان کی مس ہینڈلنگ کی بنا پر تنقید کا سامنا ہے۔بحران تو چین کے صوبے ووہان سے شروع ہوا تھا لیکن چینی حکومت نے بروقت اور فیصلہ کن اقدامات کے ذریعے اس پر قابو پا لیا اور چین میں حالات آہستہ آہستہ معمول پر آنا شروع ہو گئے تب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتہائی متکبرانہ انداز میں کہتے تھے کہ یہ چینی مرض ہے انھیں کیا معلوم تھا کہ چند ہفتوں میں ہی یہ مرض چین سے زیادہ شدت کے ساتھ پورے امریکہ میں بھی پھیل جائے گا۔اب تک دنیا میں کرونا وائرس سے متاثرہ ساڑھے چھ لاکھ سے زائد مریض سامنے آئے ہیں ،جن میں 30ہزار سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور ہلاکتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔امریکہ میں ایک لاکھ سے زیادہ شہری اس موذی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ 2 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور قریباً اڑھائی ہزار کی حالت تشویشناک ہے ،بالخصوص نیو یارک میں46 ہزارسے زائد افراد کرونا کے کنفرم مریض قرار دیئے جا چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد چھ سو سے زائد ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک طرف تو تاریخ کے سب سے بڑے دو ٹریلین ڈالر کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے جبکہ دوسری طرف وہ اس حوالے سے بونگیاں بھی مارتے رہتے ہیں کہ ملیریا کی ایک دوائی کرونا کا علاج ہے۔وہ خود فاصلہ رکھنے کی احتیاطی تدبیر کا تکلف بھی نہیں کرتے تھے نہ اس حوالے سے اپنے مشیروں اور ماہرین کی تجاویز پر کان دھرتے تھے۔امریکہ میں مختلف قسم کے مذہبی رہنما اب بھی ان کی سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔حال ہی میں میامی میں ایک چرچ کے سربراہ جو خود پیشوا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ٹرمپ کی انتخابی مہم میں پیش پیش ہیں نے اپنے چرچ کے ارکان پر زور دیا کہ آپ ہر حالت میں عبادت کے لیے آئیں ۔ان کا سوال تھا کہ کیا خدا ، اپنے گھر میں اس لیے بلائے گا کہ وہ وائرس کا شکار ہو جائیں، ہر گز ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی سوچ سے متاثر ہو کر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دعویٰ کر ڈالا کہ ایسٹر تک سب کچھ کھل جائے گا لیکن اس سے بھی زیادہ غیر سنجیدہ طرز عمل برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا ہے جو خود اور ان کے وزیر صحت کرونا وائرس کا شکار ہیں ۔انھوں نے پہلے تو معاملے کی نزاکت سے ہی انکار کر دیا اور گزشتہ ماہ اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ چھٹیاں منانے چلے گئے ۔مارچ کے شروع میں جب معاملات زیادہ خراب ہوئے تو انھوں نے شٹ ڈاون کے بجائے یہ واکھیان دیا کہ ہمیں ایسے اقدامات کرنے کے بجائے کرونا وائرس کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہیے ان کی اس تھیوری کے مطابق زیادہ سے زیادہ لوگ جب اس وائرس سے متاثر ہونگے تو ان میں مجموعی طور پر مدافعتی نظام از خود پیدا ہو جائے گا ۔بعدازاں انھوں نے کہا اپنے ہاتھ صابن سے دھوئیں لیکن خود بلا تکلف سب سے ہاتھ ملاتے رہے ۔بریفنگز میں بورس جانسن نے اور نہ ہی ٹرمپ نے اپنے اور ساتھیوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھا ۔برازیل کے صدر جیسر بل سیزو اور ان کے دو درجن ساتھیوں نے اسی ماہ کے دوران ٹرمپ سے فلوریڈا میں ملاقا ت کی۔برازیل کے صدر تو خوش قسمت نکلے کہ ان کا کرونا وائرس ٹیسٹ منفی نکلا لیکن ان کے متذکرہ ساتھی باقاعدہ مریض قرار دے دیئے گئے۔ برازیل کے صدر کرونا وائرس کو ایک قسم کا فلو قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے سماجی فاصلہ رکھنے کو قید قرار دیتے ہوئے عوام سے کہا ہے کہ اپنے کاروبار جاری رکھیں۔ نیو یارک ٹائمز کے ایک کالمسٹ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ کمزور لیڈر شپ بھی ایک قسم کی عالمی وبا ہے۔یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ان سب ممالک میں کرونا وائرس کا گراف بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور یہ وبا جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے۔مقام شکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا رویہ ان لیڈروں جیسا نہیں ہے لیکن ان کی سربراہی میں حکومت بھی اس معاملے میں روایتی نااہلی اور گومگو کا شکار ہے۔ وزیراعظم اب بھی اپنی ضد پر قائم ہیں کہ لاک ڈاون نہیں کرونگا لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک قسم کا لاک ڈاون ہو رہا ہے اور اس کی خلاف ورزی بھی جاری ہے۔جامعہ الازہر کے فتوے کے باوجود کہ آفت کی صورتحال میں باجماعت نماز جمعہ ادا کرنا ضروری نہیں لیکن یہاں مذہبی لابی کی اکثریت کے اتفاق کے باوجود حکومت خود دو ٹوک فیصلہ نہیں کر پائی۔ تفتان بارڈر کے ذریعے ایران سے آنے والے زائرین کا پورے ملک میں پھیل جانا اور لاہور میں تبلیغی جماعت کا اجتماع ہونا اور بعدازاں خرابی بسیار اس پر پابندی لگانا بھی کرونا کے خلاف جنگ میں ممدومعاون ثابت نہیں ہوا۔ یہ موذی وبا ہر روز کئی گنا بڑھتی ہے۔ چند ہفتے پہلے پنجاب میں کیسز کم تھے لیکن اب پنجاب میں سندھ سے زیادہ مریض ہو گئے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ یہ وبا جانی اور مالی نقصان کے حوالے سے بڑھے گی کہ نہیں لیکن طبی ماہرین کا کہنا ہے اس میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو گا۔ کیا ہم اس تشویشناک صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور کیا قوم کو تیار کیا جا رہا ہے ؟اس معاملے میں ہمارے حکمران یکسر نابلد ہیں۔