باب حریم حرف کو کھولا نہیں گیا لکھنا جو چاہتے تھے وہ لکھا نہیں گیا بے چینیوں نے ہم تماشا بنا دیا محفل میں جا کے بیٹھے تو بیٹھا نہیں گیا سب سے بڑا مسئلہ یکسوئی کا ہے جو کسی پل نصیب نہیں ہو رہی ۔کیا عجب تماشہ ہے کہ سکون اور اطمینان کی تلاش انسان کو مزید بے چین کر دیتی ہے۔ وہ تو کچھ اور بات ہے کہ جون ایلیا کہہ اٹھے ،یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا۔ ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا۔ مگر بات کچھ اور ہے مسئلہ یہ ہے کہ اب کیا ہو گا۔ ہو چکی اپنی پزیرائی بھی یہ ایک مزاج بھی تو ہو سکتا ہے کہ بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا۔ اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا ۔دیکھا جائے تو یہی زندگی ہے کہ سمندر یا دریا مگر موجوں میں اضطراب رہے۔ تحرک زندگی اور جمود موت ہے مگر ہر شے اپنا جواز مانگتی ہے کہیں ایک پڑائو یا ایک ٹھہرائو تو سفر کا تقاضا ہے کہ چلنا چلنا مدام چلنا اگر اختیار ہے تو بھی ودیعت ہے اور انعام ہے اور اگر جبری تو تب بھی ٹھہر جانے سے بہتر ہے رکنا کوئی حل تے نہیں جے چلنا بے کار گیا۔ بہرحال گرداب بھی پانی کو جگائے رکھتے ہیں: یہ سمندر بھی تو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں اس کے سینے سے اگر لہر اٹھا لی جائے واقعتاً کام کرنے والا شخص بیٹھ نہیں سکتا اور بیٹھنے والا چلنے سے معذور۔ لیکن صبح آرام تو مانگا ہے آپ تازہ دم ہونے کے لئے بھی رکتے ہیں انسان ویسے بھی تو زمین کے ساتھ گردش میں ہے بلکہ اس کے تو ستارے بھی اکثر گردش میں رہتے ہیں۔ غالب نے بھی تو تنگ آ کر کہا تھا کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل۔ انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں میں۔ جو بھی شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک پروانے کو بھی تو جلنا ہے اور وہ آرام سے جل جاتے ہیں۔ بات میں کچھ اور کرنا چاہتا ہوں کہ روٹین ایک اور شے ہے اور جدوجہد دوسری چیز یہی بے چینی تذبذب اچھی بھی لگتی ہے کہ بے جان ہو جانا تو اپنے آپ کو بھی اچھا نہیں لگتا۔ ٹھہرے ہوئے پانی پر تو کائی جمتی ہے مسئلہ صرف اتنا ہے کہ اگر اپنی فعالیت اور تحرک کو بامقصد بنا لیا جائے تو سب کچھ مثبت سمت رواں ہو جاتا ہے۔ زندگی راہ راست پر آ جاتی ہے تھوڑا سا سوچنے کی بات ہے اور فیصلہ کرنے کی دیر یہ اپنی جگہ درست کے فی زمانہ تو بڑھ کر میناتھامنے والی بات ہے: جو بھٹکتا ہے وہی راہ بنا جاتا ہے ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے اظہار ایسے ہی لگتا ہے وگرنہ بننے والا راستہ گمراہ بھی کر سکتا ہے۔ خیر کا انجام ہمیشہ خیر ہی ہوا کرتا ہے اور شہ ہر صورت اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔یہ قدرت کے رکھے ہوئے پیمانے اور نتائج، انسانی عقل میں بعض اوقات یہ چیزیں نہیں آتیں۔ مگر دنیا بھر کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ظلم آخر اپنے انجام کو پہنچتا ہے اور اسے ایک دن مٹ جانا ہوتا ہے کہ وہ مٹنے کے لئے ہی ہے۔ اب آتا ہوں میں اپنی اصل بات کی طرف کہ منزل راہ حق پر چلنے والوں کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ان کا درست راستہ ہی ان کی منزل ہے: ہم رہروان شوق تھے منزل کوئی نہ تھی منزل بنے ہیں نقش ہمارے دھرے ہوئے کبھی کبھی میں کراچی کی موجودہ گھمبیر صورت حال کا سوچتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں۔ قدرت کی منشا کیا ہے، انسان کو کیا خبر۔ مگر اس زمین پر ظلم بہت ڈھائے گئے اور اس پر سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ سب خاموشی سے اس کا حصہ بنے رہے۔ جہاں اڑھائی سو مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا ؟جہاں ماہی گیروں اور رفقیروں تک سے بھتہ لیا جاتا ہے۔ جہاں اربوں روپے ایک غدار بھارت نواز کو لندن میں پہنچتے رہے ۔جہاں وکیل زندہ جلائے گئے اور بارہ مئی کو پچاس معصوم گولیوں سے بھون دیے گئے اور بوری بند لاشوں کا تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں وہ صد پولیس والے چن چن کر مار دیے گئے۔ ہائے ہائے اس شہر کو مقتل بنانے والے اب روتے ہیں تو بارش بھی ان پر روتی نظر آتی ہے۔ کراچی کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ اس شہر بے بہا کی کمائی غنڈوں کی نظر ہوتی رہی، جس کا غالب حصہ ان کے سرغنہ کو پہنچتا رہا۔ کیا یہ سچ نہیں ثابت ہوا کہ آپ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔ باقی کسر پیپلز پارٹی نے پوری کر دی۔ نہیں صاحب! خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد۔ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔ کبھی کراچی میں صاحبان دل رفاہی اور فلاحی کام کیا کرتے تھے۔ ہائے ہائے انہوں نے فرداً فرداً بس حکیم سعید اور محمد صلاح الدین جیسے ہیرے ہم سے چھین لئے۔ اپنے ہی عمران فاروق کو ذبح کروا دیا اور مگرمچھ کے آنسو بہاتا ہوا مکروہ چہرہ کس کو بھولے گا جو اب ماتھے پر تلک لگا چکا۔ دل جلا ہوا ہے اور آہیں زخموں کے لئے اذیت ناک ہوا کی طرح ہیں۔ اک کرب سے آنکھوں میں اک درج ہے سینے میں۔مری داستان ہی عجیب ہے۔ کہیں خون دل سے لکھی ہوئی کہیں آنسوئوں سے لٹی ہوئی۔پتہ نہیں یہ کیا ہوا ہے کہ طبیعت مکدر ہو گئی۔ ظلمت کدے میں میرے شب غم کا زور ہے۔ اک شمع تھی دلیل سحر سو خموش ہے۔خدا جانے میں نے کہاں سے اور کیسے بات شروع کی اور کہاں آن پہنچی۔ دل کہتا ہے: درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی بس کیا کروں کراچی کے ناگفتہ بہ حال نے بے حال کر دیا کہ کراچی کی ایسی قسمت کیوں حالانکہ یہ روشنیوں کا شہر عروس البلاد کہلاتا ہے۔جسے میں تو حسن بے شمار کہا کرتا ہوں۔ معیشت کے اعتبار سے بھی ہمارا بہت کچھ ۔ کتنے لوگوں کو اس نے پناہ اور روزگار دیا۔ اس کی طرف شاید توجہ نہیں دی۔ آپ یوں کہہ لیں کہ ظلم یا بے اعتنائی کا شکار ہونے والے خود ظالم بن گئے کہ ایک سازش کا شکار ہو گئے۔ اپنی نوجوان نسل کو کتابیں چھڑوا کر ٹی ٹی تھما دیے اور نوجوان خود بھتے پہ لگ گیا۔ ہوتے ہوتے چائنہ کٹنگ تک آئے اور شہر تباہ کر دیا۔ لے دے کے ایک مصطفی کمال نظر آتا ہے جس نے کام کروانے کی کوشش کی تو وہ بھی اوجھل کر دیا گیا۔ اس ماحول میں ذوالفقار مرزا نے اور آگ لگا دی۔ آگ بھی امن کمیٹی سے لگوائی کیا کچھ لکھا جا سکتا ہے اگرچہ یہ سب کچھ لکھنے کے قابل بھی نہیں۔ ایک وحشت کراچی میں ناچتی رہی اور یہ ناچ اب تک یہی کسی اور شکل میں موجود ہے کچھ دبا دیا ہے۔ کہیں یہ لوٹ مار اور استحصال رکے تو کسی کو کچھ سوچنے کا موقع ملے۔ خواہش تو سب کی ہے اور دعا بھی کہ اس بے بدل شہر کی رونقیں اور خوشیاں واپس آ جائیں اور سمجھنے والے اس شہر کو اپنا سمجھ لیں کہ اب ان کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھی ہیں اور پھر یہ وطن ہمارا ہے۔ ہم ہیں پاسباں اس کے: دھوپ میں جلنے والو آئو بیٹھ کے سوچیں اس رستے میں پیڑ لگایا جا سکتا تھا