دنیا بھر کے تبصرہ نگار، ماہرین سیاست و معیشت اور دفاعی تجزیہ نگار ہمیشہ مادی وسائل اور سائنسی ترقی کے ترازو پر رکھ کر اپنے خیالات کو تولتے ہیں اور اس کے بعد اس معلوماتی خزانے سے اپنی عقل و ہوش سے پیدا شدہ تجرباتی بصیرت استعمال کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس وقت دنیا پر کس ’’قوت‘‘ کا راج ہے اور مادیت کے سنگھاسن پر کون سی ٹیکنالوجی کا بت جلوہ افروز ہے۔ ٹیکنالوجی دراصل معاشی اور سائنسی علوم کی دنیا سے جنم لینے والی ایک ایسی قوت ہے ، جس کے بھی ہاتھ میں آجائے اسے وقت کا فرمانروا بنا دیتی ہے اور اسی کا سکہ زمین پر چلنے لگتا ہے۔ عالمی مالیاتی نظام وہی ترتیب دیتا ہے، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور سٹلائٹ کی دنیا پر اسی کا راج ہوتا ہے، سب اس کے محتاج ہوتے ہیں، اعلیٰ تعلیم اور جدید تحقیق کے ادارے اسی کی سرپرستی میں چلتے ہیں، اس لئے سب کو علم کی معراج تک پہنچنے کے لئے اسی کے دروازے پر دستک دینا پڑتی ہے۔ صحت کی سہولت، بیماریوں کا علاج اور ان کی روک تھام کے تمام گُر اسی کے پاس ہوتے ہیں، اسی لئے ہر کسی کو اسی مسیحا کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ سڑکیں، پل، فیکٹریاں، ڈیم، غرض کچھ بھی تعمیر کرنا ہو، اس کی مدد درکار ہوتی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ اس کی عسکری قوت کا غلبہ پوری دنیا میں اس کی ایک دھاک بٹھا دیتا ہے۔ اس مقام و مرتبے پر گذشتہ تقریباً تیس سالوں سے امریکہ بلاشرکتِ غیرے بیٹھا ہوا ہے اور تمام مادہ پرست تجزیہ نگار، دانش ور، سیاست دان، حکمران اسی کے آستانے پر ماتھا ٹیکتے ہیں اور اسے ہی بظاہر دکھائی دینے والی اس فانی دنیا میں خیروشر کا مالک تصور کرتے ہیں۔ وہ حکم فرمائے حجاب تمہاری ترقی کے راستے کی رکاوٹ ہے، ہم بسروچشم تسلیم کر لیتے ہیں۔ عالمی اخلاقیات وہی مرتب کرتا ہے۔ ہم جنس پرستی اور ہم جنسوں کی شادی کے جائزہونے سے لے کر طلاق و وراثت تک کے قوانین بھی اسی کی ہدایات کے تحت مرتب ہوتے ہیں۔ وہ کہہ دے کہ فلاں سزا جاہلانہ اور سفاکانہ ہے تو ہم اسے ترک کر دیتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس بت کا تخت ہر زمانے میں سجا رہا ہے اور اس پر کوئی نہ کوئی طاقت ضرور جلوہ افروز ہوتی رہی ہے۔ یہ طاقت اور قوت کبھی خالق ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی، مگر زمین پر اپنے خدائی اختیارات کا دعویٰ ضرور کرتی ہے۔ اس تخت پر جب فرعون متمکن تھا، تو اس نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا تھا کہ زمین، سورج، چاند، ستارے اس نے تخلیق کئے ہیں، کیونکہ سب جانتے تھے کہ وہ تو خود ایک تخلیقی نظام کی پیداوار ہے، جس پر اسے کوئی اختیار نہیں۔ اس نے ویساہی دعویٰ کیا تھا جیسا آج ٹیکنالوجی کے تخت پر بیٹھ کر کوئی بھی عالمی طاقت کرتی ہے، ’’اَناَربکم الاعلیٰ‘‘ ’’میں تمہارا بہترین رب ہوں‘‘(النازعات: 24)۔ آج کے سیکولرلبرل، ملحدین بھی بیشک اللہ کی ذات کا انکار کریں، مگر انہیں معلوم ہے کہ دنیا کی ٹیکنالوجی کی آخری معراج بھی ایک تنکا تک تخلیق نہیں کرسکتی، ایسی زمین کی طرح کی ایک اور زمین نہیں بنا سکتی۔ وہ خدا کا انکار صرف اس کے احکامات سے انکار کے لئے کرتے ہیں۔ گزشتہ تیس سالوں سے امریکہ جس معاشی، سائنسی اور عسکری قوت کے ساتھ اس نشست پر براجمان تھا، چین آہستہ آہستہ سرکتا ہوا ،اب اس کے مقابل آکر کھڑا ہو گیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے مندر میں چھوٹے چھوٹے دیوتائوں میں امریکہ کا بت سب سے اونچا تھا، لیکن اب قدوقامت اور ہیبت و جلال میں چین کا بت امریکہ سے بڑا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بظاہر نظر آنے والی کامیابیوں میں انفراسٹرکچر بہت اہم ہوتا ہے۔ گذشتہ بیس سالوں میں چین نے پوری دنیا کی کل ٹرین کی نئی پٹریوں سے زیادہ یعنی 21ہزار کلو میٹر نئی لائنیں بچھائی ہیں۔ چین کی بلٹ ٹرین 350کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ملک کے ہر کونے تک پھیل چکی ہے، جبکہ شنگھائی کے ائرپورٹ سے شہر کو ملانے والی ٹرین 431کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے۔ سڑکیں اور پل بنانے کی چین کی مشین SLJ900/32جو 580ٹن وزنی، 300فٹ لمبی اور 24فٹ چوڑی ہے، ایک دیوہیکل چیز ہے، جو منٹوں میں پلوں کی چھتیں اٹھا کر ستونوں پر رکھ سکتی ہے۔ کونگہائی سے تبت والی ریلوے جو 1,950کلومیٹر ہے، دنیا کی بلندترین ریلوے لائن ہے۔ پانی سے بجلی بنانے کا سب سے بڑا ڈیم چین نے تعمیر کیا ہے جسے ’’لیکزوا ڈیم‘‘ کہتے ہیں، جو 305میٹر بلند ہے اور اس سے سات سو میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ چند ماہ بعد مکمل ہونے والا ’’ہوہی نان ڈیم‘‘ سولہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ ’’زیوڈز ڈیم‘‘ دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم ہے، جو کہ ایک قوس کی طرح ہونے کی وجہ سے منفرد ہے۔ دنیا کا پن بجلی پیدا کرنے کا سب سے بڑا ڈیم بھی اسوقت چین میں ہے، جو پچیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ سرنگ کھودنے کے لئے سب بڑی مشینری بھی چین نے بنائی ہے جس کا قطر 8.3میٹر ہے۔ کس قدر خاموشی کے ساتھ چین نے عین یورپ کے وسط میں یونان کی بندرگاہ ’’پیراوس‘‘ کو بحیرہ روم کی دوسری بڑی بندرگاہ بنادیا ہے۔ دنیا بھر کی بندرگاہوں میں سے اکثر میں اب چین کی ساجھے داری ہے، جو 25فیصد سے 100فیصد تک ہے۔ یورپ میں روٹرے ڈیم، آئی برگی، ڈنکرک، لاھاوری، مالٹا جیسی بیس بندرگاہیں، امریکہ میں مغربی ساحل میں لاس اینجلس سمیت پانامہ نہر کے دونوں کناروں، یہاں تک کہ ہیوسٹن اور میامی کی بندرگاہوں میں چین کے حصص موجود ہیں۔ یہی حال افریقہ اور ایشیا کا ہے۔ چین نے دریائوں اور سمندروں پر جو پل بنائے ہیں، اس نے دنیا بھر کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔ دنیا کا سب سے بلند پل سدھودریاپر ہے، پائو تاکی نمن پل دنیا کا سب سے بڑا قوس (Arch)والا پل ہے۔ چین کی ہائی ویز اس وقت دنیا میں مثال بن چکی ہیں، جو ایک لاکھ تیس ہزار کلومیٹر ہیں۔ دنیا کی سب سے خطرناک قسم کی سڑکیں بھی زیادہ تر چین میں ہیں۔ چین میں ہائی ویز کی یہ لمبائی اتنی ہے کہ آپ دنیا کا تین دفعہ چکر کاٹ سکتے ہیں اور ان میں ہر سال دس ہزار کلومیٹر کا اضافہ ہوتا ہے۔ ہانگ کانگ کے ہوائی اڈے پر ہر سال سات کروڑ مسافر آتے ہیں اور ان میں ہر سال 8فیصد کا اضافہ ہوتا ہے۔ آسمان کو چھوتی عمارتیں بنانے میں چین نے کمال دکھایا ہے۔ یہ 57منزلہ عمارت صرف 19دن میں تعمیر کر سکتے ہیں۔ چین کا مسافر بردار جہاز 22دسمبر2017ء کو آیا جو مسلسل 12گھنٹے ہوا میں رہ سکتا ہے۔ عسکری معاملات میں چین کا جبان 10فائٹر جیٹ اس وقت سب سے طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ 12جون 2019ء کو چین نے ہائپر سونک جہاز بھی بنا لیا اور سمند میں اس کا دوسرا بحری بیڑہ مکمل ہونے والا ہے، جو موجودہ تمام بحری بیڑوں سے مختلف ہوگا۔ اس پر بیک وقت 125 فائٹر جیٹ رکھے جاسکیں گے۔ خلائوں میں چین کی بادشاہت بڑھتی جارہی ہے اور وہ خلاء میں موجود سٹلائٹ کو تباہ کرنے والا خلائی سٹیشن بھی بنا چکا ہے۔ ادویات اور دیگر مصنوعات میں امریکہ ہر سال دس ہزار پیٹنٹ رجسٹر کرواتا ہے، لیکن چین اب دوہزار سالانہ کی رفتار سے بڑھتا ہوا جاپان سے آگے نکل کر امریکہ کے مقابل آچکا ہے۔ معاشی میدان میں تو چین کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ امریکہ کی منفی ترقی ایک ہزار ایک سو ارب ڈالر ہے، اس کا قرضہ 21ہزار ارب ڈالر ہے، جس میں ہر سال ایک ہزار دوسوارب ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے، چین کا قرضہ بھی 20ہزار ارب سے زیادہ ہے، لیکن اس میں اضافہ امریکہ سے کم ہے۔ اس کے علاوہ چین کا موجودہ ’’ایک بیلٹ ایک روڈ‘‘ منصوبہ، جس پر ہزاروں ارب ڈالر خرچ ہوں گے، انسانی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ چین سرکتا ہوا ٹیکنالوجی کے سب سے بڑے دیوتا کی کرسی کے مقابل آگیا ہے۔ کرسی پر بیٹھنے کی جنگ کاآغاز ہوا چاہتا ہے، تلواریں میان سے نکل آئی ہیں، لیکن تباہی کا جتنا سامان اکٹھاہوچکا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کرسی پر بیٹھنے کے لئے شاید دونوں میں سے کوئی سلامت نہیں رہے گا۔