انسانی تاریخ میں شرک کی داستان مشرکین کے اندرونی خوف، حسنِ طلب، ذوقِ خیال اور آزادیٔ افکار کے ساتھ ہر دور میںبدلتی رہی ہے۔شروع دن ہی سے، ایک ان دیکھے خدا پر انسان اس لیئے یقین نہیں کرتا تھا کہ اس کی خبردنیا کو ہمیشہ رسول اور پیغمبر دیا کرتے تھے۔ یہ ایک ایسی مسلسل خبر تھی جو صرف اللہ کی وحدانیت کے اقرار تک محدود نہیں ہوتی تھی، بلکہ تمام پیغمبر ساتھ میں اس بات کا بھی اعلان کیا کرتے کہ اللہ نے یہ دنیا عبث، بیکار یا تماشہ گاہ کے طور پر نہیں پیدا کی ہے، بلکہ اسے بنی نوع انسان کے لیئے ایک امتحان گاہ کے طور پر تخلیق کیا ہے۔ تم لوگ اس دنیا میں ایک ایسی زندگی گذارنے کے لیئے بھیجے گئے ہو جو اس کائنات کے خالق کے احکامات کے مطابق ہو۔ انکار کا یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان اپنی ’’آزادی‘‘کو مالک کائنات، اللہ سبحان و تعالیٰ کے سامنے مغلوب(Surrender) نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اس کا مطیع و فرماں بردار بن کر نہیں رہنا چاہتا۔ آزادیٔ و خود مختاری کے اسی جذبے سے ہر طرح کے شرک کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی ’’حریتِ فکر‘‘ ہے کہ ہر دور میں انسان نے اپنے لیئے ایسے خدا، دیوی، دیوتا اور اوتار تخلیق کیئے، جو اس کے خیالات کی دسترس میں ہوتے تھے۔ وہ انہیں جیسا چاہتا بناتا، جس طرح چاہے اختیار دیتا اور جتنی مداخلت وہ برداشت کر سکتا ، اتنی ہی مداخلت کی ان خداؤں کو اجازت دیتا۔ انسانی بے بسی ، کم مائیگی اور خوف، یہ ایسی تینوںحالتیں ہیں جو مل کر دیوی ، دیوتا یا اوتار وغیرہ تخلیق کرواتی ہیں۔ سورج ،چاند، کڑکتی ہوئی بجلی، سمندروں سے اٹھتے سحاب، زلزلوں کے مآخذ آتش فشاں پہاڑ، ان سب کو انسان نے اپنے لیئے منفعت اور نقصان دونوں پیمانوں میں تول کر خدا کے درجے پر فائز کیا۔ زرتشت مذہب نے تو نقصان دینے والے خدا کو ’’اہرمن‘‘ اور فائدے دینے والے خدا کو’’یزداں‘‘کہہ کر پکارا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر خدا کا زوال اس وقت آیا جب انسان نے اس پر دسترس حاصل کر لی۔ مثلاً بادل، دریا، سمندر قابو میں آئے تو دیوتا کے درجے سے گرگئے۔ لیکن یہ تو ایک ایسی ہی دسترس تھی جس کا اعلان اللہ تعالیٰ نے خود تخلیقِ آدم کے ساتھ ہی کردیا تھا، ’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمانوں سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے تمہاری روزی کے لیئے پھل نکالے ہیں اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کر دیا ہے کہ دریاؤں میں اسکے حکم سے چلیں پھریں۔ اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں دے دیں۔ اسی نے تمہارے لیئے سورج چاند مسخر کردیا ہے کہ برابر چلتے رہیں اور دن رات کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے‘‘ (الانبیاء : 33,32)۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جوں جوں انسان کا اختیار ان تمام مظاہرِ قدرت پر بڑھتا اس کا سر اللہ کے اس اعلان کی حقانیت اور سچائی کے سامنے جھک جاتا لیکن معاملہ تو اللہ کو ماننے کا تھا ہی نہیں۔ ایک ایماندار ملحداپنے تمام دلائل کے انبار ٹٹولے تو اس نتیجے پر ضرور پہنچتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ضرور ہے، ورنہ دنیا جیساآہنگ اور حسنِ ترتیب پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن مسٔلہ ’’تو اللہ کی ماننے ‘‘کا تھا، اس کے سامنے اپنی آزادی و خود مختاری مغلوب (Surrender)سرنڈر کرنے کا تھا۔ یہی خود مختاری اور ’’آزادیٔ افکار‘‘ ہے جسے ابلیس نے اختیار کیا تو وہ انسانی گمراہی کے لیئے مشعل راہ بن گیا۔ اللہ کی بنائی گئی تمام تخلیقات پر آج جس بالادستی اورقوت کے ذریعے دسترس حاصل کی جاتی ہے، اس ’’بلا‘‘کا نام ’’ٹیکنالوجی‘‘ہے۔ پہاڑوں کا سینہ چیر کر نہریں نکالی جاتی ہیں، دریاؤں پر بند باندھ کر آب پاشی و توانائی حاصل کی جاتی ہے، زمینوں کی تہوں سے ایسی معدنیات پرآمد کی جاتی ہیں جن سے جہاز اڑتے ہیں، کمپیوٹر چلتے ہیں، بیماریوں کا علاج ہوتا ہے، چاند اور دیگر سیاروں پر کمندیں ڈالی جاتی ہیں، خلاؤں سے پوری دنیا کا عسکری، معاشی، معاشرتی اور تفریحی نظام چلایاجاتا ہے،بادلوں کو ایک سمت سے اٹھا کر دوسری سمت لے جاکر برسایا جاتا ہے۔ کونسا ایسا شعبہ ہے جو اس ٹیکنالوجی کی دسترس میں نہیں ہے۔ انسان اس سے دن رات فائدہ اٹھاتا ہے، اس کے گن گاتا ہے، اور ویسا ہی شرک کرتا ہے جیسا انسان مدتوں سے سرمایہ کے متعلق کرتا چلا آرہا ہے اے زر تو خدا نیست و لیکن بخدا قاضی الحاجاتی و ستار العیوبی (ترجمہ:اے دولت تو خدا نہیں ہے لیکن خدا کی قسم تو حاجتیں پوری کرتی ہے اور عیب ڈھانپتی ہے)۔ آج کے جدید دور میں اللہ کی صفات میں شریک ہونے اور آہستہ آہستہ پوری کائنات پر اپنے غلبے کو قائم کرنے والی طاقت کا نام ’’ٹیکنالوجی ‘‘ہے۔ یہ وہ دیوتا ہے جس کے مظاہرہر گھر میں موجود ہیں،بجلی کے بلب سے لے کر ایئرکنڈیشنڈ تک اور ہر شہر میں نظر آتے ہیں،موٹرسائیکل سے ہوائی جہاز تک۔ غرض انسان ٹیکنالوجی کے ان مظا ہر کی ہر لمحہ حمد و ثناء میں مصروف رہنا چاہے توسب سامانِ عبادت اسے میسر ہے۔ یہ تو ٹیکنالوجی کا خوش کن روپ ہے۔لیکن اسی طرح ہر دیوتا کا ایک طاقتور اور خونیں روپ بھی ہوتا ہے، جس کے خوف سے لوگ اس دیوتا سے پناہ مانگتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے بت کا طاقتور خونیں روپ ’’سامانِ حرب ‘‘یعنی جنگی ساز و سامان ہے۔یہ آج کے دور میں اسقدر خوفناک اور طاقتور ہے کہ پوری انسانیت کو ایک لمحے میں کچل کر رکھ سکتا ہے۔ یہ طاقت اس دنیا کے بسے بسائے گھر کو چشمِ زدن میں اجاڑنے کے لیئے کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے بت کی پوجا کرنے والے مشرکین جہاں ریفریجریٹر سے لے کر اے سی اور کار سے لے کر جہاز تک کے نفع بخش ہونے کے گن گاتے ہیں وہیں عالمی طاقتوں کے قبضہ قدرت میں موجود ٹیکنالوجی کی خوفناکیوں سے بھی دنیا بھر کو ڈراتے ہیں۔ یہ ’’ ٹیکنالوجی دیوتا ‘‘انتہائی ناراضگی کے عالم میں پھنکارتا ہوا اس وقت افغانستان میں داخل ہوا تھا جب نائن الیون کو اس کے بڑے پجاری کے ’’استھان‘‘ پر حملہ ہوا۔ دنیا بھر میں بسنے والے ٹیکنالوجی کے پرستار مشرکین اسکے گرجنے پرشادیانے بجارہے تھے، اس کی آمد کے لیئے راستے صاف ہورہے تھے، آنکھیں بچھائی جا رہی تھیں۔ اکتوبر 2001ء ، ایک خدائے واحد کی طاقت اور قوت پر بھروسہ کرنے والوں مٹھی بھر لوگوں کے لیئے کے بہت کٹھن وقت تھا۔ ’’ٹیکنالوجی دیوتا ‘‘کی پھنکارخوفناک تھی۔ اللہ پر بھروسہ کرنے والے اذیت ناک سزاؤں سے گذرے، مارے گئے، خوفزدہ کیئے گئے، گھروں کے گھر اجاڑے گئے۔ آج ٹھیک بیس سال بعد ٹیکنالوجی کے اس بت کے کئی ہزار ٹکڑے ان آنکھوں میں کرچیوں کی طرح پیوست ہو رہے ہیںجو اس کی فتح کے خواب دیکھا کرتی تھیں اور اس کے سامنے سربسجود ہوتی تھیں۔ ٹیکنالوجی کے اس میکدے کو بیس سال تک آباد رکھنے کے لیئے اس کے بڑے پروہت ’’امریکہ‘‘ کے اب تک دوہزار دوسو ساٹھ ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ مشہور براؤن یونیورسٹی کی اس گنتی میں ابھی اضافہ ہوتا رہے گاجب تک آخری سپاہی وہاں سے نہیں نکلتا۔ دو لاکھ 41ہزار جانوں کا نذرانہ اس جنگ کی نذر ہوا، جس میں اوّل درجے کے پجاری امریکہ کے2,442سپاہی اور دوسرے درجے کے 78,814 افغان فوجی قربان ہوئے۔جبکہ 84,191 عوام اور اللہ کی وحدانیت کا پرچم لہرانے والے طالبان نے، جام شہادت نوش کیا۔ ٹیکنالوجی کی معراج میں اب تک جو آسمانی و زمینی اسلحہ ایجاد ہوا تھا سب کا سب استعمال کیا گیا۔ ایک ایک اسلحے کا علیحدہ علیحدہ مطالعہ کریں تو کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اتنا بڑا مضبوط فوجی نظام کبھی زمین بوس ہوسکتا ہے۔ لیکن ٹیکنالوجی کی موت مقدر تھی، ہوگئی۔ کتنا بڑا المیہ ہے، ٹیکنالوجی پرستوں کے لیئے کہ اب اگلا بت کب تراش ہوگا، کب نیا معبد سجے گا۔ کب ٹیکنالوجی کی پوجا شروع ہوگی۔ اقبال نے مدتوں پہلے یہ نقشہ کھینچاتھا۔ آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات