گزشتہ ہفتہ دورہ لاہور کے موقع پر، یکساں نصاب تعلیم کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم عمران خاں کی باتیں دلچسپ بھی تھیں اور حقیقت کشابھی ، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی ہماری بہت سی تقریبات ، جس میں سْننے والے اور بولنے والے ، سارے پاکستانی ہوتے ہیں ، لیکن اس کی کارروائی انگریزی میں ہورہی ہوتی ہے ، ان کا یہ کہنا درست تھا کہ ہماری تنزلی کی بڑی وجہ نظام تعلیم ہے، جس میں انگریزی کو بطور زبان فوقیت میسر ہے ، انگلش میڈیم سسٹم۔۔۔ وہ ذہنی غلامی ہے ، جس میں ساری قوم مبتلا ہے ، اور اسی سبب سے ہم اسلام اور اپنے کلچر سے دور ہوگئے ہیں۔ دنیا میں اْن ممالک نے ترقی کی ، جنہوں نے یکساں تعلیمی نظام رائج کیا۔ ہمارے ملک میں کیونکہ تعلیم کبھی بھی"ترجیحِ اوّل" نہیں رہی ، جس کے سبب ہم اپنا تعلیم نظام معتبر نہ کر سکے۔ حالانکہ یہ سب کچھ قیام پاکستان کے فوراً بعد مستعد اور معتبر کر لینا چاہیے تھا۔ ان کی یہ بات درست تھی کہ آج سے پچاس سال قبل جب پاکستان تیزی سے ترقی کر رہا تھا تو اس کا ایک سبب ہماری روایات کا امین ، ہمارا اپنا نظام ِ تعلیم تھا ، لیکن آہستہ آہستہ ہمارا ملک تنزلی کا شکار ہوتا گیا ، جس کا سبب دینی اور تہذہبی روایات کے امین۔۔۔ اپنے نظام تعلیم کو فراموش کرنا اور پرائیویٹ سکول سسٹم کا رواج پانا تھا۔ جس کے سبب ہمیں ذہنی غلامی میں دھکیل دیا گیا۔ وزیر اعظم پاکستان کی یہ باتیں ہر دردِ دل رکھنے والے پاکستانی کے دل کی آواز ہیں۔ لیکن زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ مارکیٹ میں طلب انگریزی کی ہے اور دلیل اردوکے حق میں ہے۔ سرکاری مراسلہ نگاری،حکومتی احکام اور عدالتی فیصلے انگریزی میں ہوتے ہیں، جن کو اَسّی فیصد عوام سمجھنے سے قاصر ہیں ، اسی میں انگریزی خوان طبقے کی فوقیت ہے اور دراصل اسی نظام تعلیم کو جب دو سو سال قبل لاؤ نچ کیا جارہا تھا تو انگریز کا مطمعٔ نظر بھی یہی تھا۔ گزشتہ طویل عرصے سے اس ’’بیانئے‘‘ کے امین اور علمبردار ہمارے مذہبی و دینی طبقات اور مشرقی اقدار و روایات کے مبلغ و معلم رہے ہیں‘جیسے حکیم مشرق نے بہت پہلے کہاتھا،: اوریہ اھل کلیساکانظام تعلیم ایک سازش ھے فقط دین مروت کے خلاف اب عمران خان جیسیاکسفورڈ کے تعلیم یافتہ اور مغربی تہذیب کے شناسا و شناور سے ایسی باتوں کا صدور‘یقینا خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔برصغیر کی ہزار سالہ مسلم تاریخ میں ہمارا نظام تعلیم ہماری مساجد‘مزارات اور خانقاہوں سے متصل درس گاہوں سے وابستہ تھا‘ جس سے نسل نو تدریس کے ساتھ دینی‘علمی اور روحانی اقدار و روایات سے آراستہ ہوتی۔ایسٹ انڈیا کمپنی جس کی بنیاد مغل عہد کے عروج میں سال 1600ء میں انگلستان کے ایک تجارتی ادارے کے طور پر پڑی اور بڑی سْرعت کے ساتھ اس کا دائرہ ہندوستان کے جنوبی ساحلوں پر واقع کلکتہ‘بمبئی اور دیگر شہروں تک پھیل گیا۔کمپنی نے اپنے قدم مضبوط ہوتے ہی یہاں پہلے سے موجود پرتگیزی اور فرانسیسی تجارتی کمپنیوں کو ملیا میٹ کر کے‘علاقے کا تجارتی کنٹرول پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لیا۔انہوں نے تجارت کے ساتھ عیسائیت کی ترویج اور مشنری سرگرمیوں کی خوب حوصلہ افزائی کی۔اس ضمن میں 1698ء چارٹر آف دی کمپنی کی تجدید ہوئی‘تو برطانوی پارلیمنٹ کی مشہور مشنری دفعہ 43کو اس میں شامل کر دیا گیا‘جس کے مطابق کمپنی کو اپنے تمام کارخانوں میں‘پادری رکھنے ،پانچ سو ٹن یا اس سے زیادہ کے ہر جہاز میں ایک چیپلن لانے کی ہدایت کی۔یہ پادری پرتگالی کے علاوہ مقامی زبان سیکھتے‘کارخانوں کے چھوٹے ملازمین کو بطور خاص اپنا ہدف بنا کر عیسائیت کی طرف مائل کرتے‘اس کے ساتھ کمپنی ملازمین کے ہندوستانی بیویوں سے بچوں اور اینگلو انڈین کی تعلیم کی بنیاد رکھی گئی‘جس کے لئے ’’چیرٹی سکول‘‘ قائم ہوئے۔برصغیر میں برطانوی عہد دو ادوار پر مشتمل ہے۔پہلا عہد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہے‘جبکہ دوسرا برطانوی حکومت ہند کا‘جس کا آغاز 1849ء میں ہوا۔1858ء میں ایسٹ انڈیا کو ختم کر کے‘برصغیر کو برطانوی حکومت کے زیرنگیں کر دیا گیا۔برطانوی حکومت کو فوری طور پر اپنے نظام تعلیم کے نفاذ کی فکر ہوئی، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک مقامی لوگ اپنی روایات و ثقافت سے منقطع نہ ہونگے۔اس وقت تک ان کی حکومت مستحکم نہ ہو سکے گی۔جس کے لئے تعلیم سے بڑھ کر کوئی اور موثر ہتھیار ان کے پاس نہ تھا۔چنانچہ اس نظریہ کے پیش نظر انہوں نے ہندوستان میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز موثر انداز میں کر دیا۔اس نئے تعلیمی نظام اور تدریسی عہد کا روح رواں لارڈ میکالے تھا‘ جو 10جون 1834ء میں کمیٹی کے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا کہ ہندوستان میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہو یا یہاں کی مقامی زبانیں،اس مسئلہ پر کمیٹی کے ارکان برابر‘برابر تقسیم ہو گئے لہًذا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔میکالے نے اس موقع پر اپنی رائے محفوظ رکھی۔لیکن بعدازاں اس مسئلہ پر اس نے اپنی یادداشت جو گورنر جنرل کی کونسل کو ارسال کی اس میں پرزور الفاظ میں کہا کہ ہندوستان کے قدیم نظام علم و تہذیب کو بالکل تہس نہس کر دیا جائے اور مشرقی علوم و فنون کی بجائے انگریزی زبان اور یورپی علوم کو ہندوستان میں رائج کیا جائے اور ذریعہ تعلیم صرف اور صرف انگریز ہو۔ لارڈ میکالے نے ہندوستان میں چار سال (1834۔1838) قیام کیا۔اپنے قیام کے بعد جب وہ برطانیہ پہنچا تو اس نے ہائوس آف لارڈز میں 2 فروری1835ء کو تقریر کرتے ہوئے بتایا۔"ہندوستان کے باشندے مال و دولت ، بے پناہ قابلیت اور اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ میرے خیال میں ہم اس ملک کو کبھی فتح نہیں کر سکتے ، جب تک اس کی ریڑھ کی ہڈی کو نہ توڑیں،جو ان کا روحانی اور ثقافتی ورثہ ہے ، چنانچہ میرا مشورہ یہ ہوگا کہ ہم ان کے نظام تعلیم اور تمدن کو کلی طور پر بد ل دیں ، یہاں تکہ ہندوستانی محسوس کرنے لگیں کہ غیر ملکیوں کی ثقافت اور ان کی انگریزی زبان ہماری ثقافت اور زبان سے بہتر ہے۔ اس طرح وہ اپنا وقار ، عزت نفس اور ثقافت کو کھودیں گے۔ جب یہ ہوگا تو ہم ان کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ڈھال لیں گے وہ حقیقتاًایک غلام قوم بن جائیں گے۔" "I do not think that we would ever conquer this country, unless we break the very backbone of this nation, which is her cultural and spiritual heritage , and therefore,i propose that we replace her old and ancient education system, her culture" اس نظام تعلیم کے مقاصد میں استعمارانہ عزائم کی جھلک نمایاں تھی‘انگریز ہندوستان میں فاتح کی حیثیت سے آئے تھے اور اب وہ لندن میں بیٹھ کر یہاں حکومت کرنا چاہتے تھے۔لہٰذا انہوں نے یہ آقائی طرز کا نظام حکومت بنایا اور نظام تعلیم نافذ کیا۔جنہیں ہندوستانیوں میں غلامانہ ذہنیت کی تربیت کرنا تھی۔اس کی ایک واضح دلیل یہ تھی کہ انگریز کا ہندوستان میں نافذ کردہ نظام تعلیم‘اس ایجوکیشن سسٹم سے قطعی مختلف تھا‘جو اس دور میں خود انگلستان میں نافذ تھا۔