کورونا وائرس کی ناک تلے سیاسی اجتماع ہونا چاہئیں، یہ سوال ہی احمقانہ ہے کیونکہ سماجی فاصلے اور دیگر تدابیر کے بغیر ایسا کرنا آگ سے کھیلنے والی بات ہے۔ انسانی جانوں کو خطریمیں ڈالنے کے علاوہ معیشت کا بیڑہ غرق ہو سکتا ہے ، وبا میں شدت ملک کو مکمل لاک ڈاون کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ حکومت کی طرف سے جاری کردہ احتیاطی تدابیر کو ایک طرف رکھ دیں پھر بھی وبا کی صورت میں ماہرین صحت کی رائے کو مقدم رکھنا لازم ہے۔ اب اگر اپوزیشن ایسا کرنے پر بضد ہے اور عملی طور پر سیاسی اجتماع اور احتجاجی ریلیاں منعقد کر رہی ہے اور وہ بھی کسی احتیاطی تدابیر کے بغیر تو یہ یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔ اگر حکومت کا اقتدار میں رہنا اسے پسند نہیں ہے اور یہ کسی بھی صورت پارلیمان میں اسکا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو اس کا راستہ ایک ہی ہے کہ یا تو وزیر اعظم کے خلاف پارلیمان میں عدم اعتماد کی قرارداد لے آئے یا پھر ان اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دے جسے حزب اختلاف کے امام ِ سیاست ، مولانا فضل الرحمن، ناجائز قرار دے چکے ہیں۔ مگر اپوزیشن ہے کے ضد پکڑ کر بیٹھ گئی ہے جلسوں سے ہی حکومت کو بھگائے گی۔ دوسری طرف حکومت بھی نہلے پر دہلا بنی ہوئی ہے۔ جب ایس و پیز واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ عوامی اجتماع نہیں ہوسکتے اور اس نے ماہرین صحت کی آرا کو قانونی شکل دے دی ہے تو یہ معاملہ ضلعی انتظامیہ تک کا رہ جاتا ہے ، خواہ مخواہ بیان بازی کا فائدہ؟ جلسوں والا معاملہ بھی احتساب کی روش پر چل نکلا ہے، کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بل دس آنے۔ اپوزیشن کا جلسے کرنا اور حکومت کا اس سے چشم پوشی کرنا کیا ظاہر کرتا ہے؟ کیا دونوں پارٹیوں کا طرز عمل کچھ مشکوک نہیں لگتا؟ کیا ملک کو دوبارہ مکمل لاک ڈاون کی طرف دھکیلنے میں کوئی عظیم مقصد پوشیدہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو تجزیہ نگاروں کو دیوانگی کی حد کو پار کرکے چیخ و پکار کرنے کی بجائے فی الحال حکومت اور اپوزیشن درمیان کھیلی جانے والی آنکھ مچولی کا حظ اٹھانا چاہیے۔ اقتدار کے کھیل کی آڑ میں ہونے والی فریبی سیاست کی چالوں کو سمجھنے کی ضرورت اور اہمیت کا ادراک کرنا چاہیے۔ سیاست بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ سیاست اجتماعی مسائل کو حل کرنے کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ زندہ قوموں میں سیاست کو عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ قوم پستی کی طرف جائیگی یا بلندی کی طرف، سیاست کا معیار ہی طے کرتا ہے۔ ایسی سیاست مگر ہمارے ہاں نظر نہیں آتی۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہمارے ہاں سیاست ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔ قوم کا تصور ہی ابھی تک واضح نہیں ہوسکا، نظریاتی سطح پر ہی معاملہ اٹکا ہوا ہے، عملیت پسندی کی کوئی شکل تشکیل نہیں پاسکی۔ بانی پاکستان نے جو واضح تصور ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی کو اپنے خطاب میں دیا تھا، اسے آج تک نہ ہی تسلیم کیا گیا ہے اور نہ ہی اسے نافذ کرنے کی طرف دھیان دیا گیا۔ وہ تصور یہی تھا نا کہ ریاست اور فرد کے درمیان لازوال رشتہ ہی قوم کے آفاقی تصور کی بنیاد ہے۔ ملک کو بنانے میں جو دلیل اختیار کی گئی وہ اپنی جگہ پر درست تھی کہ سامراجی ریاست اسے مانتی تھی۔ یہ کہ و ہ دلیل کامیاب رہی یہ سیاست کی کامیابی تھی۔ اسے کیسے چلانا اور مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے اسکی حکمت عملی تو وہی ہوگی نا جو ایک ریاست اختیار کرتی ہے۔ یعنی انسانی وقار کے تحفظ کو ذہن میں رکھتے ہوئے عدل کی راہ پر چلنا۔ شہریوںکو بلا تخصیص رنگ، نسل، زبان اور مذہبی عقیدہ کے مساوی حقوق دینا اور اس مقصد کے لیے عملی اقدامات اٹھانا۔ قائد اعظم کے تصور شہریت کو نہ مان کر صرف دشمنوں ہی کے ہاتھ مضبوط کیے گئے۔ملک دو لخت ہوگیا لیکن عقل نہیں آئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد اشرافیہ کی ساری جدوجہد معاشرتی ناہمواریوں کو مضبوط کرنے اور دوسرے لفظوں میں، ظلم کو فروغ دینے پر ہی رہی ہے۔ یوں ملکی تاریخ کا یہ سارا سفر رائیگاں اور لاحاصل رہا ہے۔ دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اس سفر پر آگے نہ بڑھیں بلکہ پیچھے کی طرف لوٹ جانے میں ہی اس ملک کا بھلا ہے۔ وہ سماجی معاہدہ جو بانی پاکستان نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں ہمیں دیا ہے ، وہی ہماری نجات کا راستہ ہے۔ اسے آئین کا دیباچہ بناکر اور اسکی روشنی میں دیگر آئین کی اصلاح کرکے معاشرے میں در آئے تفرقوں اور جھگڑوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے جو ہمیں خود مختاری اور خوشحالی کے راستے پر چلنے سے روکتے ہیں۔ قرضے لیکر جو ترقی کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس نے لوگوں سے ان کے منہ کا نوالا تک چھین لیا ہے۔ آگے کیا کرنا ہے؟چھوڑیں، واپس لوٹ جائیں۔ اپنے دریا ، جنگلات بحال کریں ، آبی وسائل کو ترقی دے کر پائیدار معیشت کی بنیاد رکھیں۔ لوگوں کو انکی تاریخی اور ثقافتی حقوق اور آزادیاں لوٹادیں۔ یہی عدل ہے اور سیاست بھی۔ یہی راستہ ہے دلدل سے نکلنے اور اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کا۔