چاند جب بام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ دل بھی ہر کام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ گونجتے رہتے ہیں الفاظ میرے کانوں میں تو تو آرام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ یہ اللہ حافظ کی ردیف مجھے ایسے ہی یاد نہیں آئی کہ حالات ہی کچھ ایسے ہیں۔ آپ کو یاد آیا ہو گا کہ اس نہج کہ معیشت کا جنازہ نکل چکا تو کوئی کہتا ہے اللہ حافظ۔ چلیے ہم آپ کو زیادہ پریشان نہیں کرتے۔ ’’کھینچتا رہتا ہے فنکار لکیریں اور پھر۔ کاوش خام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ‘‘۔ سعد یہ حسن بھی کیا شے ہے کہ جب جی چاہے۔ عشق بے نام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ کون لوگ ہیں جو ان سیاسی لوگوں سے عشق کرتے ہیں اور ان کی بے وفائی انہیں مزید انگیخت لگاتی ہے۔ واقعتاً یہ کوئی غیر مریٔ طاقت ہے جو انہیں جھوٹے وعدے اور وعید کرنے والوں سے باندھے رکھتی ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ بجٹ کے اعداد و شمار بقول مشتاق احمد یوسفی جھوٹ کی تیسری قسم ہے۔ پہلی جھوٹ اور دوسری سفید جھوٹ۔ بڑی سیدھی سی بات ہے کہ بجٹ لانے والے کبھی گھاٹے کا سودا تو کر نہیں سکتے۔ وہ کوئی احمق تو نہیں۔ ہر کوئی عوام کو نچوڑنے کا نیا انداز لاتا ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت تو عوام کے پہلے ہی کڑاکے نکال چکی۔ آپ کوشاید یاد نہ ہو کہ نوازشریف کے مصاحبین کا یہ خاص تکیہ کلام ہوتا تھا کہ ’میاں صاحب کڑا کے کڈھ دیو‘ مگر اس وقت تو میاں صاحب کے اپنے کڑاکے نکل گئے تھے۔ اب کے تو سامنے عوام ہیں‘ بے چارے عوام کیا کر سکتے ہیں جو بھی کرنا ہے وہ تو شیر نے ہی کرتا ہے۔ شیر بھی کافی عرصے کا بھوکا۔ سرکاری ملازمین پر بڑا احسان کیا گیا کہ 15 فیصد تنخواہیں بڑھائی جا رہی ہیں جبکہ پچاس فیصد بڑھانے کی ضرورت تھی۔ پچاس فیصد زرداری صاحب نے بڑھائی تھیں اور تب نون لیگ کو بہت ناگوار گزرا تھا کہ سرکاری ملازمین کی عادتیں خراب کی جا رہی ہیں۔ ظاہر ہے یہ سرکاری ملازم ذاتی ملازم ہی تو ہیں۔ بے چارے پنشن لینے والے تو ان کے الطاف سے محروم رہے۔ پانچ فیصد کا اضافہ مذاق لگتا ہے۔ کیا پنشن لینے والوں کے لیے مہنگائی نہیں۔ پنشن لینے والوں کی اکثریت تو کچھ اور کام بھی نہیں کرسکتی۔ ان کو سہولت دینا تو زیادہ ضروری تھا۔ تنخواہوں میں اضافہ تو صرف گھی سے نکال لیا جائے گا۔ گویا گھی سیدھی انگلیوں ہی سے نکل آئے گا۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ گھی چھ سو روپے تک پہنچ چکا۔ ادویات بھی آپ نہیں خرید سکیں گے۔ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی بھی اب ٹھنڈی ہو کر بیٹھ گئی ہے اور خاص روایتی بیان داغ رہی ہے کہ بجٹ الفاظ کا گوکھ دھندا ہے مہنگائی کا طوفان آئے گا اور بس۔ آپ تو کہتے تھے کہ امریکہ کی مخالفت میں اپنا سٹیٹ بینک بھی آئی ایم ایف کے سپرد کر گئے۔ اب تو صاف اعلان ہو چکا کہ پٹرول بڑھے گا اور بجلی بھی او رباقی اشیا خودبخود بڑھ جائیں گی اور آخر میں دلچسپ جملہ مریم اورنگزیب کا کہ غریب عوام اور سرکاری ملازمین کو ریلیف مہیا کرتے رہیں گے۔ ایک اور مزے کی بات کہ وزیراعظم کی تنخواہ میں دس فیضد اضافے کی سمری مسترد۔ کمال ہے کیا وزیراعظم تنخواہ پر بیٹھا رہتا ہے۔ خان صاحب کی مثال بھی آپ کے سامنے ہے کہ ان کا جہاز بھی 65 روپے فی کلومیٹر کرتا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ عوام کے 98 کروڑ جہاز میں پھونک دیئے۔ کیا کریں ہاتھی کے دانت کھانے اور دکھانے کے اور۔ ایک اور بیان ہمیں بہت بھایا کہ شہبازشریف فرماتے ہیں کہ بجٹ معاشی بحرانوں سے نکلنے کا نسخہ اور یہ اتحادیوں کا اخلاص اور قابلیت کا مظہر ہے۔ شوکت واسطی کا شعر یاد آگیا: بڑے وثوق سے دینا فریب دیتی ہے بڑے خلوص سے ہم بھی فریب کھاتے ہیں وہ میرے کالج آئے تو انہوں نے کئی شعر سنائے۔ ان سے گپ شپ رہی۔ ایک شعر اور پڑھ لیں: شوکت ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا ہم رہ گئے ہمارا زمانہ نہیں رہا اب بجٹ سے شعر پر بات آ گئی ہے تو ہم بھی اپنا رخ موڑ لیتے ہیں کہ مجھے اپنے ایک دوست کا تذکرہ کرنا ہے کہ کل وہ اچانک ہمیں چھوڑ گئے۔ فیصل آباد کے اس خوبصورت کا شعر بہت وائرل ہوا تھا: میں دے رہا ہوں تمہیں خود سے اختلاف کا حق یہ اختلاف کا حق ہے مخالفت کا نہیں ثناء اللہ ظہیر ایک پیاری سی شخصیت کا نام ہے۔ میں فیصل آباد شہزاد بیگ کے مشاعرہ میں گیا تو وہاں اس محبت بھرے شاعر سے ملاقات ہوئی اور وہ کس قدر انس اور محبت سے کمپنی دینے آیا۔ طرحدار شعر کہتا تھا: کچھ اس لیے بھی مجھے آئینہ پسند نہیں میں صاف گوئی میں بھی انتہا پسند نہیں وہ ایک ترو تازہ شخص تھا‘ ہنستا کھیلتا اور زندگی سے بھرپور۔ اندر کا حال کون جانتا ہے۔ اسے درد کا محسوس ہوا اور پھر کھیلنے کا موقع ہی نہ ملا۔ اس نے خود بھی تو کہا تھا۔ یہ دل کا روگ ہے شریانیں بند ہونے کا۔ کسی کے جسم پہ کوئی نشان نہیں ہوتا۔ وہ رشتہ داریاں اور دوستیاں نبھانے والا شخص تھا۔ اس کی رحلت کو ادبی حلقوں میں بہت زیادہ محسوس کیا گیا: اک تعلق کو بکھر سے بچانے کے لیے میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں بہرحال ثناء اللہ ظہیر کا آناً فاناً چلا جانا دوستوں کے لیے بہت دکھ کا مرحلہ ہے۔ اللہ ہمارے دوست کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر عطا کرے۔ آخر میں اس کے دو تین اشعار: تہمارے سامنے سچ بولنے سے رک گئے ہیں ہمیں بتائو تمہیں اور کیا پسند نہیں عمارتوں پہ لگی تختیاں بدل لی ہیں وہ خود تو بدلے نہیں وردیاں بدل لی ہیں وہ شخص منافقت سے ترے درد کی ہرشہر تشہیر تو کر دے گا مداوا نہ کرے گا