ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف دن بدن کوئی نہ کوئی سازش رچی جاتی ہے۔ یہ کانگریس کے دور حکومت سے ہوتا آرہا ہے۔ مسلمان 70 سے اپنے آپ کو کانگرس کا محتاج سمجھ کر رہے ہیں۔ اپنی موجودگی کا ثبوت اور احساس تک نہیں دلا سکے انھیں صرف ووٹ حاصل کرنے کیلے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں مسلمانوں کو کبھی ٹرپل طلاق کے نام پر ستایا گیا ہے، کبھی پرسنل لا میں مداخلت کرنے کی کوشش کی گئی ، کبھی مسلمانوں کو غیر ملکی اور دوسرے درجہ کا شہری کہا گیا۔ گؤ کشی کے نام پر سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو ماب لنچنگ کا نشانہ بنایا گیا اور موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اتنی نا انصافی اور عدم برداشت کے باوجود بی جے پی نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ جس میں ای وی ایم مشینوں کا خاص عمل داخل ہے۔ ورنہ اتنے برے حالات سے گزرنے کے باوجود عوام کا ووٹ حاصل کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ دوبارہ بی جے پی کے مرکزی اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلمانوں اور اسلام کو مزید نشانہ بنایا جارہا ہے۔ طلاق ثلاثہ کا بل مسلمانوں کے پرسنل لا اور علماء اکرام سے مشورہ لیے بغیر پاس کرایا گیا۔ اسی کے بعد مسلسل ایسے بلوں کو جلد بازی میں پاس کیا گیا جس کانقصان آنے والے دنوں میں اٹھانا پڑ سکتاہے۔ بھلے ہی اپوزیشن پارٹیوں کے مخالفت کرنے پر امیت شاہ نے کہا تھا کے بل کا غلط فائدہ نہیں اٹھایا جائے گا۔ اور آج سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہیں جتنے بھی اپوزیشن لیڈر ہے انھیں ٹارگیٹ کیا جارہا ہے۔ کسی کی ای ڈی کے زریعے جانچ کروائی جارہی ہے تو کسی پر ایسے قانون کا استعمال کیا جارہا ہے کہ وہ دو ماہ تک باہر نہیں آسکتا ہے۔ کشمیر کے خصوصی درجے کو5 اگست کے دن جبرا ختم کردیا گیا۔ اور کشمیری رہنماؤں کو نظر بند کردیا گیا ہے۔ کشمیری عوام خوف و دہشت کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ کشمیریوں پر ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ وہاں حالات باالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔ موبائل سروس انٹرنیٹ سروس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ مسلسل ظلم و جبر بے قصور نہتے کشمیریوں پر کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کہتی ہے کہ دونوں ملکوں کو آپس میں مل کر حل کرنا چاہیے۔ جب کہ کشمیریوں سے انکی رائے تک نہیں لی گئی۔ اور ایک عذاب ان پر نازل کردیا گیا۔ اسلحہ بردار لاکھوں کی تعداد میں فوج کو مسلط کر دیا گیا ہے۔ دکانیں اسکول سرکاری ادارے، پرائیویٹ سیکتر سب پر تالے پڑے ہیں۔ یہاں تک کہ کاروبار سب کچھ بند ہے۔ تو پھر 70 لاکھ کے قریب کشمیریوں کی ضروریات زندگی کیسی پوری ہورہی ہوگی؟۔ سپریم کورٹ افسوس تو جتا رہا ہے۔ لیکن فوری اقدامات کیوں نہیں کیے جارہے ہیں۔ اگر ایسی صورت کسی غیر ملک میں ہوتی تو عالمی امن کے الم بردار چیخ چیخ کر احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل جاتے ہیں لیکن افسوس یہ ایک مسلمانوں پر مشتمل خطہ ہے۔ اس لیے کسی کو کوئی افسوس نہیں ہورہا ہے۔ کشمیری بیٹوں کے پاکیزہ نفوس پر فوج کی گندی نظریں پڑی ہوئی ہے۔ بوڑھے والدین اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر فکر مند ہیں۔ بچے اور نوجوانوں کو پیلٹ گن کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عنقریب دو ماہ پورے ہونے کو ہے۔ کسی کو کوئی احساس نہیں ہورہا ہے نہ فکر لاحق ہورہی ہے۔ کہ اتنی بڑی انسانی برادری پر جانورں کی طرح ظلم کیا جارہا ہے۔ یہ سراسر انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار تنظیمیں صرف ایک بیان دے کر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بی جے پی اقتدار کے نشے میں مست ہے۔ مسلم قیادت حکومت کے گن گانے میں لگی ہوئی ہے۔ اور ہندوستانی مسلمان خوب خرگوش میں مست ہے۔ انھیں اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ پوری دنیا کے مسلمان جسد واحد کی طرح ہے۔ جسم کے کسی حصہ کو اگر تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم بے سکون ہوجاتا ہے۔ لیکن آج ملت اسلامیہ فرقوں اور جماعتوں میں بٹ کر رہی گئی ہے۔ اگر آج بھی مسلمان اپنے حق کے لیے اور مظلوم کشمیریوں کے لیے آواز بلند نہیں کرتے ہیں اور حکومت کے دباؤ میں وقت کے فرعون کے ڈر سے خاموش رہتے ہیں تو یاد رکھو یہ آگ بھڑکتی ہوئی تمہارے گھروں کو جھپیٹ میں لے کر رہے گی۔ اور کوئی تمہارے چیخوں پر کان تک نہیں دھرے گا۔ آج مسلمانوں کو ضرورت ہے کہ وہ تمام آپسی رنجشوں کو بلائے طاق رکھتے ہوئے المسلم کجسد واحدہ کی مثال پیش کریں۔ اور پوری امت ایک ہوکر حکومت کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوجائیں جب تک انصاف نہیں ملتا اپنا احتجاج جاری رکھیں۔ جو قوم ظلم و ناانصافی کے دور اقتدار میں اپنے حق کیلے آواز نہیں اٹھاتی ہے وہ مردہ کہلانے کے لائق ہے۔ مسلمان بزدل نہیں ہوسکتا ہے۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہیں کہ جب بھی وقت کے فرعونوں نے سر اٹھایا ہے تو موسی نے اسکے وجود کو بے وقعت کردیا ہے۔ ہم وہ قوم ہے جسکے سپاہ سالاروں نے ساحل پر سفینوں کو جلایا ہے۔ یا تو فتح کے پرچم گاڑے ہے یا وہاں پر اپنی قبریں بنائیں ہے۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ معصوم نہتے کشمیریوں پر کس طرح سے ظلم و تشدد کیا جارہا ہے۔ ایک گھر میں محصور کشمیری خاندان ہے، ماں اپنے بچوں کو اپنی گود میں سمیٹے ہوئے ہے۔ وہ بندوق بردار فوجی سے گڑ گڑا کر رحم چاہ رہی ہے۔مگر انکے دل نرم نہیں ہوتے بچے بھوک سے نڈھال، باپ بے بس حالت سے?مجبور ہے۔ میرا لاہو چیختا ہے۔ اور آنکھ کھل جاتی ہے۔ کہ کس طرح سے بے بس کردیا گیا ہے کشمیریوں کو بد ترین ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ مسلمانوں اب بھی وقت سے اس سے پہلے تمہیں مجبور کردیا جائے۔ ملک میں تم پر ایسے قانون کا استعمال ہونا شروع ہوجائے جس کو ماننے پر مجبور کیا جائے یا بھر ملک بدر کردیا جائے ہوش کے ناخن لیجیے۔ وقت اور حالات بڑے نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ سنگھی عناصر اپنے اقتدار میں ایسے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش میں ہے۔ کہ مذہبی شعائر پر عمل کرنے پر پابندی عائد کرنے کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت کے ارادے اب کچھ بھی ٹھیک نہیں لگ رہے ہیں۔ (روزنامہ افکار بھارت )