وہ بوڑھی کیمسٹ دو کمروں کے فلیٹ میں رہتی ہے جہاں تک پہنچنے کے لئے چارمنزلوں کی سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیںپرانی طرز کی اس عمارت میں لفٹ نہیں ہے۔ فلیٹ میں پہنچ کراسے اپنی بے ترتیب پھولی ہوئی سانسیں نارمل کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے سانسیں بحال ہونے کے بعد وہ اکثر بلیک کافی بنا کر اپنی پسندیدہ کرسی پر بیٹھ جاتی ہے اس کا بوڑھا شوہر گھر پر ہو تو وہ کافی بنانے میں مدددیتا ہے وہ کافی کا کپ لیتے ہوئے مسکراکرشکریہ ادا کرتی ہے او ر کہتی ہے اس بہترین کافی کپ کے بدلے میںآج آپ کو آلو کا زبردست سوپ بنا کر دوں گی ،دونوں میاں بیوی اس چھوٹے سے فلیٹ میں اسی طرح ہنستے مسکراتے ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی گزاررہے ہیں جیسے پہلے گزارتے تھے۔ اس دو سو اسکوائر میٹر کے فلیٹ میں مطمئن زندگی گزارنایقیننا کوئی بڑی بات نہیں عام سی بات ہے لیکن عام ہی تو نہیں یہ اینجلا مرکل ہیں جو سولہ برس تک یورپ کی سب سے مضبوط معاشی قوت جرمنی کی حکمران رہیں اور آجکل ریٹائرڈ زندگی گزار رہی ہیں ان کی صبح کسی نیب یااینٹی کرپشن کی طلبی کا نوٹس وصول کرتے نہیںہوتی۔ ان کے گھر کے باہر پولیس موبائل کھڑی نہیں ملتیں،ان کی خدمت کے لئے باوردی خدام موجود نہیں اوراب کیا ہوں گے جب یہ حکمراں تھیں تب بھی نہیں تھے یہ اپنے کام خود کرتی تھیں یہ واشنگ مشین میں کپڑے دھلنے کے لئے ڈال دیتیںاور ان کے شوہر نکال لیا کرتے تھے۔ ایک نیو زکانفرنس میں کسی نے اس بارے میں پوچھ لیا تو مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے میں اور میرے شوہر گھر کے سارے کام کرلیتے ہیں ،ایک بارکسی منہ پھٹ صحافی نے انہیں لباس کے حوالے سے ٹوک دیا کہا کہ آپ نے تو وہی لباس پہنا ہوا ہے عجیب سا ذاتی نوعیت کا سوال تھا جس پر انجیلا جز بز ہوئیں نہ پیشانی پر بل پڑے نرمی سے کہا کہ میں سرکاری ملازم ہوں ماڈل نہیں ۔ چلیں انجیلا مارکل کو جانے دیں نیلسن میڈیلا کو کون نہیں جانتا ،اس شخص نے جنوبی افریقہ کو حیرت انگیز حد تک بدل دیا نسل پرستی کا اکھاڑ کر دور پرے پھینک دیا ہمارے یہاں جو مقام قائد اعظم کا ہے سمجھیں وہی مقام وہاں نیلسن منڈیلا کا ہے ،انہی منڈیلا صاحب نے 10مئی1994ء کو جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایاا ور اگلی صبح جوگرز کے تسمے باندھ کرایوان صدر سے باہر نکل پڑے ۔نیلسن منڈیلا صبح کو لمبی دوڑ لگایا کرتے تھے وہ سڑک پر دوڑ رہے تھے کہ انہیں لگا کہ کوئی ان کے پیچھے پیچھے دوڑ رہا ہے مڑ کر دیکھا توان کے محافظ بھی ان کے پیچھے ہانپتے آرہے ہیں ۔منڈیلا حیران ہو کر رک گئے اور پوچھا ۔’’کیا آپ لوگ بھی جاگنگ کرتے ہیں؟‘‘ سکیورٹی اسٹاف میں سے ایک نے نفی میں سرہلایاا ور جواب دیا نہیں سر ! ہم تو آپکی حفاظت کے لئے ساتھ ساتھ دوڑ رہے ہیںاس پر منڈیلا نے ہنس کر کہا ’’مجھے اپنے ملک میں اپنے لوگوں سے کیا ڈر،آپ واپس جائیں میں جاگنگ کرکے آجاؤں گا‘‘ سکیورٹی اسٹاف نے ان کی بات ماننے سے معذرت کرلی تھوٖڑی دیر بحث و تمحیص کے بعد طے پایا کہ دو افراد ان کے ساتھ رک جائیں اور باقی واپس چلے جائیں اس کے بعد یہ طے ہوگیا کہ دو افراد ان کی سکیورٹی کے لئے ساتھ جاگنگ کیا کریں گے ،یہ دو افراد کی سکیورٹی ان کے ساتھ پانچ برس تک جاگنگ کرتی رہی یہاں تک کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کرلیا،ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں بابائے قوم اور سابق صدر کی حیثیت سے مراعات کی پیشکش ہوئی ،تاحیات سکیورٹی اور پروٹوکول دیا گیا لیکن منڈیلا صاحب نے انکار کردیا کہا کہ مجھے بھلا اپنے لوگوں سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے ؟ اسرائیل کا نام سنتے ہی ہماری پیشانی پر بل پڑجاتے ہیںا ور یہ ایسا غلط بھی نہیںاسرائیل سے ہماری ناراضگی بلاوجہ نہیں ہے ہم اسے غاصب سمجھتے ہیں جس نے قبلہ ء اول پر قبضہ کر رکھا ہے۔ فلسطینیوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے لیکن اس ظالم غاصب اور اندھی قوت نے اپنے ملک میں پوری آنکھیں کھول رکھی ہیں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی لاڈلی بیگم سارہ نیتن یاہو کافی بدزبان اور چڑچڑی مشہور ہیں۔ ملازمین کے ساتھ خاتون اول کے برے سلوک کے کئی قصے مشہور ہیں۔ ان کے متاثرین میں سے ایک نے تنگ آکر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا عدالت بھی کوئی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ نہیں محض لیبر کورٹ تھی جہاں نفتالی نامی ملازم نے دعویٰ دائر کیا کہ وزیر اعظم کی اہلیہ ان سے بدسلوکی کرتی ہیں ۔ہتک آمیز رویہ اختیار کئے رہتی ہیں ،ایک بار گلدان اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا کہ اس میں تازہ پھول نہیں ،ایک مرتبہ آدھی رات کو بلا کر کھری کھری سنائیں کہ دودھ گتے کے ڈبوں کی پیکنگ میں لانے کے بجائے پلاسٹک کی پیکنگ میں کیوں لائے۔عدالت میں نفتالی کا دعویٰ درست قرار پایاا ور جج نے 40 صفحات کا فیصلہ لکھ ڈالا خاتون اول کو حکم دیا کہ وہ متاثرہ ملازم کو43ہزار 700ڈالر ادا کرے ۔ دنیا میں ایک ملک اور بھی ہے جس کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہواہے غربت بھوک افلاس کے ڈیرے ہیں لیکن اس کے جمہوری حکمران قیمتی پوشاکیں پہنے کروڑوں کی لگژری گاڑیوں میںشاہانہ پروٹوکول کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں جب یہ جھنڈے والی گاڑیوں میں بیٹھنے کو بڑھتے ہیں تو دوڑ کر دروازہ کھولنے والا پہنچ جاتاہے ۔گاڑی منزل مقصود پر رکتی ہے تو دروازہ کھولنے کے لئے ملازم کا ہاتھ حرکت میں آچکاہوتاہے۔ ان کے شاہانہ انداز بتاتے ہیں کہ یہ صرف ٹائلٹ کا دروازہ ہی کھولتے ہوں گے ،ان شاہانہ طور طریقوں سے جس ملک میں جیتے ہیں ۔وہاں آج بھی پولیو اسکے مستقبل کی ٹانگیں مروڑ رہاہے اس ملک کے سفید ریش شہریوں کا بیرون ملک سفر بھی پولیو کے حفاظتی قطرے پینے سے مشروط ہے۔