کوئٹہ میں ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی نے دن دیہاڑے ٹریفک سارجنٹ کو اپنی قیمتی گاڑی سے کچل کر موت کے گھاٹ اتارا تو کئی روز تک میڈیا میں شور مچا‘ سول سوسائٹی نے بھی قاتل کو قرار واقعی سزا دلانے کے لئے چیخ و پکار کی مگر بالآخر طاقتورقاتل مقامی عدالت سے باعزت بری ہوا‘ موقع کے گواہ‘ سیف سٹی کے ٹی وی کیمرے اور دیگر شواہد سب جھوٹے قرار پائے‘ اندھے گونگے ‘ بہرے نظام عدل نے صرف عبدالمجید اچکزئی کی بات مانی اور مقتول پولیس سارجنٹ کا خون رائیگاں چلا گیا‘ اسلام آباد میں وفاقی خاتون محتسب کشمالہ طارق کا صاحبزادہ عبدالمجید اچکزئی سے زیادہ خوش قسمت ہے کہ موقع کے گواہوں کے بیان کے مطابق اس کی قیمتی گاڑی کی ٹکر سے مانسہرہ کے چار نوجوان زندگی کی بازی ہار بیٹھے تو میڈیا پر قرار واقعی شور مچا نہ سول سوسائٹی نے احتجاج کیا اور نہ ریاست مدینہ کے علمبردار حکمرانوں نے ان چار خاندانوں سے ہمدردی ظاہر کی‘ جن کے لخت جگر نور نظر سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے وفاقی دارالحکومت پہنچے اور ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرنے والے نوجوان کے شوق تیز رفتاری پر قربان ہو گئے۔عبدالمجید اچکزئی تو گرفتار ہو گیا مگر چار نوجوانوں کے قتل کا سبب بننے والی گاڑی کے مالک کو حوالات تک کی ہوا نہ کھانی پڑی۔ دنیا بھر میں دارالحکومتوں کی پولیس اور انتظامیہ دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ فعال و مستعد ہوتی ہے اور قانون کی عملداری بے مثل و بے نظیر‘ کسی زمانے میں اسلام آباد واقعی مثالی شہر تھا مگر کچھ عرصے سے یہ کراچی اور دیگر شہروں کی طرح طاقتوروں اور قانون شکنوں کی چراگاہ ہے اور امن و امان کی صورت حال خراب ‘قانون شکنی روزمرہ کا معمول ہے‘مانسہرہ کے پانچ دوست آنکھوں میں اے این ایف کی باعزت و بارعب ملازمت کے سپنے سجائے ‘اپنی مائوں بہنوں کی دعائوں کا اثاثہ سمیٹے اسلام کے نام پر آباد ہونے والے شہر میں آئے تھے‘ٹیسٹ دینے کے بعد ان کا ارادہ شائد فیصل مسجد میں نماز ادا کرنے‘ حضرت بری امامؒ کے مزار پر حاضری دینے اور پارلیمنٹ ہائوس‘ وزیر اعظم ہائوس اور سپریم کورٹ کی پرشکوہ عمارت دیکھنے کا بھی ہو لیکن ایک طاقتور اور بااختیار شخصیت کے صاحبزادے کی گاڑی نے ان سارے سپنوں‘ ارادوں اور آرزوئوں پر پانی پھیر دیا ۔چاروںکو یہ مہلت بھی نہ دی کہ وہ اپنے قاتل سے یہ پوچھ سکیں بای ذنب قتلت (ہمیں کس جرم کی سزا ملی‘ کیوں قتل کر دیا گیا) اسلام آباد کی بے حس پولیس اور انتظامیہ نے وزیر اعظم عمران خان کو ‘صبح دوپہر‘ شام جو ریاست مدینہ کی مالا جپتے نہیں تھکتے ‘یہ رپورٹ پیش کی کہ گاڑی کشمالہ طارق کا صاحبزادہ نہیں اس کا ڈرائیور چلا رہا تھا‘ ممکن ہے یہی بات درست ہو لیکن موقع کے گواہ اور چار مقتولوں کے زخمی ساتھی کی شہادت کی بھی کوئی وقعت ہے؟۔ اسلام آباد میں جگہ جگہ نصب سیف سٹی کے کیمروں میں محفوظ فوٹیجز کو اب تک سامنے کیوں نہیں لایا گیا؟ انہی فوٹیجز سے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو سکتاہے کہ آیا گاڑی واقعی ڈرائیور چلا رہا تھا یا اسے قربانی کا بکرا بنایا گیا؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ڈرائیور کو ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر کسی نے اکسایا یا اس لاپروا ڈرائیور نے خود ہی قانون کی خلاف ورزی کی اور چار قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنا‘ چار افراد کے قتل کا وقوعہ ہوا مگر مقامی منصف نے صاحبزادے کو ضمانت قبل از گرفتاری فراہم کرنے میں عجلت دکھائی اور مقتولوں کی لاشیں ورثا تک پہنچنے کا انتظار کیا نہ پولیس کو تفتیش کا موقع فراہم۔ اتنی جلدی ضمانت تو معمولی جیب کترے کی بھی نہیں ہوتی جسے شک کی بنیاد پر پولیس گرفتار کر لیتی ہے۔ کراچی میں شاہ رخ جتوئی‘ کوئٹہ میں محمود خان اچکزئی کے عزیز اور ان کی جماعت کے ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی اور دارالحکومت میں وفاقی خاتون محتسب کشمالہ طارق کے صاحبزادے کے کیس میں گونہ مماثلث ہے۔ تینوں معاملات میں طاقتور اور کمزور ‘ امیر اور غریب‘ قاتل اور مقتول ایک دوسرے کے مدمقابل تھے اور ریاست‘ ریاستی ادارے اور حکمران فریق ثالث کے طور پر مدعی اور منصف‘ تینوں بار طاقتور ‘ امیر اور قاتل سرخرو ہوئے اور فریق ثالث نے خاموش تماشائی بن کر ایمانداری سے طاقت‘ امارات اور قانون شکنی کا ساتھ دیا ‘کبھی اپنے روائتی سنگدلانہ طرز عمل پر شرمندگی محسوس نہیں کی‘حتیٰ کہ ریاست مدینہ کے علمبردار حکمران نے بھی اشرافیہ کی تابعدار و نمک خوار پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی یکطرفہ رپورٹ پر یقین کیا‘ زخمی عینی شہادت سے کچھ معلوم کرنے کی زحمت گوارا کی نہ سیف سٹی کے کیمروں کی فوٹیج طلب کر کے یہ دیکھنا پسند فرمایا کہ وقوعہ کے وقت ڈرائیونگ سیٹ پر کون بیٹھا تھا اور جب چار بے گناہ گاڑی سے کچلے گئے تو کشمالہ طارق کے صاحبزادے کا ردعمل کیا تھا؟ پولیس‘ انتظامیہ اور حکمران تو عرصہ ہوا سنگدل اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بن چکے‘ نظام عدل بھی ان کے گھر کا نوکرچاکر ہے۔ حیرت بلکہ افسوس مجھے قومی میڈیا اور سول سوسائٹی پر ہے جس نے چار بے گناہ افراد کے قتل کو ایک ڈرائیور کی لاپروائی اور نوجوانوں کی قسمت سمجھ کر دو دن میں بھلا دیا‘ اتنا شور بھی نہ مچایا جتنا شاہ رخ جتوئی اور عبدالمجید اچکزئی کی دیدہ دلیری پر مچا تھا‘ بے حسی بڑھ چکی ہے اور کسی غریب کی موت پر بھی ہم سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ذمہ دار کتنا طاقتور و بارسوخ ہے‘ سڑکیں پہلے بھی غیر محفوظ تھیں اور مہنگی گاڑیوں کے مالکان ہی نہیں‘ ڈرائیور بھی اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے تھے مگر اسلام آباد کے سانحہ نے میرے جیسے لاوارث شہریوں کے خوف میں مزید اضافہ کر دیا ہے‘ مانسہرہ کے بے گناہ نوجوانوں کے ورثاء زندگی بھر اس پچھتاوے کا شکار رہیں گے کہ ان کے جگر کے ٹکڑوں کے لاشے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت کی سڑکوں پر گرے تو کسی نے حقیقی قاتل کو گرفتار کرنا درکنار‘ اس کی نشاندہی کی ضرورت محسوس نہ کی‘ کیمروں سے فوٹیج غائب اور پولیس‘ انتظامیہ ‘ حکمرانوں کے دلوں سے جذبہ ہمدردی محو ؎ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے