قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس نہیں ، یہ قیامت کی گھڑی تھی ۔ یہ عرفان ذات کا لمحہ تھا۔ صدیوں کے تجربات کانچوڑ تھا جو صبح گویا بارش کے ساتھ برس پڑا تھا۔ ایک طرف عمران خان قومی اسمبلی میں حلف اٹھانے آ رہے تھے دوسری جانب نواز شریف کو اڈیالہ جیل سے عدالت لایا جا رہا تھا۔ عمران خان کا سفر روشنیوں میں نہایا تھا اور نواز شریف سلاخوں کے پیچھے بر مزار ما غریباں نے چراغے نے گلے کی علامت بنے تھے۔وقت کا موسم بدل چکا تھا۔ فرمان رب کریم یاد آ گیا : تلک الایام نداولھا بین الناس۔ یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔ انہی راہ داریوں میں ، دوستوں کے طنزیہ فقرے سن سن کر یہ دن طلوع ہوا تھا۔دیہاتی آدمی ہوں ، ایک خیال آیا آج موقع ہے ۔ ذرا ان احباب کی خیر خیریت دریافت کر لی جائے جو خانداں شریفاں تو رہا ایک طرف ،کبھی مریم اورنگزیب سے بھی مل کر آتے تھے تو پورا ایک ہفتہ کہکشائوں سے نیچے نہیں اترتے تھے کہ زمین پر مٹی بہت ہوتی ہے۔ اہل دربار میں سے ایک آدھ ہی نظر آیا ۔کسی خزاں کے مارے درخت کی طرح ، اجڑا اجڑا ۔اس ملاح کی طرح کسی برسات میں جس کی کشتی ڈوب جائے اور وہ ساحل پر پھٹی آنکھوں سے پانیوں کو دیکھتا جا رہا ہو۔پھر اس خیال نے تھام لیا کہ کسی دکھی دل پر فقرے اچھالنا نجیب لوگوں کا شیوہ نہیں۔ شرافت کی صحافت کے کچھ پیادوں سے ملاقات ہوئی مگر چاہتے ہوئے بھی کوئی بات نہ کی۔عمران حلف اٹھا رہا تھا ۔پامال صفوں سے اٹھتی دھول سے دامن بچا لینا ہی مناسب تھا۔ عمران کو دیکھا ، خوش تو تھا مگربدن بولی میں وہ غرور یا تفاخر نہیں تھاشریف خاندان کے درباری جسے اوڑھ کر پھرا کرتے تھے۔مسکراتا چہرہ ، مگر جھکے کندھے اور ایک ٹھہرائو۔نجیب قبیلوں کے کسی بہادر جنگجو کی طرح کوئی ایسی حرکت نہیں جو عامیانہ ہو۔یہ دھرنے والا عمران نہیں تھا۔ یہ بدلا ہوا عمران تھا۔ ذمہ داریوں کا بوجھ پڑا تو مزاج کی مزید تہذیب ہو سکتی ہے۔دیر تک اسے جاتے دیکھتا رہا۔ ایک یا دو برس کی بات کی بات نہیں عشروں کی محنت کے بعد آج وہ اس مقام تک پہنچا تھا۔ دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔ باقی کو تو چھوڑ دیجیے تحریک انصاف کے درجن بھر ایسے رہنمائوں کو جانتا ہوں جو ایک زمانے میں عمران پر فقرے کسا کرتے اور طنز کے تیر اچھالتے کہ کس کی بات کرتے ہو۔ عمران کی؟ جس کا کوئی مستقبل نہیں۔ اللہ کے کام دیکھیے آج یہ عظیم رہنما خواہشات کا کشکول تھامے بنی گالہ حاضر ہو رہے ہیں کہ عمران اس میں کچھ ڈال دے اور ان پیشہ وروں کی عید ہو جائے۔جن کا عوی تھا عمران پر بات کرنا وقت ضائع کے مترادف ہے اب بنی گالہ حاضر ہوتے ہیں تو ان کی آنکھیں اور بتیسی بھی دست سوال بنے ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا رویہ تو بہت ہی عجب تھا۔ اتنا تکبر تھا کہ خوف آتا تھا۔ وہ سہہ پہر میں شاید کبھی نہ بھول سکوں۔ مسلم لیگ ن کے شیخ آفتاب اور پی ٹی آئی کے صداقت عباسی میرے ٹاک شو میں مدعو تھے۔ وضع داری اور روایات کے تمام آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اچانک شیخ آفتاب فرمانے لگے یہ کن گلی محلے کے لڑکوں کے ساتھ مجھے بٹھا دیا ، بٹھانا ہی تھا تو میرے ساتھ عمران خان کو بلا لیا ہوتا۔ میں نے حیرت سے شیخ صاحب کی طرف دیکھا اور عرض کی کہ صداقت عباسی تحریک انصاف کے اہم عہدے دار ہیں۔کہنے لگے کون سی تحریک انصاف ، تم سے ایک سیاسی جماعت سمجھتے ہو۔صداقت عباسی نے جب دیکھا کہ بات ختم نہیں ہو رہی تو انہوں نے کہا آصف بھائی ٹھیک ہے میں اٹھ جاتا ہوں ، میری جگہ عمران خان کو بلا لیں، میں لے آتا ہوں عمران خان کو ۔ لیکن شیخ صاحب سے کہیں وہ بھی اٹھ جائیں اور عمران خان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے نواز شریف کو لے آئیں۔شیخ صاحب ایسے خفا ہوئے کہ میں کوشش کے باوجود ان کا غصہ کم نہ کر سکا۔شیخ آفتا ب دھیمے مزاج کے شریف النفس آدمی ہیں اگر ان کا رویہ یہ تھا تو آپ اندازہ لگائیے دیگر احباب کے مزاج کی نازکی کا عالم کیا ہو گا۔ خدا کی کرنی دیکھیے صداقت عباسی سابق وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی کو شکست دے کر حلف اٹھا رہے تھے اور شیخ آفتاب اٹک میں بیٹھے تھے۔ ایک بار پھر کلام رب کریم کی یاد آئی : اللہ جسے چاہے عزت دے ۔ ۔۔۔۔ وہ ہر شے پر قادر ہے۔وہ چاہے تو ایوان اقتدار سے اٹھا کر اڈیالہ بھیج دے اور چاہے تو ڈی چوک سے اٹھا کر ایوان اقتدار میں لا بٹھائے۔ کامیابی کے ساتھ اگر عاجزی نہ آئے تو اسے ناکامی سمجھیے۔ تحریک انصاف کے بارے میں ، میرا مشاہدہ یہی ہے کہ اس نے جیتنے کے بعد بہت مناسب اور باوقار رویہ اختیار کیا ہے۔ دوسری جانب سے مگر وہی رویہ ہے۔مریم اورنگزیب صاحبہ نے اسے آتشیں لہجے میں فرمایا کہ ایسے ایسے لوگ اسمبلی آ گئے ہیں جنہیں خود یقین نہیں آ رہا کہ وہ جیت گئے۔ خلق خدا نے غلامی کے طوق اتار کے پھینک دیے لیکن اہل سیاست ہیں کہ نواشتہ دیوار پرھنے سے قاصر ہیں۔وہ حیران ہیں کہ جنہیں کوئی چائے نہیں پوچھتا وہ جیت کیسے گئے۔ اہل دانش بھی یہ بات نہیں جان پا رہے کہ وقت کا موسم بدل چکا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ عمران کی خدمات نے انہیں کامیاب نہیں کیا بلکہ نواز شریف کی کرپشن کا ایک جھوٹا تاثر پھیلایا گیا اور نئی نسل اور نیم پڑھے لکھے طبقے نے اسے قبول کر لیا۔ان کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے یہ لوگ چونکہ نیم تعلیم یافتہ ہیں اس لیے ذہنی طور پر معاملات کو زیادہ گہرائی سے دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔نواز شریف کے سارے ووٹرز نے تو گویا پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے رکھی ہے اور یہ جب تک ابن خلدون کو پڑھ نہ لیں اپنا شناختی کارڈ تک نہیں بنواتے۔میرا مقام نہیں میں بحث کر سکوں۔ درخواست کر سکتا ہوں کہ ازرہ کرم ووٹ کو عزت دیجیے۔ وقت ایسے ہی بدلتا ہے۔ جو خود کو ناگزیر سمجھتے تھے اب حیران ہیں کہ ہمارے بغیر اسمبلی کی کارروائی کیسے چلے گی۔ وقت مگر یہی بتاتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی ناگزیر نہیں۔ نواز شریف نہ مولانا فضل الرحمن۔اور نہ ہی عمران خان۔آج نواز شریف کے دن پھر گئے ہیں تو عمران کا اقتدار بھی ہمیشہ نہیں رہنا۔ مرشد معراج خالد فرماتے تھے زندگی کا حاصل صرف ایک فقرہ ہے۔ لوگوں نے کہہ دیا بندہ اچھا تھا تو بیڑا پار ورنہ خسارہ ہی خسارہ۔ یہی معاملہ اقتدار کا ہے۔ پانچ سال کی مدت کو عدت کی طرح گزار لینا کامیابی نہیں۔ کامیابی یہ ہے کہ جب کبھی وقت کا موسم بدلے اور خزاں رت آ جائے تو ااپ کے بعد لوگ آپ کو یاد کر کے یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ بندہ اچھا تھا۔ عمران خان کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔انہیں بھولنا نہیں چاہیے کہ ہمیشہ کی بادشاہی صرف سوپنے رب کی ہے۔یہ اقتدار چار دنوں کا سراب ہے۔ایک دن اسے ختم ہونا ہی ہے۔نواز شریف کل کیا تھے آج کیا ہو گئے۔فیصلہ اس پر نہیں ہونا کہ آپ کے درباری آپ کے کتنے قصائد پڑھتے ہیں ۔ فیصلہ آپ کے نامہ اعمال کی بنیاد پر ہو گا ۔یاد رکھیے ، یہ دن ہیں جنہیں اللہ لوگوں کے درمیان پھیرتا رہتا ہے۔