کبھی کبھی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ یقین آ جاتا ہے اس ملک پر خدا کا سایہ ہے۔ سایہ خدائے ذوالجلال۔ حق کی رضا ہے ساتھ تمہارے‘ مری وفا بھی ساتھ تمہارے۔ محسوس یوں ہوتا ہے‘ یہ صرف شاعرانہ خواب نہیں‘ بلکہ ایک الوہی حقیقت ہے۔ شاید اسی وجہ سے کہا گیا تھا کہ یہ مملکت خدا داد ہے۔ اس طویل تمہید کا مطلب مجھے اس وقت سمجھ آتا ہے جب ہم بڑی مشکل میں گھرے ہوتے ہیں اور کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ ہمارے سارے دلدر دور ہو جاتے ہیں۔ ایسا بار بار ہوتا آ رہا ہے اور آج کل بھی ہو رہا تھا۔ ہم تو ہاتھ پائوں چھوڑے بیٹھے تھے کہ اللہ نے آسمانوں سے مدد بھیج دی۔ پہلے مگر ایک پرانی بات سن لیجئے‘ وگرنہ اس گفتگو کو سیاسی سمجھ لیا جائے گا جو میں اسی لئے نہیں چاہتا کہ یہ میرا منشا نہیں ہے۔ بھٹو صاحب رخصت ہوئے تو ملک میں مارشل لا لگ گیا۔ عالمی سطح پر ہمارے لئے کئی مسائل پیدا ہو رہے تھے کہ اچانک ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں روس نے فوجیں اتار دیں۔ ایک طرف یہ تشویش کی بات تھی دوسری طرف زیرک لوگ کچھ اور ہی سوچ رہے تھے۔ غالباً آغا شاہی نے یہ خبر سنتے ہی بے ساختہ کہا تھا کہ لوجی ہمارا مسئلہ حل ہو گیا۔ اب آپ سو کہیں کہ افغان جنگ سے ہم ایسی دلدل میں پھنس گئے جس سے اب تک نکل نہیں پا رہے۔ اور فائدہ ہوا تو حکمران ٹولے کو جنہیں عالمی طاقتوں کو جواز دینا ہی پڑا۔ اس پر پورا ایک مضمون باندھا جا سکتا ہے۔ وہ سب غلط بھی نہ ہو گا مگر اتنا فائدہ تو ہوا کہ امریکہ نے جب دست تعاون بڑھایا تو ہم نے کہا جائو بھئی‘ اپنے پاس رکھو یہ مونگ مچھلی کے پیسے۔ امریکی صدر جو مونگ پھلی کا کاروبار کرتے تھے یہ طنز بھی سہہ گئے ہمیں امداد بھی ملی۔ حسب خواہش اور اس کے ساتھ ہمیں دنیا نے آنکھوں پر بٹھایا۔ ہم بھی چپکے چپکے ایٹمی طاقت بن گئے ۔ہو سکتا ہے کسی کی نظر میں بھی کوئی اچھی بات نہ ہو۔ مگر یہ ایسا کام ہے جس کی خواہش کئی مسلمان ممالک رکھتے ہیں۔ مگر کچھ کر نہیں پاتے۔ بالکل بے بس ہیں۔ عراق کا ایٹمی پروگرام تباہ کر دیا گیا۔ ایران کا تو گویا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ قذافی اس شوق میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ میں اب بھی اصرار نہیں کرتا کہ یہ ایٹم بم بنانا ضروری تھا یا نہیں‘ اتنا ضرور عرض کرتا ہوں کہ اس نے کم از کم ہمیں وہ اعزاز دیا جس کی خواہش خطے کے بہت سے ممالک کر رہے تھے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں دے سکتا ہوں جب خدا کی طرف سے کچھ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنے لیے راستہ نکال لیتے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد بھی ہم پر جو نوازشیں ہوئی تھیں وہ ایک عالمی صورت حال کا نتیجہ تھیں جس میں کوریا کی جنگ کئی لحاظ سے اہم تھی۔ بہت سے امور اختلافی ہیں۔ اس لیے میں زیادہ مثالیں نہیں دینا چاہتا۔ بتانا یہ چاہتا ہوں مجھے اس کا خیال کیسے آیا۔ وہ ایسے کہ ٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ ہم نے ملا برادر کو چھوڑ دیا ہے۔ ملا برادر جب گرفتار ہوئے تھے تو اس وقت وہ ملا عمر کے بعد طالبان کے سب سے اہم لیڈر تھے۔ آج جب پاکستان نے انہیں چھوڑا ہے تو اعلان کیا ہے کہ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کی طالبان سے براہ راست مذاکرات میں مدد کی جا سکے۔ ابھی چند دن پہلے کی بات تھی کہ امریکہ سے دھمکیاں آ رہی تھیں۔ لگتا تھا امریکہ بھارت سے مل کر ہمیں تہس نہس کر دے گا۔ اس قسم کی گفتگو ہو رہی تھی کہ امریکہ کیا کیا کر سکتا ہے۔ صاف کہہ رہا تھا کہ سی پیک ہمیں منظور نہیں۔ اورہمارا سی پیک کے بغیر گزارا نہ تھا۔ دوسری طرف امریکی لابی تلی بیٹھی تھی کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس جائیں۔ یوں لگتا تھا کہ آئی ایم ایف یا سی پیک کسی ایک کو قبول کرنا پڑے گا۔ لگتا تھا ہمارا کباڑا کر دیا جائے گا۔ سعودی عرب سے بھی ہمارے تعلقات خوشگوار نہ تھے۔ ہم اس فکر میں تھے کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں جو چالیس لاکھ لوگ ملازمت کر رہے ہیں‘ ان کی ملازمتیں خطرے میں ہیں اور اس کے نتیجے میں ہماری معیشت پر بہت برا اثر پڑے گا۔ وہ ملک جو ہمیشہ برے وقت میں ہمارے کام کرتے رہے ہیں‘ ذرا ناراض تھے۔ ہمیں راستہ نہیں مل رہا تھا۔ ہم ایران اور سعودی عرب کے درمیان ڈول رہے تھے۔ کوئی ایسے ویسے ہم نے ایران کو ناراض کر کے عربوں کو منانے کی کوشش بھی کی۔ تفصیل کیا بتائوں۔ بات بن نہیں رہی تھی۔ حتیٰ کہ ہمارے نئے پاکستان کی نئی حکومت نے بھی جا کر بات کی۔ مگر بات اس طرح بن نہیں پڑ رہی تھی جس طرح ہماری ضرورت تھی‘ اتنے میں کرنا خدا کا یہ ہوا کہ سعودی عرب کا ایک بہت قابل احترام صحافی ترکی میں سعوید قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا۔ پوری دنیا سعودی عرب کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہاں ایک عالمی کانفرنس ہو رہی تھی جو سرمایہ کاری کے حوالے سے تھی۔ سب ملکوں نے وہاں جانے سے انکار کر دیا۔ امریکہ نے بھی بظاہر آنکھیں پھیر لیں مگر ٹرمپ اندر سے اپنے اس حلیف کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ صاف کہہ رہا تھا کہ ہمارا سعودیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا اتنا لمبا چوڑا سودا ہے۔ ہم اسے ختم نہیں کر سکتے۔ بس ہمیں دعوت مل گئی ہم نے کون سی سعودی عرب میں سرمایہ کاری کرنا تھی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ اس ایک واقعے نے صورت حال بدل دی۔ صورت حال اندر اندر سے بدل رہی تھی۔ خواجہ آصف نے بہت خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔ وہ وزیر دفاع بھی رہ چکے ہیں اس وقت انہوں نے ہی پارلیمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ سعودی ہم سے سب کچھ مانگ رہے ہیں۔ یمن کے خلاف فوج‘ فضائیہ‘ بحریہ۔ اس سے آگے وہ بولے نہیں۔ سعودیوں کو اس کا حق ہے۔ ہم تیاری باندھے بیٹھے تھے۔ یہاں تک بتایا جا رہا تھا کہ ہر طرح کی تیاری ہو چکی ہے کہ نقشہ بدل گیا۔ بظاہر تو پارلیمنٹ میں قرار داد تھی کہ ہم اس میں ’’نیو ٹرل‘‘ رہیں گے‘ مگر اس کے پیچھے اصل کہانی کیا ہو گی۔ ہمارے اہل نظر ضرور اس سے واقف ہوں گے۔ سعودی اس پر ناراض تھے۔ مزے کی بات ہے یہ لفظ نیوٹرل قرار داد میں داخل کرانے کا جو کریڈٹ لیتے ہیں وہ اب نئے سعودی معاہدے میں پیش پیش ہیں۔ اصل میں افراد اہم نہیں ہوتے‘ ریاستی مفاد اہم ہوتا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ جنرل کیانی کے زمانے میں امریکہ سے ہمارے تعلقات میں تلخی تھی۔ نیٹو سپلائی بند‘ کیری لوگر بل پر اعتراض‘ شمالی وزیرستان جانے سے گریز۔ بعد کے دنوں میں جب ہم ضرب عضب کر رہے تھے تو امریکہ سے اچھے اچھے بیان آ رہے تھے۔ میں نے اس وقت لکھا تھا اور کہا تھا کہ یہ نہ سمجھئے یہ افراد کی پالیسی ہیں یہ اداروں کی پالیسی ہے۔ بلکہ ریاست کی پالیسی ہے۔ جب صورت حال بدلے گی تو دیکھنا ہماری پالیسی کیسے بدلتی ہے۔ چاہے قیادت یہی ہو۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ امریکہ نے آنکھیں دکھائیں ہم نے اسی شام اعلان کیا کہ آپریشن ختم ہو چکا ہے۔ اب تو ہم اسے وائنڈاپ کر رہے ہیں۔یہ بیان بھی ہم نے اعلیٰ ترین سطح سے جاری نہیں کیا۔ متعلقہ کمانڈنٹ آفیسر سے کہلوانا کافی سمجھا۔ اللہ نے کرم کیا۔ حالات بدل رہے ہیں۔ ہمیں ’’دوستوں‘‘ سے بھی مدد ملے گی اور چین سے بھی دوستی قائم رہے گی‘ پاک سعودی معاہدے کے اگلے روز ہی امریکہ نے دوستی جتائی ہے کہ آپ کو مزید کچھ کرنا پڑے گا۔ وگرنہ یاد رکھو انجام برا ہو گا۔ اب ہم نے ملا برادر کو بھی چھوڑ دیا اور بتا دیا ہے کہ کس لیے چھوڑا ہے۔ صدر ٹرمپ کا دور شروع ہوتے یہ بعض لوگ ہمیں ڈرا رہے تھے۔ مشورے دے رہے تھے اپنی فکر کیجیے۔ لوگ تھر تھر کانپنے لگے تھے کوئی آپ کی مدد نہیں کرے گا۔ ہمارے ’’ماہرین‘‘ نے چین اور سی پیک کے خلاف بیانئے نشر کرنا شروع کر دیے تھے۔ میںیہ نہیں کہہ رہا۔ اس میں موجودہ حکومت نے کچھ نہیں کیا۔یہ سب حالات کا نتیجہ ہے۔ نہیں‘ نہیں کہنا مجھے یہ ہے کہ ریاست پاکستان ہمیشہ پاکستان کے مفاد میں فیصلہ کرتی ہے۔ فرق نہیں پڑتا‘ حکمران کون ہے اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ سپہ سالار کون ہے۔ اللہ سب کو توفیق دیتا ہے کہ جو صورتحال خدا کی طرف سے پیدا کی گئی ہو۔ اس سے فائدہ اٹھائو۔ ہم نے غلطیاں بھی بہت کی ہیں مگر خدا نے چشم پوشیاں بھی بہت فرمائی ہیں۔ گھبرائیے نہیں پاکستان کے حالات اس مشکل صورت حال میں بھی سدھار کی طرف بڑھیں گے۔ ضرور بڑھیں گے۔ انشاء اللہ یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔