خان عبدالغفار خان (باچاخان )نے اپنی سوانح عمری میں ایک جگہ اپنے بیٹے خان عبدالولی خان کی زبانی ایک واقعہ لکھاہے کہ’’ لندن میں قیام کے دوران ایک صبح جب میں اپنے قیام گاہ سے باہر نکلا تو سامنے درخت سے ایک سیب گراہواتھااور کچھ فاصلے پرایک چھوٹا بچہ بھی کھڑاتھا۔ میں نے بچے کوسیب اٹھانے کا اشارہ کیا مگربچے نے نہایت بے پروائی سے جواب دیا کہ’’ یہ سیب میرا نہیں ہے‘‘۔غور کیاجائے تولندن کے معاشرے میں پَلے پُوسے اس معصوم بچے کے ان چار پانچ لفظوں میں ایک جہان معنی پوشیدہ ہے ۔ کیا ہم نے کبھی سوچاہے کہ اگر ہم ان چند الفاظ پر عمل کریں تو صرف ہماری نہیں بلکہ پوری قوم اور ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ؟لیکن بدقسمتی ہمارے ہاں یہ روش درآئی ہے کہ ہماری ڈکشنریوں میں ‘‘یہ میرانہیں ‘‘ کے الفاظ سرے سے موجود نہیں ہے بلکہ فقط ’’ہرچیزمیری ہے ‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ہم اپنے جائز حقوق کیلئے تو دوسروں کو بھی جاں سے مارنے اور خود کو قربان توکرسکتے ہیں لیکن دوسروں کے حقوق پرہاتھ صاف کرنا بھی ہماری ایک قبیح عادت بن چکی ہے ۔ پچھلے دنوں بدعنوانی کی مانیٹرنگ کرنے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بدعنوانی کے حوالے سے سال دوہزار انیس کی رپورٹ جاری کردی جس میں پاکستان کیلئے ایک مایوس کن خبر تھی ۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پچھلی حکومت کے مقابلے میں پاکستان میں حالیہ حکومت کے دور میں پچھلے ایک سال میں بدعنوانی مزید بڑھ گئی ہے ۔یعنی پاکستان دوسال پہلے کرپشن کی لعنت سے ایک سو بیس گز کے فاصلے پر کھڑا تھا لیکن اب ایک سوسترہ گز کے فاصلے پر آکر یہ ملک مزید بدعنوانی کاشکار ہوچکاہے۔ کرپشن یا بدعنوانی کو پوری دنیا میںایک ناسور سمجھاجاتاہے اور اس ناسور کو شکست دیئے بغیر کسی ملک کی معاشی حالت سدھر نہیں سکتی۔ کرپشن ہی کی وجہ سے نہ صرف غربت اپنی انتہائی حدود کو چھوجاتی ہے بلکہ اسی لعنت ہی کی وجہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتاہے ۔اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اس ملک میں لگ بھک سات کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جو ملک کی ساکھ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور ہر ادارے میں قابل نفرت حد تک بدعنوانی کی وجہ سے امراء طبقہ مزید مستحکم ہورہاہے اور غریب غریب تر ہوتاجارہاہے ۔ رسالت مآب ﷺ نے ایک مرتبہ غربت کے بارے میں فرمایا یعنی’’ قریب ہے کہ غربت بندے کو کفر کی طرف لے جائے ‘‘۔خاکم بدہن اگر اس ملک میں کوئی بندہ غربت اور مسلسل محرومی کے ہاتھوں کسی بڑے جرم ، خودکشی یا کفرکی طرف مائل ہوجاتاہے تو اس ناقابل معافی گناہ میں وہ سب لوگ برابر کے شریک ہونگے جن کی بدعنوانی کی وجہ سے یہ بے چارہ مفلوک الحال ہواہے۔کرپشن کوشکست دینا ناممکنات میں سے نہیں لیکن اس کے خاتمے کیلئے وسیع بنیادوں پر قابل عمل اور غیرجانبدار اسٹریٹیجی اپنانا لازمی ہے ۔اس ناسور کے خاتمے کا سب سے سادہ اور اور آسان ساحل یہ ہے کہ ہم یہ عہد کریں کہ ’’ہرچیز ہماری نہیں ہے‘‘۔صدر اور وزیراعظم کو اپنی جائز تنخواہ اور مراعات کے علاوہ اگر قومی خزانے سے مزید پیسہ لینے کا موقع ملتاہے توانہیں چاہیے کہ وہ اپنے خداکو حاضر ناظر جاں کر فیصلہ کریں کہ ــ’’ اپنی تنخواہ اور جائز مراعات کے علاوہ بیت المال سے پیسہ لینامیراحق ہے یا اس میں قوم کے بچے بچے کا حق ہے ‘‘۔ ایک وفاقی اور صوبائی وزیر کو بھی یہی فارمولا اپنے اوپر لاگو کرنا چاہیے کہ تنخواہ اور وزارت کے مہ وسال کے دوران قانون کی رو سے ملنے والی تمام تر مراعات کے بغیر ایک روپیہ بھی ان کاحق نہیں بنتا۔فوجی اوردوسرے دفاعی ادارے کاآفیسر ہویاکسی صوبے کاگورنر اوروزیراعلیٰ ہو۔ ایم این اے ہو یا ایم پی ا ے ،سیکرٹری اور ڈائریکٹر یاپروفیسر ،ٹیچر ، کلرک اور چپڑاسی یا خاکروب ہو،سبھی اگر ’’ہرچیز میری نہیں ہے ‘‘ والے فلسفے کو سامنے رکھ کر اس پر عمل کریں تو ایک دن بھی ہم بدعنوان اور بدنام لوگوں کی بجائے شفاف اور نیک ناموں کے صف میں کھڑے ہونگے ۔ میرا یقین ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل بھی ایک دن اپنے سروے کے بعد اس ملک کے بارے میں خبرجاری کرے گی کہ مذکورہ ملک میں شفافیت تسلی بخش اور قابل رشک ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ہماراحکمران طبقہ ادارہ جاتی اصلاحات کی بجائے الٹااس ادارے کی غیر جانبداری پر سوالات کھڑے کررہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اس عالمی ادارے کی رپورٹ کو مثبت لیتے اور اس سقم کا جائزہ لیتے جہاں پر ملکی ادارے مزید بدعنوانی کا شکار ہوچکے ہیں۔دوسری طرف یہ رپورٹ آنے پر اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کو طعنے دے رہی ہیں حالانکہ متعدد دفعہ اقتدار میں رہ کر انہی جماعتوں کی کریڈیبلیٹی بھی پوری قوم کے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانندہے۔ اس ملک کے وسائل کو جس ناجائز اور ظالمانہ طریقوں نے پچھلی جماعتوں کے حکمران نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ، اس پر الامین والحفیظ کے علاوہ اور کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی یہ رپورٹ پوری قوم اور باالخصوص حکمران طبقے کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے اور اس گھنٹی کے بجنے پر سیخ پاہونے کی بجائے ہمیں اصلاحی اقدامات اٹھانا چاہیے۔