میں نے اپنی زندگی میںایک درجن سے زیادہ عشق کئے لیکن صر ف ایک کے ساتھ شادی کے بارے میں سوچا، یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ وہ نہ مانی،ورنہ ستیا ناس ہوجاتا جناب، شادی ہو جاتی تو کسی نئے عشق کے تو امکانات ہی ختم ہوجاتے، آپ مجھے فلرٹ نہ سمجھ بیٹھیے گا، کیونکہ میرے دام میں آنے والی نازنینیں تو مجھ سے بھی چار ہاتھ آگے تھیں،میں ایک کے بعد دوسری کی تھیوری پر چلتا رہا وہ تو ایک ہی وقت میں کئی کئی محبتیں بھگتاتی رہیں، آپ بھی محبتیں نبھائیں مگر حقائق کی دنیا میں رہ کر، اور دونوں آنکھیں پوری طرح کھول کر، دل کھولنے کی ضرورت نہیں وہ تو اس وقت بھی جاگ رہا ہوتا ہے ،جب ہم سو رہے ہوتے ہیں۔ میں ہمیشہ سے محبت کی شادی کیخلاف رہا ہوں سوائے اپنے بچپن کے، کیونکہ ان دنوں میں جس ساحرہ کو بھی پردہ سیمیں پر دیکھ لیتا اسی کا ہوجایا کرتا تھا، ۱نیس سو پینسٹھ تک تو سرحدوں کی بھی کوئی قید نہ تھی کیونکہ انڈیا اور پاکستان کی فلمیں دونوں ملکوں میں ایک ہی دن ریلیز ہوا کرتی تھیں۔ محبتیں انسان کو حقائق سے بہت دور لے جاتی ہیں،لوگ مانگ تانگ کر محبتیں نباہ لیتے ہیں مگر شادیاں مانگ تانگ کر نہیں چلتیں، لو میرجز کے بعد توقعات بہت بڑھ جاتی ہیں اور دونوں فریق ایک دوسرے کی کبھی تسلی نہیں کر سکتے،تشفی نہیں کر سکتے،اسی لئے کسی دل جلے نے کہا تھا۔ لین دین پہ خاک محبت پاک۔۔۔ جب میں نے پہلی اور آخری شادی کی،اس وقت ہاں اور ناں کا فیصلہ میں نے خود ہی کرنا تھا، میں نے اپنے گھر آنے والی اپنی ساس اور چھوٹی سالی کو دیکھ کر ہاں کردی اور بیگم کا چہرہ پہلی بارشادی کے بعد دیکھا تھا، یہ تو میری قسمت اچھی تھی کہ ایسا ہوگیا کہیں آپ بھی میرے جیسا فیصلہ کرکے کسی الجھن میں نہ پھنس جائیے گا،کیونکہ ہر انسان کی کیمسٹری جدا جدا ہوتی ہے۔ محبتیں اور شادیاں صرف لڑکوں لڑکیوں۔ مردوں عورتوں کے درمیان نہیں ہوتیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر ہر تخلیق میں جوڑے پیدا کئے ہیں، نر اور مادہ، ہم جن چیزوں کو ساکت اور جامد سمجھتے ہیں وہ بھی جاندار ہوتی ہیں، پہاڑ ،دریا اور سمندروں میں بھی محبتوں اور نفرتوں کے جذبے موجود ہوتے ہیں، زمین بھی نہ خالی مادہ ہے نہ خالی نر، اسی طرح ملک بھی ، سلطنتیں بھی،خطے بھی اپنے جوڑے رکھتے ہیں، ایک مثال اور دیتا چلوں، ہار جیت میں نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں حال ہی میں ایک محبت کی شادی ایسی ہوئی ہے جس میں کروڑوں پاکستانی عوام باراتی بنے، یہ تو مجھے نہیں پتہ کہ اس شادی میں نر کون تھا اور مادہ کون؟ مگر ایک باراتی میں بھی تھا اور یہ شادی ہوئی عمران خان اور پاکستان کے عوام کے درمیان، محبت کی شادی ،اور اس شادی میں بھی دونوں جانب سے ایک دوسرے سے توقعات کی بھر مار تھی، اسی طرح کی ایک شادی اڑتالیس سال پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور عوام کے درمیان ہوئی تھی، مگر اس دور کے سبھی لوگ اکٹھے ہوگئے تھے اور انہوں نے یہ شادی نہ صرف ختم کرائی بلکہ دولہا کو قتل بھی کر دیا تھا۔ آج عمران خان سے بھی عوام کے ساتھ شادی کا تاوان مانگا جا رہا ہے، عوام کے اس دولہا کی خرابی اور کمزوری یہ ہے کہ وہ خود کو عقل کل سمجھتا ہے، اسے مشاورت سے چڑھ ہے، یہ میں نہیں کہہ رہا عمران خان کے قریبی ساتھی بیان کرتے ہیں ،اس وقت جو کچھ بظاہر ہے اس سے کئی چیزیںآشکار ہو رہی ہیں،مثلاجناب وزیر اعظم! لوگ آپ سے دلیپ کمار اور بلراج ساہنی جیسی پرفارمنس چاہتے ہیں، سلطان راہی والی نہیں ۔۔۔۔۔ حرف آخر ۔۔۔۔۔۔۔ مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کی حکومت گرانے اور اپنی بدترین انتخابی شکست کا بدلہ چکانے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کیلئے بہت تگ و دو کی مگر بری طرح ناکام رہے،۔بقول مولانا فضل الرحمان حکومت صرف چار کچی اینٹوں پر کھڑی ہے جسے گرانے کیلئے کسی دھکے کی بھی ضرورت نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری نے عمران خان کی حکومت کو پانچ سال دینے کا جو عہد کیاہے اس کی قیمت کسے ادا کرنا پڑے گی؟ اس کا جواب بھی میرے پاس نہیں۔۔۔ ٭٭٭٭٭ یاد نہیں کہ خدا کی بستی کے عنوان سے شوکت صدیقی صاحب کا ناول پہلے آیاتھا یا ٹی وی سیریل آن ائیر ہوئی تھی، ،،بس اتنا یاد ہے کہ اس ڈرامے کی ساری قسطیں بھی دیکھیں اورناول بھی ایک سے زائد مرتبہ پڑھا ، اس ناول کے کئی کردار ہمارے ارد گردکے زندہ کردار تھے، لگتا تھا شوکت صدیقی صاحب نے ہماری کہانی ہی لکھ دی ہے ،وہ شدید گرمی کا ایک دن تھا، میں اور میرا دوست نعیم پی ای سی ایچ ایس کراچی کی سڑکوںپر مٹر گشت کر رہے تھے، اسی ایریا میں روزنامہ مشرق کے دفاتر کے ساتھ اخبار خواتین کا آفس بھی تھا، حال ہی میں انتقال کر جانے والے ولایت علی اصلاحی اس ہفت روزہ کے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے ، میں انہیں کوئی افسانہ یاکہانی دیتا تو وہ مجھے ایڈوانس پچاس روپے دلوا دیا کرتے تھے، اس روز بھی میں اصلاحی صاحب سے ملنے اس ایریا میں گیا تھا، اچانک ایک سائن بورڈ دیکھ کر میں رک گیا،یہ ہفت روزہ الفتح کا دفتر تھا، میرے علم میں تھا کہ الفتح کے ایڈیٹر محمود شام ہیں اور ان کے ساتھ مجلس ادارت میں ارشاد راؤ اوروہاب صدیقی ( فوزیہ وہاب والے نہیں) شامل ہیں۔۔۔۔ میں اپنے دوست کو لے کراس بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھنے لگا، دوسری منزل پر الفتح کے دفتر کا بورڈآویزاں تھا، اندر داخل ہوئے تو عجیب منظر دیکھا، اس ایک کمرے کے دفتر میںچاروں اطراف شوکت صاحب کے ناول خدا کی بستی کی جلدیں بکھری پڑی تھیں ،اور ایک آدمی شدید گرمی میں پنکھے کے بغیر چادر تانے چار پائی پر سویاہوا تھا، میں نے نعیم سے کہا کہ واپس چلتے ہیں، اس نے ہاں کہتے ہوئے وہاںسے خدا کی بستی کی چار جلدیں اٹھائیں اور میرے ساتھ واپس چل پڑا، میں نے اس سے کہا کہ ایک جلد چرا لیتے ، یہ چار کتابیں کیا کرو گے، ؟ اس نے جواب دینے کی بجائے اشارہ کیا کہ صبر کرو تھوڑی دیر بعد ہم فٹ پاتھ پر سجی ایک بک شاپ پر کھڑے تھے، نعیم نے خدا کی بستی کی چاروں جلدیں دوکاندار کو بیچ دیں، اور ان پیسوں سے شاندار لنچ کرایا، اس واقعہ کے بعد بھی کئی بار اس نے یہ واردات دہرائی ، نعیم نے بتایا کہ وہ جب بھی وہاں جاتا ہے، وہ نامعلوم آدمی چادر تانے سویا ہوا ہی ملتا ہے، میں نے اس سے کہا کہ اب میںبھی تمہارے ساتھ چلوں گا وہاں ، اور اس آدمی کو جگا کر دیکھیں گے کہ وہ ہے کون ؟ وہاں پہنچے تو اس شخص کو خلاف معمول جاگتے ہوئے پایا ۔پاجامے کے اوپر بنیان ، آنکھوں پر عینک اور منہ میں پان، کمزور سے جسم کے ساتھ وہ لیفٹ کا کوئی دانشور لگتا تھا یہ تھی ارشاد راؤ سے پہلی ملاقات بے نظیربھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ارشاد راؤ کو وزیر اعظم ہاؤس تک براہ راست رسائی حاصل رہی، پھر انہیں یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن میں اچھی ملازمت دی گئی۔ رحمت شاہ آفریدی نے بھی ان پر نوازشیں کیں، سعدیہ دہلوی جب بھی دلی سے لاہور آتی، ارشاد راؤ بھی ان دنوں لاہور میں ہی دکھائی دیتے۔ ایک بار نوٹوں سے بھرا ہوا ایک بریف کیس لے کر لاہور کے صحافیوں سے ملنے بھی آئے تھے، میرے ساتھ بہت بے تکلفی کے باوجود ارشاد راؤ نے ،، سرکاری معاملات میں کبھی مجھے اعتماد میں نہ لیا، یہ ان کا بڑا پن تھا۔ 1973ء میں جب بھٹوصاحب نے کراچی سے روزنامہ مساوات کا اجراء کیا تو مجھے فلم ایڈیٹر کی نوکری مل گئی ، خدا کی بستی اور جانگلوس جیسی تحریروں کے خالق شوکت صدیقی ہمارے چیف ایڈیٹر بنے، اتنے بڑے آدمی کے زیر سایہ صحافت کرنا میری زندگی کا بہت بڑا اعزاز بنا، میں ان کے لئے ایک خاص شاپ سے روزانہ پان لے کرآفس جایا کرتا تھا، میں نے لاہور ٹرانسفر کی درخواست کی تو شوکت صاحب بہت اداس ہوئے، مجھے اس شرط پر لاہور تبدیل کیا گیا کہ میں کراچی ایڈیشن کے لئے باقاعدہ لکھا کروں گا، میں نے کراچی ایڈیشن کے لئے لکھنے کا وعدہ پورا نہ کیا تو شوکت صاحب نے ایک دن عباس اطہر صاحب کو فون پر حکم دیا کہ خاور کو واپس کراچی ٹرانسفر کر دوعباس اطہر نے وجہ جاننا چاہی تو شوکت صاحب نے کہا کہ اس نے میری ہدایت پر عمل نہیں کیا، تم اسے ٹرین پر کراچی بھجواؤ۔ ٹرین جب ملتان پہنچے گی تو میں اسے ڈس مس کردوں گا یہ تھا در حقیقت شوکت صدیقی صاحب کا پیار، وہ ایک بڑے آدمی تھے۔ اب تھوڑی سی بات ہوجائے محمود شام کے حوالے سے تھوڑی سی اس لئے کہ ان پر کسی وقت بہت تفصیل سے لکھوں گا.آزادی صحافت کی تاریخی ملک گیر تحریک میں محمود شام ، ارشاد راؤ اور وہاب صدیقی میرے ساتھ حیدر آباد جیل کے ڈیتھ سیل میں بند رہے، پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ اللہ نے محمود شام کو ہمارا باس بنایا، باتیں کچھ کچھ تلخ بھی ہیں، لیکن ہونگی ضرور۔۔۔۔ وعدہ رہا۔