کب کہا ہے کہ مجھے فخر ہے اس جینے پر روز اک داغ چمکتا ہے مرے سینے پر آسماں کا ہی رہا میں نہ زمیں کا ہی رہا ذوق پرواز نے اس طرح میرے چھینے پر ذوق پرواز اچھی بات ہے مگر پرواز میں کوتاہی تو درست نہیں۔ ایک پرندہ تو مشہور شعر ’اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی۔ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘ پڑھتے ہوئے پرواز کر گیا۔ یہ الگ بات کہ وہ اڑا نہیں بلکہ اسے اڑایا گیا۔ بات مجھے آج موسم کی کرنا تھی کہ جو غیر متوقع طور پر ایک بار پھر دھندلا گیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ بعض اوقات موسم کو حالات سے اس قدر مناسبت ہوتی ہے کہ انسان چکرا جاتا ہے۔ یک دم عمران خان کا بیان پڑھا کہ وہ پیرا شوٹرز کو سینٹ کا ٹکٹ نہیں دیں گے۔ اس سے یہی تاثر پیدا ہوا کہ وہ ارب پتی یا درآمدہ جنہیں ٹکٹیں دی جا رہی تھیں اور پارٹی سے شدید ردعمل اور تنقید کے باعث انہیں اب سینٹ سے دور رکھا جائے گا ایسے ہی ایک شعر ذہن میں آگیا: اپنے مطلب کے سوا لوگ کہاں ملتے ہیں اب کے بھی سانپ خزانے کے لیے آئے تھے آگے چلنے سے پہلے میں ایک ٹیلیفون کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ پروفیسر مرزا غلام علی کا فون آیا فرمانے لگے شاہ صاحب‘ خان صاحب نے تو ان نوجوانوں کو بھی مایوس کیا کہ اب ادب اور کلچر خوب پھلے پھولے گا اور محفلیں ہوا کریں گی۔ فلیش بیک پر مجھے مشرف یاد آئے کہ ان سے بھی ہمارے روشن خیال ساتھی بعدازاں بہت بے زار ہوئے کہ وہ کدھر چل نکلے ہیں کہ مکمل آمریت نافذ کردی تھی۔ حالانکہ مشرف نے تو اسلام آباد میں پرفارمنگ آرٹ کمپلیکس بنوایا۔ وہ خود بھی حامد علی خان کے ساتھ پرفارم کرتے رہے اور اپنے فن کا مظاہرہ جابجا کیا۔ تاہم مشرف صاحب نے طبلہ بھی خوب بجایا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد مخلوط میراتھن ریس کروانے کے بعد بھی روشن خیال اس سے خوش نہ ہوں تو ان کی مرضی: دل لے کے کہہ رہے ہیں کسی کام کا نہیں الٹا شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا خان صاحب کے تاریخی دھرنے پر منڈلی جمانے والے اور دھوم دھڑکا کرنے والے بھی اب خاموش ہیں۔ اور تو اور میرا نچنے نوں جی کردا والا ابرارالحق بھی باریش ہو کر کچھ اور ہی بن چکے ہیں۔ بھئی تبدیلی ہے تبدیلی۔ ایسے ہی شہزاد احمد یاد آ گئے: چوٹیاں چھو کر گزرتے ہیں برستے کیوں نہیں بادلوں کی ایک صورت آدمی جیسی بھی ہے اور اس غزل کا مطلع تو زیادہ بامعنی ہے کہ دونوں طاقتیں ایک دوسرے سے جان چھڑانے کے درپے ہیں۔ بعض اوقات آپ کسی کو پکڑنے پر قادر ہوتے ہیں مگر چھوڑنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ شیر پر کسی کا گر جانا اور سواری کرنا تو آپ نے پڑھا ہی ہوگا مگر کمبل والی مثال تو بہت ہی عام فہم ہے۔ بعض اوقات کمبل بندے کو نہیں چھوڑتا۔ ایک محاورہ بھی نہ بولتے ہیں یار کمبل ہورہے ہو تم۔ ۔ اب مطلع بھی دیکھ لیں: اب نبھانا ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے آپ جیسے بھی ہیں نیت آپ کی جیسی بھی ہے آپ دیکھتے جائیے‘ ایک تماشہ لگا ہوا ہے۔ جو چاہتے سو آپ کریں ہیں‘ ہم کو عبث بدنام کیا۔ یہ وڈیوز ہیں‘ یہ رشوت لے اور دے رہے ہیں اور یہ وڈیو ہم نے بنائی ہے۔ یہ براڈ شیٹ ہے‘ انہوں نے ہم پرمقدم کیا ہے اور ہم نے جرمانہ دے دیا ہے۔ یہ آٹا چینی ہے اور یہ چوری کرنے والے ہیں اور یہ ہمارے دوست ہے اور یہ پٹرول ہے اور یہ گیس ہے اور یہ ہم نے مہنگی کردی ہے۔ یہ سوشل ٹرینڈ کا آئینہ ہے اور یہ ہم نے بنا دیا ہے۔ سراج الحق بھی شاید انہی حکومتی کارناموں سے متاثر ہوئے ہیں اور اپوزیشن سے بھی۔ ان میں بھی اچھی حس مزاح ہے کہ انہوں نے رعایت لفظی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا ہے۔ پی ڈی ایم کرے نہ کرے ویسے ہی مارچ آنے والا ہے۔ ویسے اگراقعتاً انہوں نے یہ مارچ میں کیا تو یہ ڈبل مارچ ہو جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ یہ عسکری زبان میں سزا کے لیے مستعمل ہے۔ سراج لاحق نے المیہ بھی بیان کردیا کہ انگریزوں کے گھوڑوں کے مالشی اور بوٹ پالشی عوام پر مسلط ہیں۔ شگفتہ گوئی سخت کلامی کی طرف چلی گئی۔ میرا مقصد تو طنز و مزاح کے ضمن میں لطف اٹھانا تھا۔ المیہ تو یہ ہے کہ اس سے بلیک کومیڈی جنم لیتی ہے جس کنگ لیئر پڑھا ہے وہ میری بات سمجھ جائے گا۔ چلیے اب باتیں ہی ادب اور کلچر کی مکس ہو گئی ہیں تو میں آپ کی توجہ ایک پیاری سی خبر کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ لاہور کی عالم پذیرائی پر کہ لاہور کو شہر ادب قرار دیا گیا‘ تقاریب ہورہی ہیں۔ ۔ یونیسکو نے لاہور کو ادبی شہر قرار دیا۔ اس حوالے سے جو تصویر چھپی ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔ شہر ادب کی خوشی میں اداکار شان اور گلوکار علی ظفر بھنگڑا ڈال رہے ہیں‘ وہاں وقار چوہدری بھی موجود ہیں اور وہ بھنگڑا نہیں ڈال رہے۔ اس پر بھی تالیاں بجائی جا سکتیں ہے۔ بہرحال بھنگڑا بھی ادب ہی کی صنف ہوگی۔ چلیے اب دناتیر کے ٹرینڈ پر کہ اس لڑکی کا تعلق پشاور سے ہے اور اس کی پاوری ہورہی ہے ویڈیو وائرل ہوئی مگر ہم تو سیاست کی بات کر رہے ہیں اور یہاں سیاست ہورہی ہے اور خواری ہورہی ہے اور عوام کو دشواری ہورہی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاست بھی کھیل تماشہ ہے اور اس کھیل تمااشے سے لطف بھی اٹھایا جارہا اور پیسہ بھی کمایا جارہا ہے اور عوام کو الو بنایا جارہا ہے۔ ابھی میرے سامنے ایک وڈیو تھی جس میں خان صاحب فرما رہے ہیں کہ جب وہ پاور میں آئیں گے تو کوئی پاکستانی غائب نہیں ہوگا۔ پھر وہ رہیں گے یا غائب کرنے والی ایجنسیاں۔ اور الحمدللہ دونوں موجود ہیں۔ ایک بات بڑا مزہ دیتی ہے کہ تبدیلی لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی‘ حالانکہ آپ ذرا دیکھیں اور غور کریں کہ 1996ء والا عمران خان اور پھر 2018ء والا عمران خان اور اب 2021ء والا خان۔ اب بھی آپ تبدیلی کے منکر ہیں۔ ان چاروں میں جو اصلی عمران خان ہے کہاں ہے۔ یہ سب دنیا ہے۔ ایمانداری بہت مشکل کام ہے: ٹوٹ جانے کی حد سے گزر آیا ہوں کوئی آنسو بھی اپنے کہاں تک پیئے