عمر‘ منیبہ اور ہادیہ۔ تین کم نصیب بچے‘ عمریں بالترتیب 11 سال‘ سات اور چار سال۔ ان کے ساتھ جو ہولناک قیامت بیتی اس کی مذمت کے لیے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ 19 جنوری کی صبح گھر سے چاچو کی شادی پر جانے کے لیے نکلے‘ ماں نے بہترین کپڑے بچوں کو پہنائے اور خود بھی اچھی تیاری کی۔ نئے چمکتے دمکتے کپڑے اٹیچی کیسوں میں رکھے‘ شادی پر جانے کی سو تیاریاں ہوتی ہیں‘ کئی ہفتوں سے ماں انہی تیاریوں میں لگی ہوئی تھی اور پھر خاندان میں شادی ہو تو ناک رکھنے کو بہت سے اضافی خرچے بھی کرنے پڑتے ہیں۔ سو رینٹ اے کار پر ودھیالی گائوں میں جانے کا فیصلہ بھی ایسا ہی اضافی خرچہ تھا جو خلیل نے اپنے بیوی بچوں کے لیے کیا۔ یوں پوری تیاری اور خوشی کے ساتھ وہ خاندان گاڑی میں روانہ ہوا۔ دو میاں بیوی اور چار بچوں کے ساتھ رینٹ اے کار کا ڈرائیور ذیشان ان کے ہمراہ تھا۔ اگر یہ کہانی کسی ایسے ملک کی ہوتی‘ جہاں کوئی قانون ہوتا‘ قانون کی عملداری ہوتی‘ جہاں ادارے کسی نظام‘ کسی ضابطے اور قاعدے کے مطابق کام کرنے والے ہوتے‘ جہاں انصاف کا بول بالا ہوتا‘ جہاں محافظ کی وردیوں میں دہشت گرد نہ ہوتے ‘جہاں انسان اور انسانیت ہوتی تو پھر اس کہانی کا انجام بہت سادہ مگر خوشگوار ہونا تھا۔ ہوسکتا ہے گیارہ سالہ عمر‘ سات سالہ منیبہ اور چار سال ہادیہ بورے والا میں اپنے چاچو کی شادی میں شرکت کے بعد خوشگوار یادیں سمیٹیں اب تک گھر واپس آ گئے ہوتے۔ امی‘ ابو‘ باجی اریبہ کے ساتھ مل کر سب شادی میں اتاری ہوئی تصویروں کو بار بار دیکھ کر لطف اندوز ہورہے ہوتے۔ لیکن یہ کہانی جو خوشگوار اور سادہ سے انداز میں شروع ہوتی ہے‘ اس کا اختتام خوشی اور خوشگواریت پر نہیں ہوتا بلکہ انجام سے پہلے ہی یہ کہانی لہولہان ہو جاتی ہے۔ اس کہانی کے خوبصورت چہرے کو گولیوں کی بوچھاڑ بے خدوخال کر کے رکھ دیتی ہے۔ ظلم اور بربریت کی تاریک راہوں میں اس خاندان کو محافظ کی وردیاں پہنے ہوئے قاتل گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں‘ چار بچوں کا باپ‘ نہتا‘ عام پاکستانی‘ خلیل ترلے منتیں کرتا رہ جاتا ہے کہ پیسے لے لو ہمیں قتل نہ کرو‘ ہمیں نہ حق مت مارو‘ یہ دیکھو میرے ساتھ میری بیوی ہے۔ میرے چار بچے ہیں‘ ہم کوئی دہشت گرد‘ مفرور اور قاتل نہیں ہیں۔ ہماری چیکنگ کرلو‘ ہمیں تھانے لے جائو لیکن اس طرح ہم پر گولیاں نہ برسائو۔ ایسی دلسوز آوازیں اور دہائیاں مگر وہاں سنی جاتی ہیں جہاں انسانیت کی رمق باقی ہو اور انسان نما آدم خوروں میں احساس کا کوئی شائبہ موجود ہو۔ یہ اسلامی جمہویہ پاکستان کی ریاست تھی‘ جہاں سے وردی میں موجود آدم خوروں نے نہ جانے کس کے حکم پر کس قاتل مخبر کی اطلاع پر طے کر رکھا تھا کہ ننھے منھے بچوں پر مشتمل اس خاندان کو ہر صورت موت کے گھاٹ اتار کر ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ سو وہ آدم خور ظلم ڈھا کر رہے۔ بے بس ماں اور باپ نے اپنے بیٹے اور چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کو اپنی ٹانگوں کے نیچے چھپا کر موت سے بچانے کی کوشش کی۔ بچے موت سے تو بچ گئے لیکن اب موت سے بدتر اذیت بھری زندگی کا ایک صحرا انہیں کاٹنا ہوگا۔ کسی نے صحیح کہا کہ اگر اس سانحے میں کسی کو واقعی کوئی سزا ملی تو وہ یہ تین معصوم بچے ہیں جو ساری عمر ایک سزا کی طرح گزاریں گے۔ اب ریاست ان کے لیے پھولوں کے گل دستوں کا اہتمام کرے۔ پروفیسروں پر مشتمل میڈیکل بورڈ ان بچوں کا چیک اپ کرے‘ نفسیاتی امراض کے ماہرین ان معصوم ذہنوں کو صدمے کی کیفیت سے باہر نکالنے کی سر توڑ کوشش کریں یا پھر انمول انسانی جانوں کی قیمت دو کروڑ ادا کر کے ریاست خون کے دھبے دھونے کی کوشش کرے۔ ان معصوم بچوں پر جو قیامت بیت چکی‘ اس کا مداوا کسی بھی چیز سے نہیں ہوسکتا۔ قطعاً نہیں ہوسکتا۔ ساری قوم نے اس درد اس تکلیف کو محسوس کیا ہے۔ سوائے حکومتی اہلکاروں‘ وزیروں‘ مشیروں اور ان کے گماشتوں نے جو اقتدار اختیار کے اندھے پن کا شکار ہو کر اس معصوم اور بے گناہ خاندان کو دہشت گرد قرار دیتے رہے۔ کبھی ان کا تعلق داعش سے جوڑتے رہے‘ جن سی ٹی ڈی کے آدم خوروں نے یہ قیامت ڈھائی‘ قتل کا مقدمہ ان کے نام نہیں بلکہ نامعلوم قاتلوں کے نام درج ہوا۔ نئے پاکستان میں ایسی اور بھی کئی مضحکہ خیزیاں وزیروں‘ مشیروں سے سرزد ہورہی ہیں۔ وزیراعلیٰ بزدار صاحب غم سے نڈھال ایک معصوم بچے کو بہلانے کے لیے پھولوں کا گلدستہ لے کر اس کے سرہانے کھڑے ہو کر تصویر بنواتے ہیں۔ یہ اس بے حس ریاستی نظام کی شرمناک مثال ہے‘ جہاں حکومتی کٹھ پتلیاں اور ان کے لائو لشکر‘ عقل اور احساس سے عاری ہیں۔ ان میں ذرا حمیت ہوتی تو ان مظلوم بچوں سے نظر ملانے کے قابل نہ سمجھتے خود کو‘ کجا یہ کہ سرخ پھولوں کا گلدستہ لیے غم سے نڈھال بچے کے سرہانے کھڑے ماڈلنگ کر رہے ہیں تاکہ تصویر بڑے صاحب کو بھیج سکیں اور وہ اپنے اگلے ٹویٹ میں پی ٹی آئی کے ’’سیاسی وسیم اکرم‘‘ کی یہ تصویر لگا کر فخریہ لکھیں یہ ہوتی ہے تبدیلی۔ عمر‘ منیبہ اور ہادیہ۔ جس خوشگوار کہانی کے خوبصورت کردار تھے‘ وہ ہولناک انجام سے دوچار ہو چکی۔وردی میں ملبوس آدم خوروں کو کڑی سے کڑی سزا بھی دے دیں تو بھی جو ناانصافی‘ جو ظلم ان معصوم بچوں کے ساتھ ہوا اس کا ازالہ ممکن نہیں۔