بھارت میںمسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی ایک سنگین روپ اختیار کر چکی ہے اور آئے روز مسلمانوں پر بدترین تشدد کے واقعات کی ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں۔ بھارتی مسلمانوں پرہورہے ظلم وستم پرکئی دانشور بھارت کو اب ’’ لنچنگ رپبلک آف انڈیا‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہندو غنڈوں کے ہاتھوں بھارتی مسلمانوں پرہو رہے تشدد پربھارتی وزیراعظم مودی کاچہرہ ناگواریت سے کیوں بسورتا نہیں، اس کے برعکس ایسے واقعات پران کے لب پرمسکراہٹ، نظر آتی ہے۔ وجہ صاف ظاہرہے کہ بھارت میں مسلمانوں پرہو رہے تشدد کو مودی کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس حوالے سے بھارتی وزارت داخلہ میں باضابطہ ایک سیل کام کررہا ہے جو بھارتی وزیرداخلہ امیت شاہ کے تابع ہے۔ بلاشبہ حالیہ دنوں ایک بزرگ مسلمان شہری پر ہو رہے بہیمانہ تشددکی ویڈیو مودی کے جرائم کوطشت از بام کرتی ہے اوریہ ویڈیو مودی کے جرائم کامظہر ہے۔ اگرچہ بھارت کی 1.3ارب آبادی میں سے 80 فیصد آبادی ہندو اور 14.2 فیصد آبادی مسلمان ہیں تاہم بھارتی مسلمانوں کوایسی کوئی قیادت دستیاب نہیں کہ وہ اپنے اوپرہو رہے مظالم پر صدائے احتجاج بلندکرسکے ۔ 2014ء کوجب مودی بھارت میں برسراقتدارآئے تو تب سے آج تک بھارت میں مسلمانوں پر ماب لنچنگ اورتشدد کے واقعات وقوع پذیرہوئے۔ان پر ایک اجمالی نظر ڈالیں تو ان آٹھ برسوں میں200 سے زائد مسلمانوں کو گائے کاگوشت کھانے کے نام پر موت کے گھاٹ اتارا گیا جبکہ سینکڑوں مسلمانوںکا کھلے عام تشدد کر کے ادھ موابنادیاگیا ۔ رواں برس کے اوائل سے پیش آنے والے ایسے واقعات جومنظر عام پر آئے ہیں ان میں سے چندایک سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیںکہ بھارتی مسلمان کس کرب کے شکار ہیں۔15 مار چ 2021ء کوسوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں بھارت کے دارالحکومت دلی کے نواح میں ڈاسنا علاقے میں 14سالہ ایک مسلمان بچے کو ایک مندر کے احاطے میں نہایت بری طرح مارتے ہوئے دکھایا گیا ۔ تشدد کرنے والے ہندوغنڈے کا نام شرنگی نندن یادو جبکہ تشددکاہدف بننے والے مسلمان بچے کا نام آصف تھا۔ آصف کاقصور یہ تھا کہ اسے سخت پیاس لگی تھی اس نے مندر کی ٹینکی سے پانی پی لیا تھا۔ اس کے محض چند یوم بعد26 مار چ 2021ء کو سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو سامنے آئی ہے ،یہ ویڈیوبھی دلی کی تھی جس میں ایک مسلمان نوجوان کو ہندو غنڈوں کے ہاتھوںبے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔متاثرہ نوجوان مار پیٹ سے نڈھال نظر آ رہا ہے۔ ویڈیو میں ہندوغنڈے اس بے بس نوجوان کو پاکستان مخالف ،ہندوستان زندہ باداورجے شری رام کے نعرے لگانے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔17مئی 2021ء کوبھارتی ریاست ہریانہ میں ایک ہندو انتہا پسند ہجوم نے آصف خان کو جے شری رام کا نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ہریانہ کے میوات شہر میں پیش آئے ہجومی تشدد میں آصف خان نے جب ایسے الفاظ کہنے سے انکارکیا تو ہندوغنڈوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ اسے قتل کردیا ۔ 15جون 2021ء منگل کو بھارت میں 72 سالہ بزرگ عبدالصمد سیفی اترپردیش کے علاقے غازی آباد میںہجومی تشددکاہدف بنے ۔بھارتی اخبارانڈین ایکسپریس کے مطابق بلند شہر سے تعلق رکھنے والے72سالہ عبدالصمد سیفی اپنی بھتیجی سے ملنے کے لیے غازی آباد گئے تھے جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایاگیااور ان کی داڑھی بھی مونڈ دی گئی۔ بزرگ بھارتی شہری عبدالصمد کا کہنا تھا کہ ان پر چار گھنٹے تک تشددکرنے والوںنے اسکی ویڈیو بناتے ہوئے کہا کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں اورتمہاری یہ ویڈیو بھارت کے تمام مسلمانوں کو ہماری طرف سے ایک پیغام ہے۔یہ ویڈیو مودی کے بھارت کوسمجھنے کے لئے کافی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس بزرگ شہری کی ویڈیو اور خبر لگانے پر سماجی رابطے کی ویب سائٹوں اور اس ویڈیو کو شیئر پر فرقہ ورانہ جذبات بھڑکانے کا الزام لگاتے ہوئے کئی لوگوں پرمقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔ 15جون 2021ء منگل کو رات گئے سنگین نوعیت کی دفعات کے تحت درج کی گئی ایف آئی آر میں مجموعی طور پر چھ افراد کے علاوہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر اور دی وائر نامی ویب سائٹ کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی نمائندہ اورگجرات کے فسادات پر کتاب کی مصنفہ اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی نمائندہ رانا ایوب کے علاوہ ٹوئٹر اور دی وائر نامی ویب سائٹ کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے اور مجرمانہ سازش کرنے کے سنگین الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ دراصل اس طرح کے جتنے بھی جرائم پیشہ غنڈوں کا ٹبر ہے‘ اس کی پشت پناہی خود مودی کررہے ہیں ۔ مودی کی پارٹی بی جے پی کے متعدد بڑے نیتائوں نے ہجومی تشدد کو جائز ٹھہرایا۔ان کی طرف سے کھلے مجرموں کا استقبال کیاجاتا رہا ۔ مودی کے ساتھی جیل سے ضمانت پر باہر آنے پر ان کے گلوں میں ہار ڈالتے ،ان پرپھول نچاور کرتے ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ میں جب مودی سرکار سے ہجومی تشددکا ڈایٹا اورریکارڈمانگا گیا تو وزارت داخلہ نے صاف کہہ دیا کہ اس کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں۔ وزارت داخلہ کے اس صاف انکار کا مطلب یہ ہے کہ مودی کی مکمل سرپرستی سے ہی بھارتی مسلمان ہجومی تشدد کاشکار بن رہے ہیںاورہندوغنڈے بھارتی مسلمانوں کے خلاف ایک منصوبہ بندپروگرام کی سرگرمیاں جاری ہیں اور ظلم کے شکار مسلمانوں کی فہرست میں کمی کے بجائے اضافہ اوربھارت میں مسلمان دشمن ذہنیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، مسلم دشمنی پرمبنی پالیسی پر عمل پیرا مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کو کہیں کورونا وائرس کی آڑ میں نفرت کا نشانہ بنایا گیا تو کہیں ان کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کو غداری جیسے الزامات میں دھرلیا گیا ہے۔ ان پر جھوٹے مقدمات بناکر جیلیں بھرنے کرنے کا سلسلہ لگاتار جاری ہے ۔ الغرض بھارت میں اسلامو فوبیا عروج پر ہے مسلما ن ہو! واپس جائو،ہم تم سے کوئی سامان نہیں خریدیں گے، یہ آواز اب بھارت میں بڑھنے لگی ہیں۔ مسلمان ڈیلوری بوائزکو دروازے سے واپس لوٹا دیاجاتا ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مضمون میں بھارتی ویب سائٹ دی وائر کی ایڈیٹر سدھارتھ ورداراجن نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کو بھارت میں تعصب اور جبر کی انتہا قرار دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف نریندر مودی حکومت کے جھوٹ کا پردہ چاک کرنے والے آزاد صحافیوں پر راتوں رات جھوٹے کیسز بنائے جارہے ہیں اور انہیںڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔