حکمران طبقات پچھلے تہتر سال سے عوام کے ساتھ مسلسل جھوٹ بولتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ قائد اعظم کے پاکستان میں زندہ رہ رہے ہیں، حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ انہی بالادست طبقات نے قائد اعظم کے پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی قتل کر دیا تھا، یہی نہیں خود بانی پاکستان نے جن حالات میں رحلت فرمائی وہی اس نظریے کی نفی کے لئے کافی ہیں۔ پاکستان کے عوام ،، پارٹیشن،، سے پہلے انگریز کی جس پولیس کے ہاتھوں محکوم تھے وہی محکومی آج بھی برقرار ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ہزاروں کے مجمع کی موجودگی میں پولیس کے سامنے قتل کر دیا گیا اور پولیس نے قاتل کو گرفتار کرنے کی بجائے اسے موقع پر ہی فائرنگ کرکے سارا کیس ہی ختم کر دیا، پھر خلق خدا نے کئی سال بعد اپنی مرضی کے ایک لیڈر کو تخت پر بٹھایا تو اسے اس کی وزارت عظمی کے دور میں ہی ایک متناازعہ مقدمہ قتل میں ملوث کرکے اس کے خلاف تین سو دو کی ایف آئی آر کاٹ دی، اس ایف آئی آر کو داخل دفتر کر دیا جاتا ہے اور پھر جب ضیاء الحق پہلی منتخب عوامی حکومت کا تختہ الٹ کر ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیتا ہے تو قتل کی وہی ایف آئی آر اس کے گلے کا پھندا بن جاتی ہے، میں کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہم جن عوام کی بات کرتے ہیں اسی عوام کے لئے آواز بلند کرنے کے جرم میں یہاں ان کے نمائندوں سے بھی زندگی چھین لی جاتی ہے، آپ شہید بینظیر بھٹو کے قتل کے واقعہ کو ہی دیکھ لیجئیے! جائے واردات کو گھنٹوں کے اندر اندر پانی سے کس نے دھویا تھا، قتل کے سارے نشان کس نے مٹائے تھے؟ ٭٭٭٭٭ اسی ہفتے پنجاب میں پولیس گردی کے کئی واقعات سامنے آئے، شاید یہ وزیر اعظم عمران خان کے لئے کوئی پیغام تھا؟ پولیس اصلاحات کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والے وزیر اعظم کو حکومت بنائے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا، انہیں پولیس نظام میں تبدیلی کی طرف آنے ہی نہیں دیا گیا، لوگوں کو عمران خان کی نیک نیتی پر کوئی شک نہیں ، لیکن یہ یقین ضرور ہے کہ شاید وہ اگلے چار سالوں میں بھی عوام کو ،، پولیس حراست،، نہ چھڑوا سکیں، ہم اگر صرف صوبہ پنجاب کی بات کریں تو پچھلے آٹھ ماہ کے دوران امن و امان کی صورتحال پر جو رپورٹ شدہ اعداد و شمار ہیں انہیں بلا تبصرہ آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں، جنوری دو ہزار انیس سے اکتیس اگست تک پنجاب میں مجموعی طور پر تین لاکھ گیارہ ہزار جرائم رپورٹ ہوئے، ان میں قتل اور اقدام قتل کے پانچ ہزار پانچ سو دس مقدمے درج ہوئے، زیادتی کے دو سو اور گینگ ریپ کے ایک سو چار واقعات سامنے آئے، بچوں کے اغوا اور اغوا برائے تاوان کے آٹھ ہزار چھ سو کیسز رپورٹ ہوئے، پولیس کی کارکردگی صفر رہی، اب آتے ہیں اصل مسئلے کی جانب۔ ہم رواں سال کے جن پچھلے آٹھ ماہ کا ذکر کر رہے ہیں انہی مہینوں میں پنجاب پولیس کے ہاتھوں تھانوں اور نجی عقوبت خانوں میں سترہ مبینہ ملزمان کی ہلاکت کا انکشاف بھی سامنے آیا ہے جن میں صلاح الدین نامی ایک مبینہ ملزم کی ہلاکت میڈیا کابہت زیادہ موضوع بنی رہی، پولیس کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ان ماورائے عدالت ہلاکتوں پر چوراسی پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں جن میں کئی افسر بھی شامل ہیں۔ضلع وہاڑی میں بھی پولیس کا ایک نجی ٹارچر سیل پکڑا گیا ہے، جہاں ایک عورت پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، پچھلے دو ماہ کے دوران لاہور شہر کے پانچ تھانوں میں سات شہری تشدد کرکے مارے گئے ۔پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے یہ سب ملزمان چوری جیسے معمولی جرائم میں پکڑے گئے تھے، میڈیا، بالخصوص الیکٹرانک میڈیا نے دو دن شور مچایا تو صوبے کے آئی جی کو بھی حرکت میں آنا پڑا۔ پنجاب اور وفاق کی حکومتوں کے ترجمان بھی سامنے آئے، وزیر اعطم نے بھی ان بہیمانہ واقعات کا،، نوٹس،، لیا ،مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ معمول کے واقعات جو عام آدمی کے مقدر میں لکھے گئے ہیں، وہ واقعات جو آزاد پاکستان کو وراثت میں ملے ، کیا نا انصافی اور بربریت کا تسلسل اس لئے قائم و دائم ہے کہ بالا دست اور حکمران طبقات کو پولیس کا نظام اذیت بائیس کروڑ عوام سے زیادہ عزیز اور مقدم ہے؟ ایسی ہی صورتحال سے سندھ کے عوام بھی دوچار ہیں، ، وزیر اعلی پنجاب کے ترجمان نے پولیس جرائم کی حالیہ لہر پر ایک مایوس کن پریس کانفرنس کی، موصوف فرما رہے تھے کہ عوام پر پولیس تشدد کے خلاف ایک آزاد اور خود مختار بورڈ قائم کرنے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔لوگوں نے حکمرانوں کے ترجمانوں کی ایسی سیکڑوں پریس کانفرنسز ہر دور حکومت میں دیکھی اور سنی ہیں، مگر ہاں! شہباز گل نے ایک بڑے پتے کی بات کہی جس کی ستائش بہت ضروری ہے،،،، پولیس کو ٹھیک کرنا ایک مشکل کام ہے،،،، ٭٭٭٭٭ کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف نے جب بھی وہ وزیر اعلی پنجاب رہے، بیورو کریسی کو نتھ ڈالے رکھی۔وہ بہت اعلی منتظم تھے، بہت سخت مزاج تھے اور معاملات پر ان کی بہت دسترس تھی۔ لیں آج ہم سے ان کی بھی سن لیں۔۔۔۔ پنجاب میں اپنے گذشتہ سے پیوستہ دور حکومت میں شہباز شریف اچانک بیوروکریسی کی شامت لے آئے، ہر محکمے کے سیکرٹری کو صبح چھ بجے میٹنگ میں آنے کا پابند کر دیا گیا، اور کہا گیا کہ اس روزانہ میٹنگ کی صدارت وہ خود کیا کریں گے، اس حکمنامے کی سب سے خاص چیز یہ تھی کہ میٹنگ سیکرٹریٹ میں نہیں ہوتی تھی، کبھی وزیر اعلی ہاؤس میں، کبھی وزیر اعلی آفس میں، کبھی کسی پبلک مقام پر، اس طرح پنجاب کے تمام محکموں کے سیکرٹریوں کو ایک شام پہلے آگاہ کیا جاتا تھا کہ اگلی صبح انہوں نے سویرے سویرے چھ بجے کہاں پہنچنا ہے، ایک دن میں نے شہباز شریف صاحب کو آفس کے ایک معاملے میں فون کیا کہ ان سے ملاقات کرنا ہے، وزیر اعلی نے مجھے اگلی صبح چھ بجے کا وقت دیدیا، میں نے مقام پوچھا تو بتایا گیا،،، شالامار باغ میں،،،،،،صبح چھ بجے میں شالامار باغ کے گیٹ پر تھا، گاڑی باہر سڑک پر ہی پارک کرنا پڑی، گیٹ پر کھڑے چوکیدار نے مجھے وزیر اعلی کیمپ کا راستہ بتایا اور میں کیمپ کے اندر پہنچ گیا، کیمپ میں ہر محکمے کا سیکرٹری اپنی اپنی کرسی پر خاموش بیٹھا تھا، کچھ جاننے والے سیکرٹری صاحبان سے علیک سلیک بھی ہوئی لیکن وہاں شہباز شریف نظر نہ آئے، مجھے بتایا گیا کہ کیمپ کے آخر میں دائیں جانب دیکھیں گے تو صاحب نظر آ جائیں گے، شہباز شریف ایک چھوٹے سے حجرے میں تشریف فرما تھے، ایک کرسی پر وہ خود تھے دوسری ان کے سامنے خالی پڑی تھی، سلام دعا کے بعد پہلی بات میں نے ان سے یہ کہی۔۔۔۔ جناب! یہ سیکرٹری صاحبان کو روزانہ صبح چھ بجے کی میٹنگ پر آپ کو خوب کوستے ہوں گے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ،،، ہاں! میں جانتا ہوں، مگر مجھے ہر محکمے کو ٹھیک کرنا ہے،،،،،، تھوڑے سے توقف کے بعد انہوں نے فرمایا،،،، یہ سب تو ٹھیک ہوجائیں گے لیکن شاید میں پولیس کے محکمے کو ٹھیک نہ کر سکوں۔۔۔۔۔۔اس کے باوجود کہ میں اپنے ایک دو کالموں میں اس خیال کا اظہار کر چکا ہوں کہ نواز شریف کی رہائی یا بریت نا ممکن ہے، لیکن اب حالات بدلتے دیکھ رہا ہوں، سابق وزیر اعظم کو عدالت سے ریلیف ملنے کے ا مکانات روشن ہو سکتے ہیں اور سابق وزیر اعظم کو سات سال کی سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک مستقبل قریب میں خود کسی جیل کی کوٹھری میں دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔۔۔ممکنہ یا متوقع رہائی کی صورت میں نواز شریف فوری طور پر ملک سے باہر بھی نہیں جائیں گے، العزیزیہ کیس کا ری ٹرائل ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔