مولانا فضل الرحمان اب تک پی ڈیم میں شامل جماعتوں کو اس بات کا قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں: چلے تو کٹ ہی جائے گا سفرآہستہ آہستہ ہر مرد پیر کے مانندان کو کوئی خاص جلدی نہیں ہے ۔ مگر ہر نوجوان کی طرح بلاول بہت عجلت میں ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس ابھی بہت وقت ہے ۔مگر جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ اس کو اس بات کا احساس کہاں ہوتا ہے کہ ’’صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے‘‘ سفید بالوں اورسیاہ بالوں میں سادہ سا فرق یہ ہے کہ ایک جلدی میں ہوتا ہے اور دوسرے کا اصرار ہوتا ہے ’’آہستہ آہستہ اور ذرا آہستہ‘‘ سیاست کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’یہ وہ بلا ہے جو جوانوں کو بوڑھا اور بوڑھوں کا جوان رکھتی ہے‘‘ مگر پی ڈیم ایم پر ابھی تک وہ رنگ نہیں چڑھا۔ پی ڈی ایم اب تک پوری طرح سے متحدنہیں ہوئی۔ پی ڈیم ایم نے شاید اب تک اپنی سیاست کا آغاز نہیں کیا۔ پی ڈی ایم میں شامل تین بڑی جماعتوں نے اب تک گوجرانوالہ،کراچی اور کوئٹہ میں صرف پاور شو کیا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ ’’مظاہرے اورمقابلے میں بہت فرق ہے‘‘ مولانا کی بات تو بالکل اور ہے۔ ان کے لیے کیا حجرہ اور کیا حوالات؟ مگر بلاول زرداری اور مریم نواز کے لیے بڑا فرق پڑتا ہے۔ کیوں کہ یہ دونوں بچے نازوں کے پلے ہیں۔ انہوں نے ننگے پیر کڑی دھوپ میں سفر نہیں کیا۔ ان کو معلوم ہی نہیں کہ مجبوری کس پرندے کا نام ہے اور بھوک کا درد کیسا ہوتا ہے؟ مریم اور بلاول اس دور کی سیاسی پیداوار ہیں جس دور میں جیلوں میں صرف کرپشن کے لیے جایا جاتا ہے ۔ اور وہ بھی بہت قلیل مدت کے لیے۔ انہوں نے وہ دور نہیں دیکھے جس دور میں قید مرزا غالب کے اس شعر کی طرح ہوا کرتے تھے کہ: قید میں ہے تیرے وحشی کو وہی زلف کی یاد اس دور میں قید کا سیاسی مطلب کرپشن ہے اور پچھلے دور میں قید کی معنی ہوا کرتی تھی وہ کمٹمنٹ جس کی وجہ سے انسان زندانوں کی دیواروں میںاحساس تنہائی سے ماورا ہوا کرتا تھا۔ وہ دور کس قدر عجیب اور عظیم تھا جس دور میں سیاسی قیدیوں کے لیے لکھا جاتا تھا: ’’پس دیوار زنداں کیا ہے؟ ستارے ہیں کہ آنکھیں ہیں؟ کہ انگارے دہکتے ہیں؟ محافظ کچھ نہیں کہتے اگرچہ جام و ساقی قید ہیں صلیبوں پر سہی پیغمبروں کی حکمرانی ہے‘‘ اس دور میں جیل سیاسی لوگوں سے خالی ہیں اور یہ کوئی خوش قسمتی ہیں۔ جس ملک کے سیاسی کارکنان اور لیڈران جیل جانے سے ڈرتے ہیں اس ملک میں سیای تبدیلی بچے کی ایسی خواہش ہے؛ جس پر والدین صرف مسکرا سکتے ہیں؟ امریکہ کے ایک سینیٹر نے چند برس قبل کسی جرنلسٹ سے بات کرتے ہوئے کیا خوب کہا تھا کہ ’’یہ سیاسی ورکروں کا دور نہیں۔ یہ سیاسی اداکاروں کا دور ہے‘‘ اس بات کا اس بات سے ملانے کی کوشش ہر گز نہ کی جائے جو بات شیکسپیئر نے کہی تھی کہ ’’یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب اداکار ہیں‘‘ ہم سب اداکار نہیں ہیں۔ یہ سیاسی لیڈر اداکار ہیں۔ مگر وہ بھی اچھے اداکار نہیں ہے۔ ان کی اداکاری سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ اداکاری کر رہے ہیں۔حالانکہ انگریزی میں کہتے ہیں کہ یعنی فن تو وہ ہے جو نظر ہی نہ آئے۔ ان کی اداکاری تو صاف دکھائی دیتی ہے۔ بقول شاعر: ’’تم اتنا جو مسکرا رہے ہو کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو؟‘‘ مگر ہمارے نئے سیاسی لیڈران کے ہونٹوں پر چھپی ہوئی ہنسی اور ان کے آنکھوں میں مصنوعی آنسو صاف نظر آتے ہیں۔ پی ڈیم ایم میں شامل دو پڑی پارٹیوں کا مقصد سوائے اپنا مال بچانے کے اور کیا ہے؟ پی ڈی ایم کلا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ جس اتحاد میں شامل جماعتوں کا کوئی نظریہ نہ ہو، اس اتحاد کا نظریہ ہونا ایسی بات ہے جیسی بات کے لیے پروین شاکر نے لکھا تھا: بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی مگر اس دور کے سیاستدان اس احساس سے ماورا ہیں جس احساس کی شاخ پر شرم و حیا کے پھول کھلتے ہیں۔ یہ لو ٹ کھسوٹ کا دور ہے۔ اس دور میں درست صرف وہ ہے جس کے پاس دولت ہے۔ پی ڈی ایم کے قافلے میں شامل ہر سیاسی قبیلے کی منزل الگ الگ ہے۔ یہ وہ قافلہ ہے جو کسی بھی مفاد کے موڑ پر بکھر سکتا ہے۔اس قافلے کا ہر قبیلہ اپنے اتحادیوں سے کم اوراسٹیبلشمینٹ سے زیادہ رابطہ رکھتا ہے۔ آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا تک پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کا بیانیہ الگ الگ ہے۔ اس کمپنی کو مولانا فضل الرحمان کب تک چلا پائیں گے؟اور خاص طور پر جب صورتحال ایسی ہو جیسی صورتحال کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا: وہی میری کم نصیبی،وہی تیری بے نیازی میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی اس وقت پی ڈیایم کی صورتحال مرزا غالب کے حوالے سے اس مشہور لطیفے جیسی ہو گئی ہے جس مرزا غالب نے ایک محفل میں مدہوش ہوکر کیا تھا کہ ’’یہ کمپنی کون سی ہے؟ اس کا تو پتہ نہیں مگر مجھے اس کا پورا یقین ہے کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی‘‘ پی ڈی ایم کا حال اس شادی جیسا ہے جس میں مولوی صاحب کے سامنے فریقین نکاح کی شرائط پر ہی اتفاق نہیں کر رہے تو ایسی شادی کا مستقبل کیسا ہوگا؟آپ ہنی مون کی بات چھوڑیں۔ ہم تو صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا رخصتی بھی ہو پائے گی یا نہیں!!؟