وزیر اعظم کے مشیران با تدبیر کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کر رہا ہے۔ انکی حکمت عملی پر صدقے واری جانے کو بھی دل کرتا ہے کیونکہ ایک دوست ملک کے انتہائی ہمدرد اور پاکستان سے محبت کرنے والے سربراہ طیب اردوان کے دورے کو سبو تاژ کرنے کی اس سے اچھی تدبیر نہیں ہو سکتی تھی۔ عین اس روز جب ترکی کے صدر پاکستان کی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کشمیر پر اپنی غیر مشروط حمایت کی بات کر رہے ہوں اور ہمیں یہ باور کرا رہے ہوں کہ جس طرح آپ کشمیر کے بارے میں سوچتے اور محسوس کرتے ہیں ترکی بھی اسی طرح کے جذبات رکھتا ہے۔ جب وہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے بھرپور کوشش کرنے کا بتا رہے ہوں عین اس وقت وزیر اعظم کو ایک میڈیا انٹر ایکشن کے ذریعے مصروف کرنا اور اس میں انکی طرف سے ایسے بیانات دے دینا جس کے بعد ترک صدر کا دورہء پاکستان نہ چاہتے ہوئے بھی خبروں سے نکل گیا اور ہر طرف مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی وزیر اعظم کی خواہش غالب آ گئی۔یہ کون لوگ ہیں جو اس قسم کی حکمت عملی تیار کرتے ہیں کہ عمران خان کے کریڈٹ پر کوئی اچھی بات ہونے جا رہی ہو تو اپنی بزرجمہرانہ سوچ سے اسکو سبو تاژ کر دیا جائے۔شکوہ میڈیا سے کیا جاتا ہے کہ وہ عزت نہیںکرتا حالانکہ وزیر اعظم یقین رکھتے ہیں کہ عزت اور ذلت خدائے بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے۔ تین دہائیاں ہونے کو آئی ہیں ، اسلام آباد میں اہم ممالک کے صدور اور اہم شخصیات کی آمدو رفت رہتی ہے۔ ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ جب کسی دوست ملک کے سربراہ کی آمد ہو تو اسکے چند روز پہلے اور بعد تک پوری توجہ اس دورے کے ممکنہ اثرات اور فوائد پر رہے۔ میڈیا میں اس حوالے سے خبروں اور آرٹیکل کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے جس کے ذریعے دورہ کرنے والی شخصیت اور ملک کے پاکستان کے حوالے سے ترجیحات کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ پھر دورے کے دوران وزیر اعظم کی تمام تر مصروفیات اور بیانات کا محور دورہ کرنے والے صاحب اور انکے ملک کے ساتھ طے پانے والے معاملات ہوتے ہیں۔خاص طور پر جب مسلم امّہ کی طیب اردوان جیسی قد آور شخصیت پاکستان کے دورے پر ہو اور انکا مقصد پاکستان کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات کو مزید مضبوط کرنا، کاروباری معاملات میںباہمی شراکت داری کو فروغ دینا ہو، تجارت کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان موجود پوٹینشل کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا ہو تو وزیر اعظم کی طرف سے پاکستان کے اندرونی معاملات اور سیاست کے حوالے سے ایسی بیانات کی تک نہیں بنتی جو اخباروں اور ٹی وی پر ہیڈ لائنز بنیں۔سوشل میڈیا پر انکا چرچہ ہو نہ کہ ترکی کے صدر کا دل سے کیا ہوا پارلیمنٹ سے خطاب اخباروں ، ٹی وی اور سوشل میڈیا کی زینت بنے۔ جب وزیر اعظم مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف آرٹیکل چھ لگانے کی بات کریں گے، گندم اور چینی کے بحران کے حوالے سے اپنے قریبی دوست اور ایک وزیر کی صفائی پیش کریں گے۔ یہ وہ رپورٹ ہے جس کا میڈیا بے چینی سے انتظار کر رہا ہے، تو ایسے میں میڈیا کے پاس اور کوئی آپشن ہی نہیں ہے کہ وہ ان معاملات پر سرخیاں لگائے اور ٹی وی شوز اور سوشل میڈیا میں اس پر بحث نہ ہو۔مجھے یقین ہے کہ ان سب باتوں کا ادراک کرنے کی بجائے کل کو میڈیا پھر نشانے پر ہو گا کہ ترک صدر کے اہم دورے کو نظر انداز کیا گیا۔ اگر وزیر اعظم کے مشیران تھوڑے سی بھی میڈیا ہینڈلنگ جانتے ہوتے تو یہ ہفتہ اپوزیشن کیلئے خاموشی کا ہفتہ ہو سکتا تھا۔ ترک صدر کے دورے سے پہلے اس دورے میںہونے والے معاہدات اور تقریبات کو نمایاں کرنے کی ضرورت تھی۔ انکی آمد کے بعدجس طرح سے معاملات چل رہے تھے میڈیا کا پورا فوکس کم از کم جمعتہ المبارک کی صبح تک اسی دورے پر تھا۔صدر طیب اردوان کے پارلیمنٹ سے خطاب کو بھی تمام میڈیا نے خوب زور شور سے کوریج دی۔ انکے کشمیر اور ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے بیان ہی دوپہر تک میڈیا کی سرخیوں میں تھے اور پھر کسی عقلمند نے وزیر اعظم کی میڈیا سے ملاقات کا اہتمام کیا اور اس میں وزیر اعظم نے حسب عادت لگی لپٹی بغیر مخالفین کو رگڑا لگانا شروع کر دیا۔ اسکے بعد ترک صدر کا دورہ کس حد تک اہم رہا یہ آپ جمعہ کے روز ٹی وی اور سوشل میڈیا اور ہفتے کے اخبارپڑھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں۔ صدرطیب اردوان نے اپنی مختلف تقاریر میں جو باتیں کی ہیں وہ پاکستان تحریک انصاف کے بیانئے کو مکمل سپورٹ کرتی ہیں۔کشمیر اور ایف اے ٹی ایف کا تذکرہ تو ہو چکا لیکن انہوں نے اپنے ملک کی اقتدار سنبھالنے کے وقت کی صورتحال کے حوالے سے بھی بات کی ہے جو پاکستان کی اس صورتحال سے عین مطابقت رکھتی ہے جب عمران خان نے بطور وزیر اعظم عہدہ سنبھا لا تھا۔ترک صدر کے بقول جب انہوں نے اقتدار سنبھالا ترکی کا قرض جی ڈی پی کا 72فیصد تھا اور بجٹ خسارہ گیارہ فیصد تھا۔صدر طیب اردوان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک دہائی کی محنت کے بعد قرض کو کم کر کے 30فیصد تک لے کر آئے اور بجٹ خسارہ اس وقت تین فیصد سے بھی کم ہے۔اسی طرح انہوں نے ٹورازم کے حوالے سے بھی ترکی کے کامیاب سفر کا ذکر کیا۔ترک صدر نے خوشحال پاکستانیوں کو علاج کے لئے مغرب جانے کی بجائے ترکی آنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی مغرب جیسی بلکہ اس سے بھی بہتر سہولیات موجود ہیں۔ لیکن انکی یہ سب باتیں وزیر اعظم کے مولانا فضل الرحمٰن ، آٹا اور چینی کے بارے میں بیانات میں چھپ کر رہ گئیں۔ وزیر اعظم کو ایک بار اپنے مشیروں کے حوالے سے ضرور غور کرنا ہو گا تا کہ آئندہ ایسے موقع پر یہ سیانے انہیں کسی ایسے ایشو پر نہ الجھا دیں کہ انکے حوالے سے مثبت کی بجائے غلط پیغام جائے۔ویسے وزیر اعظم خود بھی ایسے مواقع پر اس قسم کے بیانات سے گریز کر سکتے ہیں۔