وہ جو کہتے ہیں کہ اگر آپ جج کو قائل نہ کر سکیں تو اسے انتشار ذہنی کا شکار کر دیں یعنی کنفیوزکر دیں۔ انتخابات کے جج اور منصف تو عوام ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے عوام کو کنفیوز کیا جا رہا ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ کون کر رہا ہے‘ کوئی نادیدہ قوتیں یا تاریخ کے ریلے۔ خلاصہ بہرحال یہ ہے کہ اس وقت کنفیوژن اپنی انتہا کو ہے۔ یہاں تین واقعات کا انتخاب کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں‘ وہ کیا پیام دے رہے ہیں، 1۔مریم اور نواز شریف کی واپسی۔ 2۔زرداری کی عدالتوں میں طلبی۔ 3۔پشاور میں بلور خاندان پر قاتلانہ حملہ۔ پہلے زرداری کے معاملے کو لیتے ہیں۔ لگتا تھا وہ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہہ رہے تھے کہ حکومت ہم بنائیں گے۔ اس سے پہلے یہ تک کہا جب چاہوں حکومت گرا سکتا ہوں۔ یوں لگتا تھا کہ بڑے پراعتماد ہیں۔ ان کا دماغ آسمان تک جا پہنچا تھا۔ ان کے لہجے میں ایسا طنطنہ تھا جیسا آج کل عمران خان میں آتا جا رہا ہے۔ خیر عمران کا لہجہ تو ہمیشہ اس بات کی غمازی کرتا رہا ہے کہ لوگوں کو شک ہوتا تھا کہ وہ ایسے ہی نہیں گرج برس رہے ہیں‘ ان کے پیچھے کوئی ہے۔ مگر ان دنوں تو یوں لگتا ہے کہ انہوں نے تمام منزلیں طے کر لی ہیں۔ اب اقتدار ان کی جھولی میں ایک پکے ہوئے پھل کی طرح آیا کہ آیا۔ بعض لوگ ان دنوں بھی کہتے تھے زرداری صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ان کو شاید یقین دلایا گیا ہے کہ وہ نواز شریف کے خلاف ڈٹے رہیں اس کے بدلے میں انہیں سات خون معاف کر دیے جائیں گے۔ انہیں جو شکایت ہے کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو تنگ کیا گیا ہے تو وہ سب شکایتیں دور کی جائیں گی۔ اس کا ثبوت یوں دیا گیا کہ جب نیب کے چیئرمین نے شہباز شریف کے ایک بیان کے جواب میں یہ کہا کہ نیب کا سورج صرف پنجاب پرنہیں پورے ملک پر ایک سی آب و تاب سے چمک رہا ہے‘ اسی دن سندھ سے پیپلز پارٹی کے چند اہم افراد کے خلاف کئی مقدمے نیب نے بیک جنبش قلم واپس لے لیے ۔لگتا تھا‘ زرداری صاحب اپنے سارے معاملات طے کرتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے سب شکائتیں دور کر دی ہیں۔ اس کے بدلے میں ان پر انعام و اکرام کی بارش ہو رہی ہے۔ کہنے والوں نے کہا‘ سیاست اس کا نام ہے۔ زرداری بڑے زیرک سیاستدان ہیں اب ان کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ حتیٰ کہ جب عمران کہتے تھے کہ وہ زرداری کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گے تو زرداری اپنی مخصوص زیر لب مسکراہٹ سے یہ بتاتے تھے کہ جس نے بھی اقتدار میں آنا ہے اسے ہم سے بات کرنا پڑے گی۔ اچانک خبر آئی کہ بنک دولت پاکستان نے چند اکائونٹس تلاش کئے ہیں جو ملک سے باہر اربوں ڈالر بھیجے جانے کی خبر دیتی ہے اور اس بے پناہ دولت کے ڈانڈے زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال سے جا ملتے ہیں ۔اب نیب نہیں‘ ایف آئی اے حرکت میں آئی‘ طلب کر لیا گیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اپنے مخصوص انداز میں گرجے کہ مجرم کو ہمارے حضور پیش کیا جائے۔ اب کہانی چل پڑی دیکھا نا غیر جانبداری کا نمونہ۔ لوگ کہتے تھے سندھ اور پیپلز پارٹی کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب دیکھو‘ ادھر کا رخ کیا جا رہا ہے تجزیے آئے کہ زرداری سے ہاتھ ہو گیا۔ انہوں نے اپنے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال دیے تھے اپنا بیانیہ ایسا تندو تیز بنا ڈالا تھا کہ گویا نواز شریف سے ملنا ایک گناہ کبیرہ ہو گا جو زرداری سے کبھی سرزد نہ ہو گا۔ دوسری طرف افواہیں اڑتی تھیں کہ اندر ہی اندر یہ مل لیتے ہیں اور دیکھنا انتخابات کے بعد زرداری کیسے پلٹا کھاتے ہیں عمران یوں ہی چیخ نہیں رہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ زرداری ‘ نواز شریف کے ساتھ جمہوریت کی خاطر مل جائیں اور ساری نادیدہ قوتیں ہاتھ ملتی رہ جائیں۔ اب یہ جو مقدمات کھلے تو کہا جانے لگا لو بھئی ان قوتوں کو اس کی خبر ہو گئی۔ اس لیے زرداری اب دھر لیے جائیں گے یہ جو چومکھی لڑنے کے ماہر گنے جاتے ہیں‘ انہیں سبق سکھا دیا جائے گا۔ ایک آواز ایسی اٹھی! زرداری بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے۔ دیکھنا ان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ اب کہا جا رہا ہے! زرداری نے دوبارہ ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ ان سے کچھ غلطی ہوئی تھی۔ انہوں نے اس پر معذرت کر لی ہو گی۔ اس کے ثبوت میں وہ بیانات سنائے جاتے تھے کہ ایف آئی اے نے زرداری اور فریال کو گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر یہ خبر آئی کہ ایف آئی اے کو شکایت ہے کہ سٹیٹ بنک تعاون نہیں کر رہا پھر خبر آئی کہ زرداری نے انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے بجائے اپنے وکیل کے دو جونیئر بھجوا دیے کہ انتخابات سر پر ہیں اس کے بعد جواب دے دیں گے پھر خبر آئی کہ بہن‘ بھائی سپریم کورٹ میں بھی پیش نہیں ہوں گے۔ میں نے کل ہی اپنے ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ زرداری کا معاملہ لپیٹ دیا جائے گا بس تلوار سر پر لٹکا دی گئی ہے۔ کیا فی الحال اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ چلیے اسے یہاں ہی چھوڑتے ہیں اور اس معاملے کی طرف آتے ہیں جو تاریخ کا رخ موڑ سکتا ہے۔ یہ نواز شریف اور مریم کے واپس آنے کا فیصلہ ہے کسی نے بہت درست تبصرہ کیا کہ یہ مسئلہ کہ ان کا شاندار استقبال ہوتا ہے یا مسلم لیگ کچھ بھی نہیں کر پاتی اور باپ بیٹی کو لاہور ایئر پورٹ سے ہیلی کاپٹر سے سوار کر کے سیدھا جیل بھجوا دیا جاتا ہے اگر عوام آئے بھی تو وہ دیکھتے ہی رہ جائیں گے‘ ویسے وہ آئیں گے کیوں‘ جب انہیں خبر ہے کہ ان کے لیڈر کو تو باہر نہیں آنے دیا جائے گا اور ہاں مسلم لیگ میدان میں نکلنے والی پارٹی نہیں ہے یہ ان کا مزاج نہیں ہے۔ کہا گیا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ نواز شریف ڈٹ جاتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں یا ملک سے باہر عافیت کی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا آنا ہی اصل فیصلہ ہے جس پر عمران خان بھی چیخ اٹھے ہیں کہ دیکھنا نیلسن منڈیلا بننے کی کوشش نہ کرنا تم کوئی ورلڈ کپ لے کر آ رہے ہو۔ یہ بہت معنی خیز بیانیہ ہے۔ حکومت نے ایسے ہی ردعمل کا اظہار کیا۔ حکومت نے پہلے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے بعد ان کارکنوں پر بھی مقدمات قائم کر کے انہیں جیل بھیج دیا جنہوں نے ریلی میں حصہ لیا تھا گویا پیام دیا کہ سختی سے نپٹا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی دے ڈالی کہ نواز شریف کے لیے جو ہیلی کاپٹر طلب کیا گیا تھا وہ فراہم کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی دفعہ 144کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ دفعہ 144بھی قصہ پارینہ ہو چکی تھی۔ آخری بار شاید ایوب خاں کے دور میں لگاکرتی تھی۔ وگرنہ انگریز کے زمانے کی یادگار تھی۔ اگر یہ زندہ ہوتی تو نہ دھرنا ہوتا نہ ماڈل ٹائون کا سانحہ۔ دونوں جگہ لوگ اکٹھے ہی نہ ہونے دیے جاتے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ اب کہا جا رہا ہے‘ اب یہ دفعہ 144ہے اور اس کی پشت پر فوج کی قوت نافذہ بھی ہے۔ فوج کی قوت نافذہ ہو تو 144بہت ہوا کرتی ہے اس کے لیے کسی ڈیفنس آف پاکستان رولز‘ یا پبلک مینٹیننس آرڈی ننس یا ایسے کسی قانون کی ضرورت نہیں پڑتی ۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ خود مسلم لیگ میں بھی تقسیم ہے۔ ایک موقف یہ ہے کہ سرجھکا کر الیکشن لڑو‘ دوسرا کہتا ہے ڈٹ جائو آج نہ ڈٹے تو کب ڈٹو گے‘ حالات کا ریلا تمہیں روندتا ہوا گزر جائے گا۔ بہرحال ایک دن انتظار کر لیتے ہیں ہاں‘ اتنی بات یاد رہے کہ اہم بات یہ نہیں کہ انتظامیہ یا مسلم لیگ یا کوئی اورکیا کرتا ہے‘ اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف نے لوٹنے اور ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے آگے کیا حال ہوتا ہے فی الحال مزید اندازے لگانے کی ضرورت نہیں حالات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تیسری بات پشاور کا سانحہ ہے۔ بعض لوگ کھلے لفظوں میں کہہ رہے تھے کہ یہ انتخابات خونیں ہو سکتے ہیں ایک دوسرے انداز میں بھی بات ہو رہی تھی کہ کوئی بڑا سانحہ سب کچھ بدل سکتا ہے کوئی بڑا ٹارگٹ دہشت گردوں کے مقاصد پورے کر سکتا ہے۔ اب بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ پشاور کا سانحہ بھی ایک انتباہ ہے‘ اس بات کا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے ہم نے کہنا تو شروع کر دیا ہے خودکش حملے کون روک سکتا ہے۔ اب یہاں کئی تجزیے کیے جا رہے ہیں کہ یہ دہشت گردی کون کرائے گا‘ اس کے مقاصد کیا ہوں گے آخر بے نظیر کے قتل پر انتخابات ملتوی تو ہوئے تھے اور سارا سیاسی منظر بھی بدل گیا تھا۔ پھر اگر یہ خالص دہشت گردی ہو تو اس کے بھی بے شمار مقاصد ہیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنا‘ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنا‘ مخالفوں سے جان چھڑانا‘ آپ جیسے چاہیں اسے بیان کر لیں۔ اس میں شک نہیں یہ خطرہ موجود ہے۔ بلور فیملی اور اے این پی نے تو بڑے حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے‘ وگرنہ یہ واقعہ بھی بہت کچھ کر سکتا تھا۔ سچ کہتا ہوں ابھی تک پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل خطرے میں ہے یہ تین واقعات تو میں نے یونہی آج کے پس منظر میں بیان کر دیے وگرنہ سارا عمل ہی اس طرح بے یقینی اور انتشار کی کیفیت پیدا کر رہا ہے اس کیفیت میں جو جتنا پر اعتماد ہے وہ اتنا ہی خطرناک دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف سہمے ہوئے لوگ ہیں‘ دوسری طرف اکڑی ہوئی گردنیں اور تیسری طرف عوام ہیں کہ پوچھتے ہیں کچھ ہم سے کہا ہوتا‘ کچھ ہم سے سنا ہوتا‘ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس میں عوام سے کوئی نہیں پوچھتا کہ بتا تیری رضا کیا ہے اور ہم کہتے ہیں‘ جمہوریت آ رہی ہے۔ جانے یہ کیسی جمہوریت ہے۔