پاکستان کی تاریخ میں ایک وقت اَیسا بھی آیا تھا کہ مسلسل چار روز تک نہ تو چوری ڈاکے کی کوئی واردات ُہوئی تھی اَور نہ ہی قتل کی۔ ُیوں لگتا تھا کہ ساری قوم یک لخت شریف بن گئی ہے۔ ُہوا ُیوں کہ صوبے بھر کی پولیس اپنے مطالبات منوانے کے سلسلے میں ہڑتال پر چلی گئی جس کے ساتھ ہی تمام جرائم پیشہ لوگوں نے بھی ہڑتال کر دی۔ جتنے د ِن پولیس ہڑتال پر رہی ، جرائم پیشہ لوگ یہ شعر پڑھتے رہے: گلوں میں رنگ بھرے باد ِ َنو بہار چلے چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے اُنہی د ِنوں ہم نے ایک عادی مجرم سے ُپوچھا: ـ"آج کل آپ اپنے فرا ِئض منصبی سے غافل کیوں ہو گئے ہیں ؟ایک آدھ ڈاکا شاکا ڈالنے یا چھوٹا موٹا قتل کرنے میں کیا َحرج ہے؟ " آہ بھر کر کہنے لگا : "کیا عرض کروںہماری برادری تو گویا یتیم ہو گئی ۔جب سے پولیس ہڑتال پر گئی ہے ہمارا کسی کام میں د ِل نہیں لگتا۔ چوری ،ڈاکا‘ قتل وغیرہ سے تو نفرت سی ہو گئی ہے۔ جب قدر دان ہی نہ رہیں تو فن کاروں کا اللہ حافظ ہے۔ پولیس ہماری قدردان ہی نہیں‘ سرپرست بھی ہے۔ سرپرست نہ ہوں تو فن کا بیڑا غرق ہونا لازمی ہے۔ کلاسیکل موسیقی اَور پہلوانی کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ راجے مہاراجے اِن لوگوں کی سرپرستی کرتے تھے تو یہ فنون بھی ز ِندہ تھے۔ سرپرست نہ رہے تو اِن پر زوال آ گیا۔ پہلوان، غباروں کی طرح ہلکے ہو گئے اَور موسیقار راگ کلیان گانے لگے۔ یہی حال پولیس کے جانے سے ہمارا ہو گیا ہے۔ اگر پولیس واپس نہ آئی تو ہمیں کوئی اَور دھندا کرنا پڑے گا۔ " اُس کی َدرد بھری تقریر ُسن کر ہم نے کہا: ـ"آپ جی بُرا نہ کریں۔ انگریزی کے ایک شا ِعر نے کہا ہے، ’’اگر خزاں آ گئی ہے تو بہار بھی دُور نہیں ہے۔‘‘پولیس کے بغیر اگر آپ لوگ نہیں چل سکتے تو حکومت بھی نہیں چل سکتی۔ جس طرح آپ کو پولیس کی ضرورت ہے‘ اُسی طرح حکومت کو بھی اُس کی ضرورت ہے۔ آپ کے اَور حکومت کے کام میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ مسئلہ صرف آپ لوگوں ہی کا نہیں‘ حکومت کا بھی ہے۔ آپ خا ِطر جمع رکھیں… یہ ہڑتال چھے سات د ِن سے زیادہ نہیں چلے گی۔" کہنے لگا: "آپ سے ہمدردی کے دو بول ُسن کر میں تو گویا جرائم کی دُنیا میں واپس آ گیا ۔ اِنشاء اللہ پولیس کے واپس آنے پر میں آپ کے احسان کا بدلہ ُچکانے کی ُپوری کوشش کروں گا۔ کسی ہمسایے یا ر ِشتے دار کے گھر ڈاکا شاکا پڑوانا ہو یا کوئی بندہ شندہ َمروانا ہو‘ آپ ِبلا تکلف کہہ دیجیے گا۔ آپ کی خدمت کر کے مجھے د ِلی خوشی ہو گی!ــ" "آپ کی پیشکش کا بہت بہت شکریہ! فی الحال تو مجھے کوئی اَیسا مسئلہ در پیش نہیں ہے۔ تاہم ضرورت پڑنے پر آپ سے ضرور عرض کروں گا۔ البتہ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی کہ آپ کو اَپنے کاروبار کے لیے پولیس کی ضرورت کیوں پڑتی ہے… کیا آپ اپنا مشن پولیس کے بغیر ُپورا نہیں کر سکتے؟ عام َطور پر تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ جرائم پیشہ لوگ پولیس سے خوف کھاتے ہیں اَور پولیس اُن کی راہ میں سب سے بڑی رُکا َوٹ ہے!" ـ"پولیس!…اَورہماری راہ میںرُکا َوٹ؟…واہ صاحب واہ!… کیا آپ اِتنا بھی نہیں جانتے کہ یہ ُجوا خانے‘ شراب خانے‘قحبہ خانے‘ سب پولیس کے دم قدم سے آباد ہیں؟ حضور ِ والا! جب کسی تھانے دار کی ٹرانسفر ہوتی ہے تو ُوہ آنے والے تھانے دار کو ایک لسٹ مہیا کرتا ہے کہ کن کن جگہوں اَور اَڈّوں سے کتنی کتنی رقم ماہانہ وصول ہوتی ہے۔ کون کون سے لوگ ہیں جن کو ہر قسم کا ّتحفظ دینا ہے۔ کون شراب بیچتا ہے اَور کون ہیرئوئن کا بیوپاری ہے۔ ُوہ اُن لوگوں کی نشان دہی بھی کر جاتا ہے جن کے ہاتھ لمبے ہیں اَور جن پر ہاتھ نہیں ڈالنا۔ ُوہ اُسے یہ بھی سمجھا دیتا ہے کہ اکٹھی ہونے والی رقم کی جائز اَور منصفانہ تقسیم کیسے کرنی ہے… انسپکٹر کا کتنا ِ ّحصہ ہے اَور ڈی ایس پی کا ِ ّحصہ کیا ہے اَور اُوپر کیا پہنچانا ہے۔ ُوہ آنے والے کو علاقے میں اپنے خاص بندوں کے بارے میں بھی بتا دیتا ہے جن میں سے اکثر کا شمار علاقے کے معز ّزین میں ہوتا ہے۔ اَور تو اَور‘ ہر ایس ایچ او کو اَپنے علاقے کے جیب کتروں اَور اُن کے اُستاد کا بھی پتا ہوتا ہے: خود پولیس والے اُسے اُستاد جی کہتے ہیں!" "کمال ہے!ـ" ہمارے مُنہ سے یہ دو الفاظ کیا نکلے کہ اُس نے اِتنی ہی لمبی ایک اَور تقریر کر ڈالی: "ابھی آپ نے ُسنا ہی کیا ہے… آپ ُیوں سمجھ لیں کہ علاقے کی پولیس کی مرضی کے بغیر وہاں پرندہ بھی َپر نہیں مار سکتا۔ اگر کوئی احمق‘ پولیس کی منظوری اَور علم کے بغیر کسی ُجرم کا اِرتکاب کر ہی بیٹھے تواُس کی ز ِندگی حرام کر دی جاتی ہے۔ اگر ُوہ پولیس کو مطمئن نہ کر سکے تو اُس کا چالان عدالت میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ہر مجرم کو اَپنا کاروبار جاری رکھنے کے لیے مقامی تھانے میں اپنی رجسٹریشن کرانا پڑتی ہے؛ یعنی اُس کے پاس پولیس کا این او سی (NOC) ہونا چاہیے‘ ورنہ ُوہ کوئی غیر قانونی دھندا کر ہی نہیں سکتا۔ پولیس کی مدد سے لوگ اپنے مخالفین کو جھوٹے مقدموں میں پھنسا دیتے ہیں اَور پولیس عدالت میں جھوٹے گواہ پیش کر کے‘ اُنھیں سزا بھی د ِلوا دیتی ہے ۔ جن مجرموں کو عدالت سے َبری کروانا ہو‘ پولیس اُن کے مقدمے (FIR) میں جان ُبوجھ کر ایسے جھول رکھ دیتی ہے کہ عدالت اُنھیں چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ علاقے میں کوئی چوری ہوجائے تو پولیس اصل مجرم کو پکڑنے کے بجائے بہت سے بے گناہ لوگوں کو پکڑ لیتی ہے اَور مار مار کر اُن کا ُبھرکس نکال دیتی ہے: اُن میں سے جو مشتبہ شخص پولیس کو ر ِشوت دے دیتا ہے‘ چھوٹ جاتا ہے اَور جس کے لواحقین ر ِشوت نہ دے سکتے ہوں‘ اُس پر ّ تشدد کا سلسلہ جاری رہتا ہے… یہ سب کچھ متعلقہ ڈی ایس پی کی منظوری سے ہوتا ہے۔ پولیس کا چھوٹا عملہ اِس لیے بے خوف اَور دیدہ دلیر ہے کہ اُسے ڈی ایس پی کا تحفظ حاصل ہوتا ہے ۔ حکومت کی اپنی تحقیق کے مطابق چھیانوے فی صدڈی ایس پی بے اِیمان اَور ر ِشوت خور ہیں!" یہاں ُوہ ذرا سانس لینے کے لیے رُکا اَورپھر اَپنی تقریر ختم کرتے ہوئے بولا: اَب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ مجرموں کے لئے پولیس کی سرپرستی کیوں ضروری ہے! "سمجھ گیا ُہوں …ضرورت سے زیادہ سمجھ گیا ُہوں!ـ" ٭٭٭٭٭