اخبار کی ملازمت کو دو سال ہوئے تھے۔ ایک دن نیوز روم میں ہمارے پروف ریڈر کے دماغ کی شریان پھٹ گئی۔ ہسپتال سے پہلے وہ اللہ کے پاس پہنچ گئے۔دوسرا واقعہ اعجاز خاور کا ہے۔ اعجاز خاور لیاقت پور سے آیا۔ لکھنے کا شوق تھا، اطہر ندیم صاحب نے مجھے اس کی تحریر کا جائزہ لینے کو کہا۔ اس کے پاس چھوٹے موٹے اخبارات اور رسائل میں شائع تحریروں کی فوٹو کاپیاں تھیں۔ مجھے اس کی تحریر پختہ محسوس ہوئی۔ وہ کالم لکھنے لگا، کچھ عرصہ بعد ادارتی شعبہ میں گنجائش بنی۔ میں انچارج تھا۔ بے روزگار اعجاز خاور کو رکھ لیا۔ ایک نیا اخبار شائع ہونے والا تھا۔ میں نے اعجاز سے پوچھے بنا اس کی وہاں ملازمت کی بات کر لی۔ اس کی تنخواہ پہلے ادارے سے تین گنا زیادہ مل رہی تھی۔ وہ بہت خوش تھا مگر نئی ملازمت سے پہلے ہی وہ دفتر میں کام کے دوران بلڈ شوگر میں کمی کا شکار ہو گیا۔ اس کی سانسیں بھی ایمبولینس میں ختم ہو گئیں۔ خالد ارمان میرے ساتھ میگزین کے شعبہ میں کام کرتا تھا۔ لاہور کے نواحی قصبے للیانی میں رہتا تھا۔ عمدہ شاعر اور نثار تھا۔ اختتام ہفتہ تھا۔ خالد میرے پاس آیا۔ سارا سٹاف جا چکا تھا۔ اس نے مجھے ایک خط دیا جو میں نے اس کے سامنے ہی پڑھ لیا۔ وہ کچھ معاملات میں میرا مشکور تھا۔ میں شرمندہ ہو رہا تھا۔ اس نے خط میں اپنے بعض عائلی معاملات پر پریشانی کا اظہار کیا تھا۔ میں نے مدد کا وعدہ کیا۔ اتوار کو دفتر سے چھٹی تھی سوموار کو پہنچا تو گیٹ پر خالد ارمان کی موت کا اطلاع نامہ چسپاں تھا۔ وہ ہفتے کے دن مجھ سے مل کر گیا۔ اپنے دکھ بتا رہا تھا۔ اتوار کو اس نے خودکشی کر لی۔ شادباغ کے علاقے میں سینئر صحافی فالج کے باعث بستر پر پڑے تھے۔ وہ ایک اخبار کے ادارتی مضامین کا ترجمہ کیا کرتے تھے۔ بارہ ہزار ماہانہ تنخواہ تھی۔ بچے ابھی سکول جاتے تھے۔ بیگم گھریلو خاتون۔ ایک دوست نے ان کا بتایا۔ میں نے ملاقات کی اور مدد کا وعدہ کیا۔ میری بہن عارفہ نے اطہر ندیم صاحب کی یاد میں ایک فنڈ کاانتظام کر رکھا ہے۔ وہ سینئر صحافی اب وفات پا چکے ہیں تاہم بچوں کی کفالت کے لئے مدد کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک اور مرحوم صحافی کے بچوں کو دو سال تک امداد فراہم کی۔ بعدازاں بچوں کے چچا نے ان کے لئے کچھ سرمایہ کاری کی اور شکریہ ادا کر کے ہماری مزید مدد لینے سے انکار کر دیا۔ دو روز پہلے میرے ساتھی صابر بخاری نے ایک بیمار صحافی کے متعلق بتایا۔ نوجوان آدمی ہے۔ کمر اور گردن کے مہروں میں خرابی پیدا ہوئی۔ اب کام کرنے کے قابل نہیں۔ نوکری سے جواب مل گیا اور کچھ کر نہیں سکتا۔ شادی شدہ ہے۔ کرایہ کا گھر۔ جن لوگوں کا تذکرہ کیا یہ سب خوددار‘دیانتدار اور تعلیم یافتہ افراد ہیں۔ پاکستان میں ایسی خوبیوں کے مالک افراد عموماً ایسے ہی حالات کا شکار ہیں۔ چند لوگ ہمیں آزادی صحافت کا سبق پڑھاتے ہیں۔ ٹھنڈے کمروں میں، رشوت اور ٹیھکوں کی رقم جیب میں ہو تو آدمی کو خوامخواہ انقلابی بننے کی خارش ہونے لگتی ہے۔ یہ اپنے نعروں‘ اپنی گرفتاریوں اور صحافیوں کے لئے احتجاج کی قیمت لینے والے پیشہ ور ہیں۔ آزادی صحافت کا مطلب صرف دولت مند سیاستدان کے حق میں بولنا نہیں۔ آزادی صحافت کا مطلب صرف وراثتی سیاستدانوں کو لفظوں کے چمچے دینا نہیں۔ آزادی صحافت محروم طبقات کی محرومیوں کی نشاندہی اور حکومتوں کو غفلت سے آگاہ کرنا ہے۔ غضب خدا کا پہلے دولت مند سیاستدانوں نے قلم خریدے اور پھر ان قلموں کی تحریریں انقلاب کے ترانے کا درجہ پانے لگیں۔ ہم انحطاط کا شکار ہوئے ہیں۔ آزادی صحافت کا موضوع ہماری سماجی محفلوں میں زیر بحث ہے۔ ملک سلمان نے گوادر کے ایس پی علی شیرچنگیزی کے اعزاز میںجمعہ کو پیٹریاٹک کلب کی نشست رکھی تھی۔ منہاج یونیورسٹی کے ڈاکٹر شاہید سرویا۔ ہم ٹی وی کے شیراز حسنات‘ محکمہ صحت کے ایڈیشنل سیکرٹری طیب فرید ‘ نادرا کے ڈائریکٹر ملک اعجاز‘ کالم نگار طارق امین Better Pakistanکے کشف شاہ‘ قانون دان سلیم چودھری‘ حسنین چودھری اور رانا ذوہیب میں سے ہر کوئی جاننا چاہتا تھا کہ آزادی صحافت ریاستی مفادات سے بڑی چیز ہے؟ کنٹرولڈ جمہوریت کے تصور پر بات ہوئی۔ میڈیا اخلاقیات کا معاملہ بھی کچھ دیر موضوع گفتگو رہا۔ میرا خیال ہے کہ جدید ریاست نے فرد کے ساتھ معاہدہ عمرانی کرتے وقت یہ واضح کر دیا تھا کہ فرد کی تمام آزادیاں اس حد تک ریاست کے لئے قابل احترام ہوں گی جہاں تک وہ انفرادی سطح پر ہوں گی۔ فرد کا ہر عمل جو معاشرے کی اجتماعیت پر اثر انداز ہو سکتا ہے وہاں ریاست کو بااختیار بنایا گیا کہ وہ چاہے تو قومی سلامتی، معاشرتی یکجہتی اور عمومی امن و امان کے لئے خطرہ بننے والی سرگرمیوں اور بیانات پر پابندی عاید کر سکتی ہے۔ ایک سوال کا جواب ہماری سوسائٹی کو اب مل جانا چاہیے کہ ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ آزادی صحافت کہلا سکتا ہے؟ اگر یہ جائز ہے تو پھر الطاف حسین کی تقاریر پر مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں پابندی لگائی گئی۔ کیا وہ فیصلہ غلط تھا؟ مریم نواز اور ان کا ویڈیو بریگیڈ جو کچھ سوشل میڈیا پر پھیلا رہا ہے یہ اسی نوع کا مواد ہے جو بانی ایم کیو ایم کی زبان سے نکلتا تھا۔ پاکستان کے وسائل پر بددیانت قابض رہے ہیں مگر سچ یہی ہے کہ ملک ان کے دم سے قائم دائم ہے جو سرحدوں پر شہید ہو رہے ہیں، دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں، خائن اور بے ایمانوں سے تفتیش کر رہے ہیں اور اپنے برے معاشی حالات کی پرواہ کئے بغیر قلم کی حرمت کو کسی لین دین سے آلودہ نہیں کرتے۔ ساحر نے آزادی صحافت کا مضمون ہی باندھا: نہ منہ چھپا کے جیئے ہم نہ سر جھکا کے جیئے ستمگروں کی نظر سے نظر ملا کے جیئے اب ایک رات اگر کم جیئے تو کم ہی سہی یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جیئے کاش مرحوم اعجاز خاور‘ خالد ارمان اور لفظوں کا احترام کرنے والے دوسرے صحافی آزادی صحافت کی بحث کا حصہ بن پاتے۔