مولانا روم نے لکھا تھا کہ ساری انسانیت ایک دوسرے کیساتھ اسی طرح وابستہ اور نتھی ہے،جسطرح جسمانی اعضائ، انسانی جسم کیساتھ۔۔۔کہ انکا"جوہر" ایک ہے،شیخ سعدی نے بھی اسی فکر کو آگے بڑھایا کہ انسانیت کے باہم مربوط ہونے کا "بنیادی وصف" حضرت آدم ؑ کی نسبت سے ایک ہی ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:اَلْخَلْقُ عَیَالُ اللہ یعنی مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔گزشتہ ہفتے لاہور میں ایسٹر کی مرکزی تقریب میں ، مُسلم، کرسچین، سِکھ، ہِندو سمیت دیگر مذاہب کے ماننے والوں نے اپنی بے بسی اور بے کسی کا معاملہ اس کائنات کے پالنہار کے آگے پیش کرتے ہوئے، اُسی سے، اُس کے فضل و کرم اور لطف وعطا کی بھیک طلب کی ہے۔ یقینا اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ایسے مشکل حالات میں اللہ تعالیٰ سے استغفار اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر ، اس کے آگے اپنی ندامت بھری جبیں جھُکانا اور پھر اس کے ساتھ، اُسکی رضا اور خوشنودی کے لیے ، غموں اور دُکھوں سے بِلکتی ہوئی مجبور اور بے بس انسانیت کے ساتھ ایسا محبت آمیز اور شفقت بھرا سلوک کرنا،جس سے ان کے دُکھ اور غم کم ہوسکیں… وقت کا اہم ترین تفاضہ ہے۔ہمارے دین نے اس حوالے سے زکوٰۃ اور صدقات کی صورت میں ایک ایسا موثر نظام دیا ہے جس کے تحت سماجی تحفظات کو یقینی بنایا گیا ہے ۔ معیشت کی استواری اور معاشی احتیاج سے انسانی معاشرے کو محفوظ رکھنا،انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔اگر اسکا اہتمام نہ ہو تو سوسائٹی میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ اسلام نے تقسیم دولت اور کسبِ معاش کے واضح اصول متعین فرمائے تاکہ بے جا مسابقت کی وجہ سے باہمی نفرت پیدا نہ ہو، اس سلسلے میں بنیادی اور اساسی پہلوــ ــ"حقِ محنت" کا اعتراف ہے ، جس کے لیے سورۃ النجم کی آیت39میں فرمادیا گیا کہ’’انسان کے لیے وہی کچھ ہے، جس کے لیے اس نے محنت کی ہے‘‘۔اسلام نے معاشی تگ ودو میں’’حلّت‘‘ کی شرط کو بنیادی اہمیت عطا کی۔ کہ اس امر کا اہتمام ہو کہ تمہارے پیٹ میں جانے والا لقمہ حلال رزق سے عبادات ہو ،یقینا ایک تو وہ پاک اور حلال طریقے سے کمایا گیا ہو او ردوسرا اپنی شکم پروری کے لیے جس کھانے کا اہتمام ہو،وہ بھی پاکیزہ اور طیب ہو ، حالیہ بحران جو" کرونا" کی صورت میں ہم پر ناز ل ہے ، اس کی اصل بھی حرام اور ناجائز غذائوں کا استعمال تھا، چنانچہ کورونا کا اوّلین شکار ہونے والے ملک چین نے ، اس وبا پر قابو پانے کے فوراًبعد اپنی غذا/ خوراک اور کھانے پینے کی اشیاء کا ازسرِنو جائزہ لیکر ، الہامی مذاہب نے جن جانوروں کو حرام قراردیا ہے اُن کے گوشت پر پابندی عائد کردی ہے۔ چنانچہ سانپ،چوہے،چمگادڑ،بندر، چھپکلی، کھچوے اور ریچھ کا گوشت بند کرکے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سبزیاں،دالیں اور حلال غذائوں کی ترغیب دی جارہی ہے، کورونا کا یقینا ایک المناک پہلو یہ بھی ہے ، کہ’’ لاک ڈائون‘‘کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں، لوگوں کی بڑی تعداددہاڑی دار ہے، ان افراد کی مشکلات کو دور کرنا، حکومت کیسا تھ ساتھ سوسائٹی کی بھی ذمہ داری ہے۔زندگی کے المیے اور تلخیاں بعض اوقات، صاحبِ حیثیت لوگوں کو بھی تہی دست بنادیتی ہے، ایسے لوگ اپنی’’سفید پوشی‘‘ کے بھرم میں کسی سے سوال کرنے کے روادار بھی نہیں ہوتے، ایسے لوگوں کی ضروریات کو بطریق احسن پورا کرنے کی کوشش کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ایسی معاشی کفالت کے لیے اسلام کا نظام زکوٰۃ اور اِنفاق فی سبیل اللہ کے احکام ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل میں اساسی اور کلیدی وجود رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ خُذْ مِنْ اَمْواَلِھِم صَدَ قَۃً تُطَھِرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھا (التوبہ103)وصول کیجیے ان کے مالوں سے صدقہ تاکہ آپ پاک کریں انہیں اور بابرکت فرمائیںانہیں اس ذریعے سے ۔ سورۃ المومِنون میں فلاح و کامرانی کے جن ضابطوں کا ذکر ہے ، ان میں زکوٰۃ کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس حوالے سے فلاح پانیوالے مومنین کے لیے ، فرمایا گیا کہ فلاح پانے والے وہ ہیں جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔حضرت ابو ھریرہؓ سے روایت ہے کہ جو شخص بھی کسی پاک چیز کو صدقہ کرتا ہے ، اوراللہ، پاک چیز کے علاوہ کسی اور چیز کو قبول نہیں فرماتا ، تو اللہ اس (صدقہ کی ہوئی چیز )کو اپنے ہاتھ سے لیتا ہے، خواہ وہ ایک کجھو ر ہے ، پھر وہ کھجور رحمن کے ہاتھ میں بڑھتی رہتی ہے، حتی کہ وہ پہاڑ سے بھی بڑی ہوجاتی ہے، جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے یا اسکے بچھڑے کو بڑھاتا اور پالتا رہتا ہے۔ ترمذی کے مطابق :حتی کہ ایک لقمہ پہاڑ جتنا ہوجاتا ہے۔ ارکانِ اسلام میں زکوٰۃ کا حکم۸ہجری کے بعد آیا ، جبکہ مکہ مکرمہ فتح ہوچکا اور مملکت اسلامیہ مسلسل غزوات کے اضطراب سے قدرے محفوظ ہوگئی، یہ موقعہ تھا کہ دنیا کو فلاحی ریاست کے ابدی ضابطوں سے روشنا س کروادیا جائے۔ چنانچہ اسکے اصو ل و ضع کر کے۔۔ یہ پیغام دے دیا گیا کہ ان اصولوں کی پاسداری ہی سے دنیا میں معاشرتی عظمت اور آخرت میں دائمی نجات اور سرخروئی میسر آئے گی،اور ان اصولوں سے انحراف کرنے والوں کیلیے وعید اور تباہی و بر بادی ہے ۔ قرآن پاک کی سورہ توبہ کی آیت ۳۴ میں حکم ہے۔" وَالِذیْن یَکنِزونَ اَلَذَّھَبَ وَالْفِضَّۃ۔اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اور اسے اللہ تعالی کے راستے میں خرچ نہیں کرتے تو ان کو درد ناک عذاب کی بشارت دے دیںـ۔ یہ عذاب یوں ہوگا کہ وہی سونا ، چاندی گرم کر کے ان صاحبانِ مال کے ماتھوں، پہلوں اور پشتوں پر لگایا جائیگا اور کارکنانِ قدرت ان کو اس سزا سے گزارتے وقت کہیں گے’’یہ ہے جو تم نے جوڑ رکھا تھا اس لیے، بس اپنے جوڑے ہوئے کا ذائقہ چکھو‘‘۔ قرآن مجید کی ان واضح اور دو ٹوک تعلیمات اور نبی ﷺ کے واضح اور روشن احکام کا اثر ہے، مسلمانوں نے زکوٰۃ، صدقات کی ادائیگی کو ہمیشہ مقدم رکھا اور اس فریضے کی ادائیگی سے کبھی بھی اعراض نہ برتا ، سوسائٹی جب ان اصولوں کی تعمیل میں آگے بڑھی تو اس پر رحمتوں کا نزول ہوا۔نبی ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ، بعض قبائل نے یہ خیال کی کہ زکوٰۃ تو ایک خراج تھا، جو نبی کرمﷺ کو ادا کیا جاتاتھا، آپ ﷺ کے بعد ، اب اس کی ادائیگی ضروری نہیں، منکرین زکوٰۃ کی اس باغیانہ روش کا خلفیہ وقت نے سخت نوٹس لیا، حضرت ابوبکرؓ کی مومنانہ بصیرت اور اسلام سے مضبوط وابستگی نے اس نازک مرحلے پر ایسا جرأت مندانہ اور فیصلہ کن کردار ادا کیا کہ اس فرض کی ادائیگی میں قیامت تک کیلئے ابہام اور جھول ختم کردیا۔ آپؓ نے فرمایا ’’ اللہ کی قسم!اگر یہ لوگ مجھ سے اونٹ باندھنے والی ایک رسی ، جو رسول اللہ ﷺ کو ادا کیا کرتے تھے ، بھی روکیں گے ، تو میں ان سے جنگ کر ونگا‘‘۔ اسلام کا ایک منفرد روّیہ اور امتیازی اصول یہ بھی ہے کہ " فِی اَمْوالِھِمْ حَقُّٗ لِلسَّألِلِ وَالْمَحْروم" یعنی ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے۔ یہ ہے وہ عظیم انقلابی فکر، جسکواپنانے کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ مال کمایا کسی نے ہے ۔ محنت کسی اور نے کی ہے، جب دولت حاصل ہوگئی ہے، تو کمانے والا اس سب کو اپنی ہی ملکیت نہ سمجھے بلکہ اس میں سے ایک حصہ نکالنے کا حکم ہے ۔ اسکو نکال کر یہ نہ سمجھو کہ تم نے کوئی احسان کیا ہے ، بلکہ اس یقین کے ساتھ سائل اور محروم کو دوکہ یہ ان کا حق تھا۔