ریاستوں کے تعلقات جذبات پر نہیں باہمی مفادات پر استوار ہوتے ہیں۔ سعودی عرب دنیا کی واحد ریاست ہے جس کے ساتھ مسلمانان عالم کی جذباتی وابستگی ہے۔ پاکستانی قوم کا تو سعودی عرب سے محبت نہیں عشق کا رشتہ ہے۔ یہ مداراتیں یک طرفہ بھی نہیں۔ سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کا معاشی اور سفارتی سہارا بنتا رہا ہے تو پاکستان نے بھی ارض مقدس کے تحفظ کے عزم کا ہمیشہ اعادہ ہی نہیں ،عملی مظاہرہ بھی کیا ہے۔ دونوں ممالک کے مضبوط تعلقات کی سات دہائیوں پر مبنی تاریخ ہے مگر پھر یکایک کیا ہوا کہ بقول فیض ’’ ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد ‘‘کا معاملہ سامنے آیا۔ پاکستان نے 5اگست کو یوم استحصال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تو ایک روز پہلے وزارت خارجہ کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر قومی قیادت کو اعتماد میں لینے کے لئے ایک بریفنگ کا اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان کی چھوٹی بڑی جماعتوں کی قیادت کو مدعو کیا گیا۔ معاملہ کیونکہ قومی سلامتی کا تھا اس لئے بریفنگ کا اہتمام بھلے ہی وزارت خارجہ نے کیا تھا مگر پاک فوج اور آئی ایس آئی کا تعاون اور ان پٹ بھی اہم تھی۔5اگست کو وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں شاہرائے سری نگر کی ایک تقریب میں دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے کشمیر کے حوالے سے سعودی عرب کی کشمیریوں کے بجائے بھارت کو ترجیح دینے اور او آئی سی کا اجلاس بلانے میں ہچکچاہٹ پر کہا کہ اگر سعودی عرب او آئی سی کا اجلاس نہیں بلاتا تو پاکستان بلائے گا۔ وزیر خارجہ نے ملائشیا کانفرنس کابے وقت اور غیر ضروری تذکرہ کر کے سیاسی اور سماجی حلقوں کے لئے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ملائشیا کانفرنس میں عدم شرکت کے باوجود بھی سعودی حکام پاکستان سے ناراض ہیں۔ معاشی بحران سے نکالنے کے لئے سعودی عرب نے جو تین ارب ڈالر پاکستان کے اکائونٹ میں رکھوائے گئے تھے وہ ایک سال پہلے ہی واپس مانگ لئے گئے اور یہی وزیر خارجہ کے رخ پھیرنے کی وجہ ہے۔ ایک حلقے کے مطابق سعودی شاہی خاندان کی آئل کمپنی آرامکو بھارت میں 100بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے اس لئے سعودب عرب کشمیریوں پر بھارت کو ترجیح دے رہا ہے، جتنے منہ اتنی باتیں۔ اس سے انکار نہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں پہلے سی گرم جوشی نہیں رہی مگر اس سرد مہری کی وجہ صرف بھارت میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری ہے نا ہی پاکستان کا ترکی اور ملائشیا کے ساتھ مل کر مضبوط اسلامی بلاک بنانے میں کردار۔ مذکورہ عوامل جواز تو ہو سکتے ہیں وجہ عالمی منظر نامے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہی ہیں۔ صرف سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ہی میں تغیر نہیں بلکہ یہ ارتعاش دنیا بھر میں محسوس کیا جا رہاہے ۔ چین اور امریکہ میں سرد جنگ، معاشی جنگ کے بعد سفارتی جنگ میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ معروف دانشور اور کالم نگار رانا محبوب اختر کے اس جملے کو قابل قبول بنا کر بھی پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں سرد مہری کو سمجھا جا سکتاہے۔رانا صاحب کے مطابق ماضی میں پاکستان سعودی عرب کے زیر اثر اور سعودی عرب امریکہ کے زیر اثر رہا ہے۔ چین کا عالمی منظر نامے میں ابھرنا اور پاکستان کے ساتھ سٹریٹیجک شراکت داری بالخصوص سی پیک عالمی سیاسی منظر نامے میں جوہری تبدیلیوں کی وجہ بن رہا ہے۔ امریکہ نے پہلے پاکستان کو سی پیک منصوبے سے باز رکھنے کے لئے معاشی ترغیبات دیں جب بات نہ بنی اور پاکستان نے سی پیک منصوبوں کی تکمیل کی رفتار تیز کی توپہلے بھارت کو سٹریٹجک پارٹنر بنا کر دھمکایا گیا جب دھونس سے کام نہ چلا تو اطلاعات کے مطابق کشمیر کا مسئلہ حل کروانے کا لالی پاپ دیا گیا جب امریکہ پاکستان کے ساتھ یہ نفسیاتی کھیل کھیل رہا تھا اس وقت چین بھارت کے گرد نہ صرف وائر بنا رہا تھا بلکہ خطہ میں امریکہ کے سٹریٹجک پارٹنر بھارت کو تنہا بھی کر رہا تھا ۔بھارت اور نیپال کے تعلقات پاکستان اور سعودی عرب سے کم جذباتی اور ثقافتی نہ تھے مگر چین نے ہمالیہ کے پہاڑوں کو چیر کر نیپال کی سمندری حدود تک رسائی ممکن بنانے کا وعدہ کر کے نیپال کو بھارت سے دور کیا، چین چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کر کے امریکہ کو خطے سے بے دخل اور بھارت کوتنہائی کا شکار کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ چین کی اس حکمت عملی کا کمال یہ ہے کہ اس سے خطہ چین کی بالادستی کے بجائے تمام ممالک کی ترقی اور خوشحالی اور مستقبل سے وابستہ ہونے جا رہا ہے۔ یہ خطہ کے تمام ممالک کے لئے ون ون کی پوزیشن ہو گی جس کے ثمرات چین کی کوششوں سے پاکستان بنگلہ دیش کے تعلقات میں گرم جوشی کی صورت میں برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ فیض نے سقوط ڈھاکہ کا دکھ ان الفاظ میں بیان کیا تھا: کب نظر آئے گی بے داغ سبزے کی بہار خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد آج پچاس برساتوں کے بعد اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کے بیچ بے داغ سبزے کی بہار نظر آنے کی امید بنی ہے تو یہ برسات بھی چین کی ہی مرہون منت ہے۔ چین کی خاموش ڈپلومیسی اور ون روڈ ون بیلٹ انیشیٹو سے خطے سے امریکہ کے بے دخل ہونے اور بھارت کی تنہائی کے آثار پیدا ہوئے ہیں تو اس کی وجہ بھی پاکستان چین سٹرٹیجک شراکت داری اور سی پیک ہے ۔امریکہ سعودی عرب کو ایران کے خوف کا اسیر بنا کر اس خوف کو پاکستان اور سی پیک کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تصادم روکنے میں اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا اگر ایسا ہے تو شاہرائے سری نگر پر وزیر خارجہ کے عوامی سطح پر سعودی عرب سے شکوے کی منطق سمجھ سے باہر ہے۔ پاکستان ایران کے حوالے سے خوف کو کم کر کے سعودی عرب کو امریکہ کے دبائو سے کافی حد تک آزاد کر سکتا ہے اس نیک کام میں چین اور روس کا تعاون بھی بآسائی میسر آ سکتا ہے۔ بہتر ہوتا وزیر خارجہ ڈپلومیٹک ایشوز پر عوامی جلسوں میں بات کرنے کے بجائے یہ جنگ سفارتی محاذ پر لڑتے۔ اس حساس معاملے میں ذرا سی چوک پاکستان کو ترقی سے کوسوں دور لے جا سکتی ہے۔ ابھی تو مسلم لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے سعودی عرب سے معافی مانگنے کی بات کی ہے بدقسمتی سے پاکستان میں ایران اور سعودی عرب دونوں کی مضبوط لابیاں موجود ہیںاگر بات بڑھتی ہے تو سیاسی ایشوز کو مذہبی معاملہ بننے میں دیر نہیں لگے گی اور پاکستان کو اندرونی طور پر دبائو اور خارجی محاذ پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سعودی عرب پہلے ہی ملائشیا کانفرنس کے دوران 15لاکھ پاکستان کو سعودی عرب سے نکالنے اور معاشی امداد بند کرنے کی بات کر چکا ہے ذرا سی بے احتیاطی متحدہ عرب امارات کو سعودی عرب کا ہمنوا بنا سکتی ہے۔ اس طرح 25لاکھ پاکستانیوں کی وطن واپسی سے خطیر زرمبادلہ میں کمی کے ساتھ بے روزگاری کا طوفان معاشی اور معاشرتی مسائل کی وجہ بن سکتا ہے پاکستان کو یہ جنگ چومکھی بیان بازیوں سے نہیں خاموش ڈپلومیسی اور محتاط رویے سے لڑنا ہے۔ ایسی حکمت عملی سے کہ امریکہ اور بھارت کے سانپ بھی مر جائیں اور سعودی عرب کی لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔