آسمان پر سفید بادلوں کی چہل پہل کی اوٹ میں کالے بادل مست جوانی کے ساتھ گرج رہے ہیں ،قوس قزح نے آسمان پر رنگ بکھیر دیئے ہیں، بجلی کی چمک نے دلوں میں چمک اور آنکھوں میں چشمک پیدا کر دی ہے ۔ موسم سہانا اور خوشگوار ہو گیا ہے ، باغوں میں پپہیے اور بلبلیں بول رہی ہیں ، کوئل کی سماعتوں کو مسحور کر دیا ہے ۔ جی ہاں ! یہ ساون ہے ۔ ساون اور آم کا ایک دوسرے سے صدیوں کا ساتھ ہے ، ساون کی سہانی رُت آئے تو دیہات میں رہنے والے بچوں میں نوجوانوں جیسی ترنگ پیدا ہو جاتی ہے اور نوجوانوں کو اپنی جوانی کئی گنا بڑھتی معلوم ہوتی ہے اوربوڑھوں کے جذبے بھی جوان ہو جاتے ہیں۔ سرائیکی زبان میں آموں کی دعوت کو ’’ ساونی ‘‘ کہتے ہیں ۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ باغوں میں جھولے ڈلتے تھے ، سکھیاں آم ، انار‘ جامن اور کھجور کھانے کے ساتھ ساتھ ملکر سہرے گاتیں ، اسی طرح نوجوان ملکر باغوں میں جھولے جھولتے ،سرائیکی میں جھولے کو پینگھ کہتے ہیں۔ ’’ پینگھ ‘‘ رچانے اور ملکر ’’ گاون ‘‘ گاتے ۔سرائیکی گیتوں پر سرائیکی جھومر ہوتی اور یہ جھمر کئی گھنٹوں تک جاری رہتی۔ ڈھول کی لے کے ساتھ ساتھ جھومر کے انداز اور رفتار میںبھی تیزی آ جاتی ، اس رقص کو سرائیکی میں ’’کھڑی جھومر ، بلہاویں جھومر، پھیرویں جھومر، ہک تاڑی ، ڈٖو تاڑی، ترائے تاڑی جھمر ‘‘ اور بہت سے دوسرے نام دیئے جاتے ہیں ۔ ناموں کی طرح جھومر کے انداز بھی الگ الگ ہیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ‘ساون کے شروع ہوتے ہی ساری بستی کے بچے گھروں سے نکل آتے ، ان بچوں میں ایک کو ملنگ بناتے ، ان کے چہرے پر کالک ملتے ، اس کے کپڑے پھاڑ دیتے ، سب گداگر اور فقیر بن کر گھر گھر جاتے ،دانے اکٹھے کرتے‘ اس کا ’’بھت ‘‘پکاتے اور بچوں کے سرائیکی دعائیہ گیت ’’ اللہ سئیں آ مینہ وسا، نکے بٖالاں دی دعا‘‘ کورس کی شکل میں گاتے ۔ بارش ہو جاتی تو چھوٹے بڑے سب گھروں سے نکل آتے۔ پھر اچھی آواز والے نوجوان بارش کے پانی میں نہاتے ہوئے خواجہ فرید کی کافی ’’ آئے مست ڈیہاڑے ساون دے ، واہ ساون دے من بھاون دے ‘‘ گاتے ۔ یہ کافی ختم ہوتی تو دوسری کافی ’’ روہی لگڑی ہے ساونی ، ترت والا ہوت مہاراں ‘‘ کا مطلع اٹھا لیتے ۔ ابھی یہ کافی ختم ہوتی تو ’’ ساون مینگھ ملہاراں ،ترس پووی پنل آ موڑ مہاراں ‘‘ شروع کر دیتے ۔ بچپن کا وہ وقت کیا ہی اچھا تھا اور وہ کیا ہی سہانی گھڑیاں تھیں ۔ ان ساعتوں اور گزرے ہوئے لمحات کو یاد کر کے سرائیکی میں ’’ یاد آوم یار دے رلڑے ، نت پووم کروپ کللڑے ‘‘ یا پھر اردو میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’ یاد ماضی عذاب ہے یا رب ، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا ‘‘ ہاں! تو میں خواجہ فرید کا ذکر کر رہا تھا اور بتا رہا تھا کہ خواجہ فرید کی شاعری کا مطالعہ کریں تو اس میں موسموں اور مہینوں کے ضمن میں سب سے زیادہ ذکر ساون اور ساونی کا ہے ۔ خواجہ فرید کو ساون سے عشق تھا اور یہ بھی اتفاق ہے کہ بکرمی کیلنڈر کے مطابق آپ کا وصال بھی 10ساون کو ہوا۔ وسیب کے لوگ اپنی زبان کے محسن خواجہ فرید کا عرس ، قمری عیسوی اور بکرمی حوالے سے سال میں تین مرتبہ کریں تو یہ مضائقے والی بات نہیں۔ سرائیکی زبان کے عظیم شاعر حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کے کلام میں جہاں ساون کا ذکر ہے وہاں ان کی نجی زندگی سے ’’ آم کی ساونی ‘‘ کے حوالے بھی ملتے ہیں ۔ فریدیات کے ماہر مولانا نور احمد خان فریدی لکھتے ہیں کہ خواجہ فرید ساون کے مہینے میں دریائے سندھ کے کنارے چاچڑاں میں ’’ ساونی ‘‘ کا اہتمام کرتے تھے اور آموں کے ٹوکروں کے ساتھ معہ مریدین و احباب ’’ ساونی ‘‘ مناتے ۔ مولانا نور احمد فریدی یہ بھی لکھتے ہیں کہ کسی دریا کے کنارے کی بجائے ’’ ڈھنڈ ‘‘ بھی ساونْی کا اہتمام کیا جاتا ۔ ڈھنڈ سرائیکی لفظ ہے اور ڈھنڈ سرائیکی میں پانی ذخیرہ کرنے کی جگہ ، تالاب یا آج کی اصطلاح میں ڈیم کو کہتے ہیں ، فاٹا میں جہاں دریائے سندھ نکلتا ہے ، اس جگہ کا نام بھی ’’ مہو ڈھنڈ ‘‘ ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرائیکی صرف سرائیکی وسیب ہی نہیں پورے پاکستان تک اثرات رکھتی ہے اور وادی سندھ کی اصل ہے ۔ بی بی سی کے عالمی شہرت یافتہ براڈ کاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی جنہوں نے دریائے سندھ کے آغاز سے اس کے اختتام تک کا سفر کیا، اپنی کتاب شیر دریا میں لکھتے ہیں کہ دریائے سندھ جہاں سے شروع ہوتا ہے اور جہاں (ٹھٹھہ ، بدین کے مقام پر ) سمندر میں گرتا ہے کے دونوں کناروں کی زبان سرائیکی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سرائیکی وسیب کے لوگوں کو اپنی تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی شناخت ملے تاکہ وہ حقیقی معنوں میں عیدیں ، ساونڑیاں اور دوسری خوشیاں منا سکیں۔ اردو شاعری آموں کی تعریف سے بھری پڑی ہے ، کیا سرائیکی شاعری میں بھی اس کا تذکرہ ہے ؟ جب ہم دیکھتے ہیں کہ آم کے خطے کی زبان میں ہونے والی شاعری اردو کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے ، فرق اتنا ہے کہ سرائیکی شاعری کو اظہار کا موقع نہیں ملا، آئیے اس بارے دیکھتے ہیں کہ معروف سرائیکی شاعر مرحوم دلنور نور پوری نے کیا کہا :۔ ساونی یار مناون جلوں ۔ ہیڈ پنجند تے دھاون جلوں سال پِچھوں آ ساون ویندے۔ ساونی لوک مناون ویندے پِڑ تے جھمراں پاون ویندے ۔ حصہ یار گناون جلوں ساونی یار مناون جلوں ۔ ہیڈ پنجند تے دھاون جلوں سرائیکی کے ایک اور معروف کلاسیکل شاعر یتیم جتوئی کی کافی بہت مشہور ہے ، کافی میں جہاں محبو ب سے شکوہ ہے وہاں وسیب کی روائتی تقریب ’’ ساونی ‘‘ کا ذکر دلکش انداز میں موجود ہے :۔ یاری نہ لاونی تھئی لوکی کھلاونی تھئی مد ساون گذر گئی ہک ڈینہ نہ ساونی تھئی