عجیب دِن ہیں،بے بسی کا گِدھ ہمہ وقت ٹھونگے مارتارہتا ہے۔بے بسی نے خوف کو جنم دیا ہے،خوف بھی،وسوسوں میں لپٹا ہوا۔بے بسی میں وسوسے ہوتے ہیں اور وسوسے انسان کے دُشمن ہیں۔وباء کا اثرپھیلتا جارہا ہے،یہاںبہ ظاہر سال بھر پہلے وباء پھوٹی ،مگر بے بسی اور خوف سے تو یوں معلوم پڑتا ہے کہ اس ملک پر تہتر برس سے وبا کا قبضہ ہے۔ہرلحظہ بے بسی اور خوف میں لپٹا ہوا۔یہ عجیب دِن ہر ایک کے لیے نہیں ،یہ محض بے بس لوگوں کے لیے ہیں،جن کی کوئی شناخت ہے ،رائے نہ سماجی حیثیت۔جن کا ہونا،نہ ہونااورکہنا ،نہ کہنا برابر۔مجھے تو کبھی کبھی اپنا آپ ڈسٹ بِن میں پڑا محسوس ہوتا ہے۔ڈسٹ بِن میں پیداہوئے ،ڈسٹ بن میں رہے اور ڈسٹ بِن میں پڑے پڑے ایک لمحہ آئے گا کہ دَم گھٹ جائے گا۔یہاں زندگی اُنھی کی ہے ،جو برستی بارش اور کڑی دھوپ میں اپنی چھتری خود نہیں پکڑتے۔ایسوں کے ہونے اور کہنے کی اہمیت۔ویکسین لگانے والوں کی ٹیم آتی ہے ،گھروں میں لگاکرچلی جاتی ہے۔اگر میرے جیسے اس پر اعتراض کریں تو یہ پریس کانفرنس کرکے اپنے ’’ہونے‘‘کی دھمکی دیتے ہیں۔حکومتی سطح پر ملک میں منگوائی جانے والی ویکسین کی ’’رفتار اورمقدار ‘‘یہاں انسانی زندگی کی اہمیت کی کہانی احسن انداز سے بیان کرتی پائی جارہی ہے۔نجی کمپنیوں کے باہر اس ملک کے ’’مفید‘‘لوگوں کی قطارکروڑوں بے بس لوگوں کا منہ چڑاتی ہے۔ بے بس لوگ جب اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو خالی جیبیں ہاتھ کاٹ لیتی ہیں۔اُس سمے بے بسی کے گِدھ کے ٹھونگوں کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ بے بسی کی خاردار جھاڑیوں کا بیج حکومتی ایوانوں سے ہرسُو بکھیرا جاتا ہے۔یہ جھاڑیاں ہمارے گھروں کے چھوٹے چھوٹے صحنوں ،گندی گلیوں اور خالی جگہوں پر یہاں وہاں اُگتی چلی جاتی ہیں۔وزیرِ اعظم جو خود کو اس قوم کا سب سے بڑا مسیحا کہتے ہیں ،کے مطابق فحاشی پھیلے گی تو جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوگا،خواتین پردہ کریں تو اس برائی کو کسی حد تک روکا جاسکتا ہے،نیز یہ کہ قانون کس کس کو پکڑے گا،معاشرے کو ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ملک کا سب سے بڑا عہدہ رکھنے والے شخص کے ایسے خیالات نے بے بسی میں مزید اضافہ کیا ہے۔یہاں ساری ذمہ داری خواتین پر ڈالی گئی یا پھر اُن مردوں پر جو اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں رکھتے ،پھر جب وہ ’’بے پردگی‘‘دیکھتے ہیں تو اپنا کنٹرول کھوبیٹھتے ہیں۔یہ اس معاشرے کی (جس معاشرے کو وزیرِ اعظم کی جانب سے ذمہ داری کا احساس دلایا جارہاہے)توہین کے مترادف ہے۔یہاں کے مردوں اور عورتوں کی توہین ہے۔ایک لحاظ سے عورتوں سے زیادہ مردوں کی توہین ہے کہ بے پردگی دیکھ کر کنٹرول کھوبیٹھتے ہیں۔نیز یہ کہ قانون اتنا طاقت ور نہیں کہ کنٹرول کھودینے والوں کی گرفت کرسکے۔واقعی ’’قانون ‘‘نے متعدد واقعات میں اس کا ثبوت بھی دیا ہے کہ وہ ہر ایک کی گرفت نہیں کرسکتا۔قانون تو بے بس لوگوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہوتا ہے۔ایک سوشل میڈیا کے دوست سبطِ حسن گیلانی نے گذشتہ روز پوسٹ لگائی کہ’’ میرے ایک عزیز اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں کورونا کی وجہ سے ایڈمٹ ہیں اور ہسپتال انتظامیہ روزانہ کا اس قدر بل بنا کر دے رہی ہے کہ وہ مزید داخل نہیں رہ سکتے،کوئی دوست کسی سرکاری ہسپتال میں داخل کروانے کے لیے رہنمائی کرسکتا ہے؟‘‘اُن کی ایک دوسری پوسٹ کے مطابق’’مذکورہ ہسپتال کورونا مریض کا روزانہ بغیر وینٹی لیٹر کے ایک لاکھ تیس ہزار اور وینٹی لیٹر کے ساتھ دولاکھ کا بِل بنا کر دیتا ہے۔مزید یہ کہ میرے دوستوں میں سے ایک نوجوان اس ہسپتال میں ایڈمٹ رہا ،زندہ نہ رہ پایا ،ہسپتال نے اَسی لاکھ کا بِل بنا کر نعش حوالے کی‘‘یہاں اس ملک کے عام آدمی کے ایک ایک لفظ میں بے بسی بین کرتی پائی جاتی ہے۔جبکہ ہمارے وزیرِ اعظم صاحب فرماتے ہیں کہ معاشرے فحاشی سے برباد ہوتے ہیں اور فحاشی کو ختم کرنے کے لیے اُنھیں رجب طیب اردوان کو کہہ کر ’’ارطغرل‘‘ منگوانا پڑا۔وباکے پہلے اور دوسرے وار کے دوران کم ازکم یہ گھبراہٹ نہیں ہوتی تھی کہ بچوں کا کیابنے گا،وبا کا تیسرا وار بچوں پر بھی ہورہا ہے ،بچوں کے لیے ویکسین ابھی تیار نہیں ہوئی ،ڈاکٹرز حضرات کہہ رہے ہیں کہ جو والدین اپنے بچوں کو وباسے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ،وہ خود کو جلد ازجلد ویکسین لگوائیں۔میرے جیسے عام انسان جو کہ غلطی سے والدین بھی ہیں ،کہاں سے ویکسین لگوائیں؟حکومتی ویکسین کا انتظار کھینچیں؟یا پرائیویٹ سطح پر لگائی جانے والی مہنگی ویکسین کا بندوبست کریں؟مہنگی ویکسین کیسے لگوائیں،پیسہ کہاں سے لائیں ؟معذرت!یہ تو آپ(حکومت)کا مسئلہ نہیں ،آپ نے تو پہلے ہی ہمارے اخلاق درست کرنے کے لیے رجب طیب اردوان کو ذاتی سطح پر کہہ کر ’’ارطغرل ‘‘منگواکر یہاں چلوایا۔آپ ویکسین کے لیے تو کسی کو نہیں کہہ سکتے نا!ویکسین کے لیے تو شاید آپ کے پاس پیسے اور وقت ہی نہیں۔مزید یہ کہ فحاشی پھیلانے والوں کو ویکسین لگنا کوئی ضروری بھی تو نہیں۔ عجیب دِن ہیں کہیں سے اُمیداور اعتماد کا ٹھنڈا جھونکا نہیں آرہا۔وبا کا پھیلائو جاری ہے،بچے تک متاثرہورہے ہیں ،لوگوں کی بڑی تعداد ماسک لگانے کا تردّد تک نہیں کرتی،قریب آکر زور زور سے کھانس کربتائے گی کہ اُس کو کورونا ہوچکا ہے ۔نجی ہسپتال بے رحم ٹھکانے بن چکے ہیں،سرکاری ہسپتالوں میں جگہ نہیں رہی ،ویکسین کی رفتار اور مقدار تشویش میں مبتلا کررہی ہے ،نجی سطح پر منگوائی گئی ویکسین تک عام آدمی کی رسائی نہیں۔ایسے میں کہاں جائیں؟ناصر کاظمی کی یاد آتی ہے:شہر سنسنان ہے کِدھر جائیں؍خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں؍رین اندھیری ہے اور کنارہ دور؍چاندنکلے تو پار اُترجائیں۔ یہ چاند معلوم نہیں کب نکلے گااور کب ہم پاراُترنے کے قابل ہوں گے؟ہم اس سیارے کے جس حصے پر رہتے ہیں ،اس کے اُوپر جو آسمان کی چادر تنی ہوئی ہے ،وہاں شاید چاند طلوع نہیں ہوتا۔