وزیر اعظم عمران خان نے ہوسٹن میں اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ کے کنونشن سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں لیکن نائن الیون کے بعد ہر واقعہ کو اسلام سے جوڑا گیا۔ اس چلن کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو بھی دہشت گردی قراردے کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آزادی اظہار کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مسلمان تمام انبیاء کرام کا صدق دل سے احترام کرتے ہیں لیکن یورپ میں مسلمانوں کی مساجد پر حملے ہوتے ہیں‘ انہیں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کسی ایک شخص کے عمل کو پوری کمیونٹی سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں قائد اعظم کی دور اندیشی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کے بھارت پر انتہا پسندانہ نظریہ قابض ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم کے خطاب میں مقبوضہ کشمیر میں 28روزہ کرفیو سے کشمیریوں کو درپیش مشکلات اور بھارتی فوج کے مظالم کا بھر پور ذکر تھا۔ وزیر اعظم نے اپنی ایک گزشتہ تقریر میں اہل کشمیر سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیر کے سفیر کے طور پر جدوجہد کریں گے۔ پانچ اگست کو بھارت کی انتہا پسند حکومت نے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین میں ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیا۔ اس اقدام سے قبل بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں پہلے سے موجود ساتھ لاکھ فوج کی کمک کے لئے مزید ایک لاکھ فوجی تعینات کر دیے۔ پورے مقبوضہ کشمیر میں 28روز سے کرفیو نافذ ہے۔ تمام شہری اور بنیادی حقوق معطل ہیں۔ بھارت نے مقامی اہلکاروں سے اس خدشے سے ہتھیار واپس لے لئے ہیں کہ کہیں وہ بغاوت نہ کر دیں۔ نوجوانوں کو گھروں سے اٹھایا جا رہا ہے‘ خواتین کی بے حرمتی کر کے انہیں قتل کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا ہزارہا دشواریوں کے باوجود ایسی اطلاعات سامنے لا رہا ہے جن میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم کا علم ہوتا ہے۔ پاکستان کے لئے یہ صورت حال تشویش کا باعث ہے۔ عالمی برادری کو کشمیریوں پر ہونے والے مظالم سے آگاہ کرنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے ایک موثر مہم شروع کی ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مختلف ممالک کے سربراہوں اور وزرائے خارجہ سے ٹیلی فون پر رابطے کر رہے ہیں لگ بھگ ہر روز وزیر اعظم کی جانب سے ٹویٹس جاری ہو رہے ہیں اور کسی نہ کسی تقریب سے خطاب میں وہ تنازع کشمیر اور کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ کے کنونشن سے خطاب میں وزیر اعظم نے وہ ساری باتیں کہیں جن کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمان نفرت کا سامنا کر رہے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عمر کوٹ میں پاکستان کی ہندو برادری کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جہاں پاکستان میں اقلیتوں کے لئے فراخ دلی کی بات کی وہاں انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ آئندہ چند روز میں دنیا کے کئی شہروں اور اہم اجلاسوں میں کشمیر کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لندن کے ہائیڈ پارک میں بھارت کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ ہونے والا ہے۔ اسی طرح لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے بھی احتجاج ہو گا جس میںبرطانوی قانون ساز اور انسانی حقوق کے اہم رہنما شرکت کریں گے۔ جنیوا میں کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے کے لئے خود وزیر خارجہ روانہ ہو رہے ہیں۔27ستمبر کو وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں۔ ان کے اس خطاب میں عالمی برادری سے تنازع کشمیر حل کرانے کے لئے کردار ادا کرنے کا کہا جائے گا۔ پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت جانتی ہے کہ بھارت کی جانب سے کسی طرح کی جارحیت کے جواب میں پاکستانی قوم اور مسلح افواج جواب دینے کے لئے تیار ہیں مگر بین الاقوامی نظام جنگوں کی مخالفت کرتا ہے۔ دنیا کے مہذب اور باوقار ملک لڑائی کی بجائے تنازعات کو بات چیت سے طے کرنے کی بات کرتے ہیں اس لئے پاکستان ایسی ہرکوشش کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہے جو تنازع کشمیر کا منصفانہ حل پیش کر سکے۔ بی جے پی حکومت ایک تشدد پسند سوچ کا چہرہ ہے۔ عالمی برادری نسلی‘ لسانی اور مذہبی تشدد کو بین الاقوامی امن کے لئے خطرہ قرار دے چکی ہے۔ یورپ نے ایسے مسائل کو عرصہ ہوا طے کر لیا۔ مسلمان کئی عشروں سے بھارت اور عالمی طاقتوں کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ طرفہ تماشہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلمانوں کی سیاسی وحدت خلافت کو منتشر کرکے انہیں کمزور کیا گیا۔ مغربی ماہرین کی علمی بددیانتی ہے کہ وہ دوسری جنگ عظیم کو صرف یہودیوں اور ہٹلر کے تعلقات کے تناظر میں زیر بحث لاتے ہیں۔ فاتح اتحادیوں نے مسلمانوں کے نظریات‘ عقائد اور سیاسی قوت کو ہمیشہ نقصان پہنچایا۔ فلسطین اور کشمیر کے تنازعات طے نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ دنیا کو مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی تشویش نہیں۔ جہاد کو دہشت گردی کہا جاتاہے مگر تامل گوریلے خودکش حملے کریں۔ آر ایس ایس کے غنڈے سرعام مسلمانوں کو قتل کریں۔امریکہ اور یورپ کی مساجد پر حملے ہوں تو ان کے لئے دہشت گردی کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ وزیراعظم کا خطاب امریکہ میںمقیم مسلمانوں کو تنازع کشمیر سے متعلق تازہ صورت حال سے آگاہی اور انہیں مظلوم کشمیریوں کے لئے آواز بلند کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔