معزز قارئین!۔ 1960ء میں ایک پنجابی فلم میں گلوکار اور ہیرو مرحوم عنایت حسین بھٹی نے ایک گیت گایا تھا جس کا مکھڑا (مطلع) تھا۔ دِل دَین نُوں کسے نُوں نذرانہ، تے پِھراں مَیں بہانہ لبھّدا! کرکٹر اور بھارتی پنجاب کے وزیر بلدیات ، سیاحت و ثقافت نوجیت سنگھ سِدّھُو کے توسط سے ہمارے وزیراعظم عمران خان نیازی کو بھارت کو دِل دینے کا بہانہ مِل گیا۔ اُنہوں نے (پاکستان کے ازلی دشمن ) بھارت کے ساتھ "Franco- German Union" کی طرز پر "Pak-India Union" بنانے کی خواہش کا اظہار کِیا ہے؟۔وزیراعظم عمران خان سے دوستی اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے جپّھی ڈال کر بھارتی پنجاب کے وزیر سیاحت و ثقافت نے بھارت سمیت دُنیا کے مختلف ملکوں میں آباد سِکھوں کے لئے ’’ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان‘‘ سے ایک ایسی "Favour" (خاص رعایت) حاصل کرلی ہے جو اُنہیں 71 سال میں نہیں مل سکی؟ ۔ 28 نومبر کو وزیراعظم جناب عمران خان نے نارووال میں کرتار پور راہداری کا سنگ رکھا۔ اِس سے پہلے کئی دِنوں تک وفاق اور پاک پنجاب کے وزراء سِکھوں کا ’’ ہمارے سِکھ بھائی‘‘ کہہ کر تذکرہ کرتے رہے اور ٹیپ کا مصرع تھا کہ ’’وزیراعظم عمران خان نے 12 کروڑ سِکھوں کے دِل جیت لئے ہیں‘۔ کیا ہی اچھا ہوتاکہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کو ’’دِل جیت خان‘‘ کا خطاب بھی دے دِیا جاتا؟۔ 26 نومبر کو بھارتی صدر "Mr. Venkaiah Naidu" نے ’’کرتار پور راہداری ‘‘ کا سنگ بنیاد رکھا اور دوسرے دِن بعض اخبارات میں خبر شائع ہُوئی کہ ’’بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن( ر) امریندر سنگھ نے ( بھارتی سِکھوں کی طرف سے ) تجویز پیش کی تھی کہ ، گُرو نانک جی کے ’’ مرن استھان‘‘ کرتار پور جانے والے بھارتی سِکھوں پر پاسپورٹ اور ویزا کی پابندی ختم کردِی جائے‘‘۔ معزز قارئین!۔ اِس پر مَیں خُوش ہُوا تھا کہ ’’ کیا جب پاکستان سے ’’مسلمان یاتری‘‘اجمیر شریف میں خواجہ غریب نواز خواجہ معین اُلدّین چشتیؒ ،دہلی میں حضرت خواجہ نظام اُلدّین اولیاؒ سمیت 22 خواجگان اور سرہند شریف میں امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی درگاہوں میں حاضری دینے جائیں گے تو کیا اُنہیں بھی پاسپورٹ اور ویزا کی ضرورت نہیں ہوگی؟ لیکن، پھر پتہ چلا کہ ’’ حکومتِ پاکستان بھارتی پاسپورٹ بردار سِکھوں کو محض ایک پرمٹؔ پر کرتار پور یا دوسرے مقدس مقامات پر پاکستان آنے کی اجازت ہوگی۔ 28 نومبر کو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ’’ کرتار پور راہداری‘‘ کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں جنرل قمر جاوید باجوہ بھی موجود تھے۔ اُنہوں نے اپنے پیغام میں کہاکہ ’’ امن اِس خطے ( پاک بھارت کی حدود) کی ضرورت لیکن، سرحدوں ( پاک بھارت سرحدوں) پر خاردارباڑ لگانے کا مقصد غیر قانونی آمدورفت کو روکنا، تقریب میں ہمارے آرمی چیف سے بھارتی اور پاکستانی سِکھوں نے مصافحہ بھی کِیا۔ صاحبزادہ نور اُلحق قادری معزز قارئین!۔ سِکھوں کے پانچویں گُرو ، گُرو ارجن دیو جی کے حضرت میاں میر قادری لہوریؒ سے دوستانہ تعلقات تھے اور گُرو جی کی درخواست پر ہی حضرت میاں میر صاحبؒ نے 1589ء میں امرتسر میں سِکھوں کی مقدس عبادت گاہ ۔ ہر مندرؔ (Golden Temple) کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔ موجودہ دَور کے 12 کروڑ سِکھ صاحبان خوش قسمت ہیں کہ 28 نومبر کو ’’ کرتار پور راہداری‘‘ کے سنگِ بنیاد کی تقریب میں وزیراعظم عمران خان سے پہلے وفاقی وزیرمذہبی امور ، صاحبزادہ نور اُلحق قادری ؔنے بھی خطاب کِیا۔ قادری ؔصاحب نے اپنے خطاب میں کہاکہ ’’ آج ہم تاریخ کی بہت اہم شخصیت ( گُرو نانک) کی اس یاد گار کی جگہ پر کھڑے ہیں جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال گزارے۔ انہوں نے زندگی بھر توحید ، انسانیت، عظیم اخلاق، خدمت خلق کی بات کی اور اس قوم (شاید ہندوستانی قوم ) کو بقائے باہمی کے اصول بتائے۔ آج بہت بڑا تاریخی اقدام ہونے جارہا ہے ۔ وزیراعظم پاکستان امن کے سفر کا ایک اور سنگ میل عبور کرنے جا رہے ہیں ‘‘۔ قادری ؔصاحب نے کہا کہ ’’ مَیں اِس موقع پر سِدّھُو جی اور ہمارے آرمی چیف کی تاریخی جپھّیؔ کا ذکر نہ کروں تو مناسب نہیں ہوگا، اس طرح کی اور جپھّیاں ؔہوجائیں تو بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ پاکستان اقلیتوں کے لئے محفوظ ملک ہے اور نیا پاکستان ؔبہت ہی محفوظ ترین ملک ہے‘‘۔ وزیر مذہبی امور نے کہا کہ کرتار پور میں موجود گورودوارہ کو سٹیٹ آف دی آرٹ گورودوارہ بنائیں گے ، آج سے ایک سال بعد گورونانک کا 550 واں جنم دن ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے یہ دن شاندار طریقے سے منایا جائے گا‘‘۔ حضرت قائداعظمؒ بھی قادریؔ! معزز قارئین!۔ تحریکِ پاکستان کے نامور کارکن آزاد بن حیدر کی تالیف ’’ آل انڈیا مسلم لیگ (سرسیّد سے قائداعظمؒ تک) کے صفحہ2007 پر لکھا ہے کہ ’’ متحدہ ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے موسم خزاں کے اجلاس کے موقع پر اجلاس سے فارغ ہو کر قائداعظمؒ نے حاجی سر عبداللہ ہارون، مولانا ظفر علی خان ، مولانا سیّد غلام لبیک نیرنگ، مسٹر محمد نعمان اور حاجی عبداُلستار کو، بتایا تھا کہ ’’ میرے آبائو اجداد لوہانہ ؔراجپوت تھے۔ میرے مُورثِ اعلیٰ نے حضرت غوث اُلاعظم شیخ عبداُلقادر جیلانی/ گیلانیؒ کے خاندان کے ایک معزز فرد پِیر سیّد عبداُلرزؔاق ؒ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا‘‘۔ اِس لحاظ سے کیا یہ سِکھ قوم کی بدقسمتی نہیں تھی کہ حضرت قائداعظمؒ قادری ؔنے تو ، قیام پاکستان سے پہلے سِکھ لیڈروں کو پیش کش کی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہو جائیں لیکن ، سِکھ لیڈروں نے یہ پیش کش قبول نہیں کی تھی؟ ۔ تقسیم ہند (تحریک پاکستان ) کے دوران سِکھوں نے ہندوئوں کی دہشت گرد تنظیم راشٹر سویم سیوک سنگھ ( R.S.S.S) کے ساتھ مل کر مشرقی (اب بھارتی) پنجاب میں 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کردِیا تھا اور 55 ہزار مسلمانوں کو اغواء کر کے اُن کی عصمت دری کی تھی۔ عمران خان قادریؔ یا چشتی ؟ معزز قارئین!۔ میانوالی کے خٹک ؔاور نیازی ؔقبائل نے قادریہ اور چشتیہ سلسلہ کے اولیاء کرام ؒکے دستِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا ۔ ممکن ہے عمران خان چشتی ہوں ؟۔1193ء میں سلُطان شہاب اُلدّین غوری دِلّی / اور اجمیر کے ہندو راجا پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر اور بہت سا مال و دولت لے کر خواجہ صاحبؒ کی خدمت میں دو بار حاضر ہُوا تو، خواجہ صاحبؒ نے اُسے حُکم دِیا کہ ’’یہ سارا مال و دولت بلا لحاظ مذہب ومِلّت اجمیر کے غریبوں میں بانٹ دو!‘‘۔ غوری نے ایسا ہی کِیا اور کہا کہ حضور کوئی اور حُکم؟۔ خواجہ صاحبؒ نے فرمایا کہ ’’مقتول پرتھوی راج چوہان کے بیٹے گوبِند راج چوہان کو اجمیر کا حاکم بنا دو!‘‘۔ غوری ؔنے کہا کہ’’ حضور !۔ وہ تو غیر مسلم ہے ؟ ‘‘۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ ’’ فاتح مُسلم قوم کی طرف سے مفتوح ہندو قوم کو یقین دلانا ضروری ہے کہ’’ فاتح قوم ۔ اِنسان دوست ہے!‘‘۔ غوری نے حکم کی تعمیل کی ۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ حضرت قائداعظمؒ نے بھی خواجہ غریب نواز ؒکی تعلیمات کے مطابق ہی قیامِ پاکستان کے بعد ایک ہندو ۔جوگِندر ناتھ منڈل کو پاکستان کا وزیر قانون بنا دِیا تھا ۔ 28 نومبر کی تقریب میں نوجیت سنگھ سِدّھُو ، وزیراعظم عمران خان پر اور عمران خان اپنے دوست نوجیت سنگھ پر ’’ڈُھل ڈُھل پے رہے تھے‘‘۔ عمران خان ،نوجیت سنگھ کو بھارت کے وزیراعظم کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں یا پاک پنجاب میں قومی اسمبلی کے منتخب رُکن اوروزیر کی حیثیت سے ؟۔ 1947ء میں مشرقی (اب )بھارتی پنجاب میں سِکھوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کِیا ؟ اُسے وزیراعظم عمران خان ماضی کی زؔنجیر سمجھ کر توڑنا چاہتے ہیں لیکن ، معزز قارئین!۔ ماضی کی زنجیر تو تاریخ کا حصہ ہوتی ہے ؟ ۔ نوجیت سنگھ سِدّھُو چاہتے ہیں کہ’’ جب بھی کرتار پور کی تاریخ لکھی جائے تو اُس کے صفحہ اوّل پر اُن کے ’’یار دِلدار عمران خان ‘‘ کا نام لکھا جائے ‘‘ لیکن، لندن میں عمران خان کے دونوں بیٹے (22 سالہ ) سلیمان عیسیٰ خان اور(19 سالہ ) قاسم خان کی خواہش تو یہی ہوگی کہ اُن کے والد ِ محترم کا نام پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے؟۔بہرحال وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کے 100 دِن میںیہ ’’کارنامہ ‘‘تو کردِکھایا کہ بھارت سمیت دُنیا بھر کے 12 کروڑ سِکھوں کے لئے تو ، اُن کا’’ نیا پاکستان‘‘ بن گیا ہے ؟۔