26 سال بیت گئے ہیں لیکن ایسے لگتا ہے کل کی بات ہو۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ ہوا ، شام کی کلاسز ہوتی تھیں۔ مسئلہ مگر یہ تھا کہ پہلو میں جنگل اور پہاڑ ہو تو شام کے وقت کون کلاس لے سکتا ہے۔ ڈوبتے سورج کی سرخی جب مارگلہ پر پھیل جاتی تو کلاس روم میں دل بھی ڈوبنے لگتا۔ جیفری چاسر کو پڑھاتے ہوئے ،کلاس میں جب سر نے Love at first Sight پر ’ روشنی ‘ ڈالی تو بریک میں کیفے ٹیریا پر چائے پیتے افتخار نے پوچھا کون کون اس تجربے سے گزرا ہے۔ میں نے کہا اپنے گائوں کو دیکھ دیکھ کر اور اب مارگلہ کو دیکھ کر میں اسی تجربے سے گزرا ہوں۔ پنجاب کے خاصے دور دراز سے آئے کلاس فیلوز میں سے کچھ نے بڑی بے زاری سے میری طرف دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں ہم ’ گلوبلائز‘ ہونے آئے ہیں اور یہ ہمیں مقامی اور دیسی باتیں سنا رہا ہے۔ افتخاراب بھی پاکستان آئے تو ہنستا ہے۔لیکن سچ یہی ہے کہ جاڑے کی ایک صبح جب میں نے ابو جی کا ہاتھ پکڑ کر پانی سے بھرے کینو کے باغ کو دیکھا تھا تو اس باغ سے اورا س زمین سے پیار ہو گیا تھا اور پہلی بار جب مارگلہ کو دیکھا تو دل ہار بیٹھا تھا۔ میرے’ ابو جی‘ کی طرح یہ دونوں جگہیں بھی میری Love at first Sight ہیں۔ کیمپس کے سامنے جنگل تھا اور پہاڑ کے ساتھ ساتھ ایک سڑک اندر جاتی تھی ،جہاں آگے جا کر کویت ہاسٹل تھا۔اس راستے پر کچھ ہٹ بنے ہوئے تھے۔ کلاسز بنک کرتے تو یہ ہٹس ہمیں پناہ مہیا کرتے ۔یہ اپنا ڈیرہ تھے۔ کلاسیں بنک کرنے کے بہانے ہی بہانے تھے۔ برسات میں بادل اتر آتے تھے ، جاڑے میں یہ راستہ دھند سے بھر جاتا تھا، بارش ہوتی تو جنگل سے اٹھتی ز مین کی مہک اپنی طرف بلاتی اور جب کچھ نہ ہوتا تو بندروں کی شرارتیں آواز دیتیں اور ہم دل کی ڈوری سے بندھے چلے جاتے۔ ایک شام کلاس لیتے ہوئے شعبے کے سربراہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا مجھے ڈر ہے کچھ حضرات کی حاضریاں شارٹ ہیں وہ امتحان میں نہیں بیٹھ سکیں گے۔بریک میں وہ نماز پڑھنے چلے گئے۔ افتخار نے ادھر ادھر سے ’ بال پن ‘ پکڑ کر ’ انک میچ‘ کرتے ہوئے حاضریاں پوری کر دیں۔ واپس تشریف لاتے ہی انہوں نے رجسٹر اٹھا کر طلباء کو ان کی حاضریں بتانا شروع کر دیں۔میرے نام پر پہنچے تو حاضریاں تو مقررہ معیار سے زیادہ نکلیں۔ ان کی آنکھوں کی حیرت مجھے آج بھی یاد ہے۔ کبھی وہ رجسٹر کی طرف دیکھتے کبھی میری طرف۔ ان دنوں اسلامی یونیورسٹی میں خاصی تعداد میں غیر ملکی طلباء پڑھتے تھے۔ اور سب ایک ساتھ رہتے تھے۔ یہ بہت بعد میں ہوا کہ جھگڑے شروع ہونے لگے اور غیر ملکی طلباء کے ہاسٹلز الگ کر دیے گئے۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ غیر ملکی طلباء پاکستانیوں کو طعنے دینے لگے تھے کہ ہمارے نام پر تمہیں خیرات ملتی ہے جس سے تم یہ ادارہ چلا رہے ہویعنی تم ہماری خیرات پر پل رہے ہو۔ ہو سکتا ہے یہ طعنہ بے سبب نہ ہو اور یقینا ان کے جذبات بھی مجروح ہوئے ہوں اور وہ جواب آں غزل پر مجبور ہوئے ہوں لیکن نیو کیمپس جب یونیورسٹی شفٹ ہوئی تو ہاسٹل الگ کر دیے گئے۔ ہمارا ایک دوست تھا شیخ ادریس۔آج کل شاید برطانیہ میں ہوتا ہے۔ سیلف میڈ آدمی کی مجھ سے کوئی مثال مانگے تو میں شیخ ادریس کا نام لوں گا۔جتنے اس کے مسائل تھے اتنا ہی وہ خوش مزاج تھا۔ وہ محفل میں موجود ہو تو باتیں کم اور قہقہے زیادہ ہوتے تھے۔ایسے ایسے محاورے اس کے پاس ہوتے تھے کہ آج بھی یاد آتے ہیں تو تنہائی میں قہقہے پھوٹ پڑتے ہیں۔اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ تھری ناٹ تھری ہے ، چل رہی ہو تو سامنے نہیں آنا چاہیے۔ شیخ کو جب کوئی غیر ملکی طالب نظر آتا تو شیخ کی حس مزاح عروج پر پہنچ جاتی۔ اب ظاہر ہے ہر غیر ملکی سے تو اس کی بے تکلفی نہ تھی لیکن جن سے تھی ان کی ناک میں اس نے دم کیا ہو تھا۔ انہیں دیکھتا تو آوا ز لگاتا ’’ اے امت مسلمہ کم ہیئر ، ہیو اے کپ آف ٹی‘‘۔ایک جاڑے کی شام، اس نے’ امت مسلمہ‘ کے پانچ سات دوستوں کو گھیرا ہوا تھا ، محفل آباد تھی اور دھند نے ہر شے کو لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ شیخ صاحب اردو پنجابی کے محاورے سنا سنا کر سوال پوچھ رہے تھے مگر ہر سوال کی آسان شرح یہ تھی کہ یہاں ’’ آم‘‘ لینے آئے ہو ، کسی یورپی ادارے میں کیوں نہیں گئے۔ اپنے دو تین اساتذہ کے قصے مزے لے لے کر سنا نے لگے کہ ان کو آتا جاتا تو ہے کچھ نہیں۔اور ہر واقعے کے بعد ان کی تان یہاں آ کر ٹوٹتی کہ یہ دیکھو یہ امت مسلمہ بھی ان اساتذہ سے پڑھ کر گھر جائے گی تو وہاں کہے گی اماں تیرا پتر فارن کوالیفائڈ ہے۔بل دینے کی باری آئی تو ظاہر خان نے بتایا کہ آپ سب کا بل آپ کے اساتذہ نے دے دیا ہے جو ساتھ والی چارپائی پر ہی بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ہماری اس چھوٹی سی امت مسلمہ میں ایک بنگلہ دیش کا عنایت بنگالی تھا اور ایک سری لنکا کا حسن ، جن کے آگے شیخ بھی بے بس ہو جاتا تھا۔ عنایت بنگالی تو پوری یونیورسٹی کا لاڈلا تھا ، حسن البتہ خاموش طبع تھا۔ شرارتی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر ہر وقت رہتی تھی۔ایک دن شیخ کی محفل جوبن پر تھی۔سامنے سے حسن گزرا۔ شیخ نے آواز لگائی ’’ اے امت مسلمہ کم ہیئر‘‘۔شیخ نے وہی سوال پوچھا کہ یہاں تم چونسہ لینے آئے ہو یا مالدا یاانور رٹول ؟ تمہیں فارن کوالیفائڈ ہونے کے لیے دنیا میں کوئی ڈھنگ کی یونیورسٹی نہیں ملی۔ حسن نے اسی معصومیت سے جواب دیا اور جواب مجھے آج بھی یاد ہے۔اس نے کہا میں ڈگری لینے کب آیا ہوں میں تو یہاں پاکستانیوں سے شادیاں کروں گا اور اب فقہ پڑھنے کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ چار کروں گا۔ سو کین یو ہیلپ می۔یونیورسٹی کی ایک اپنی دنیا ہوتی ہے، لیکن کسی سیر کو یوں سوا سیر ٹکر جائے ، اس کا لطف ہی اور ہوتا ہے۔ پھر کیا ہوا یہ لمبی کہانی ہے خلاصہ یہ ہے کہ پھر امت کو دیکھ کر شیخ نہیں بلکہ شیخ کو دیکھ کر امت آواز لگاتی برادر کین یو ہیلپ می۔ یونیورسٹی سے نکلے تو وقت کی نائو دوستوں کو بہت دور لے گئی۔رابطے ختم ہو گئے۔ کچھ خبر نہ تھی وقت نے کس کو کہاں لے جا کر چھوڑا۔ جن کے بغیر پل نہ گزرتا تھا ان سے ملے سال ہو گئے۔ فیس بک نے پھر ہاتھ تھاما اورپچھلے سال ایک فیس بک گروپ سے سری لنکا کے اس حسن سے رابطہ بحال ہوا ۔ کل رات گئے جب بخار میں تپ رہا تھا وقت گزارنے کے لیے موبائل اٹھایا۔سری لنکا سے حسن کا پیغام فلیش ہو رہا تھا: ’’اے امت مسلمہ ! سارے کا سارا پریانتھا جلا دیا، آنکھ ہی بچا کر رکھ لی ہوتی‘‘۔ جاڑے کی بے رحم رات میں بیٹھا سوچ رہا ہوں حسن کو کیا جواب لکھ بھیجوں؟