بھارت مسلسل افغانستان کے حالات خراب کرنے کیلئے سرگرم عمل ہے۔پاکستان افغانستان میں بدامنی کی وجہ بنے والے اندرونی اوربیرونی عناصر کی باربار نشاندہی کرتا رہا ہے ،بیرونی عناصر سے مراد بھارت ہی ہے۔ بھارت نے افغانستان میں امن کیلئے کی جانے والی کوششوں کو ابھی تک دل سے تسلیم نہیں کیا۔بھارت کو علم ہے کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہوگیا تو وہ افغانستان سے بیدخل کر دیا جائے گا۔پاکستان میں دہشت گردی کرانے کیلئے بھارت افغانستان میں قدم جمائے رکھنا چاہتا ہے۔ افغانستان میں بھارت دہشت گردوں کو مالی وفنی امداد دے کر پاکستان بھیج رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے اسی سلسلے میںانکشاف کیاکہ افغانستان سے پاکستان میں شدت پسندوں کی مدد کی جا رہی ہے۔ بھارت ان دہشتگرد تنظیموں کو اسلحہ، پیسے اور نئی ٹیکنالوجی سے بھی نواز رہا ہے۔ جس کا مقصد دہشت گردوں کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ یہ بات بعید ازقیاس نہیں ہے کہ یہ سب کارروائی افغان انٹیلی جنس کے علم میں ہے۔دوسری طرف مودی صاحب امن کی مالا جاپتے ہوئے پاکستان کو نیک خواہشات اور امن کا پیغام دیتے نظر آتے ہیں۔ مودی کے اسی بیان پر آرمی چیف نے ہمسایہ ممالک کی جانب امن کا ہاتھ بڑھانے کی بات کی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان مشرقی سرحد پر درپیش خطرات سے آگاہ نہیں ہے۔ بھارت کی تمام فوجی نقل و حرکت ہماری نظر میں ہے۔ پاکستان ان خطرات سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ بھارت کبھی افغانستان میں امن نہیں چاہے گا۔پاکستان بار بار امریکا کو باور کراتا آیا ہے کہ بھارت کی دلچسپی افغانستان میں بدامنی پھیلانے میں ہے۔پاکستان عرصہ سے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال کی بھی شکایت کرتا آیا ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں بھارت کے خلاف ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ ڈوزیئرزفراہم کیے ہیں جن میں بھارت کی طرف سے تشدد کو بڑھاوا دینے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ان ڈوزیئرزمیں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے افغان سرزمین پر سرگرم پاکستان مخالف طالبان گروپوں اور بلوچ دہشتگردوں کے مابین گٹھ جوڑ کرانے کا خاص طور پر ذکرکیا گیا ہے۔ پاکستان میں اب دہشت گردوں کے منظم اور محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں لیکن چند عناصر موجود ہیں جو دوبارہ فعال ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں بیرونی ایجنسیوں کی جانب سے اسلحے کی فراہمی اور مالی معاونت مل رہی ہے۔سکیورٹی فورسز نے باقی ماندہ شدت پسندوں کے خلاف بہت جارحانہ کارروائیاں شروع کی ہیں اور تازہ تشدد اسی کا ردعمل ہے۔ گذشتہ دنوں شمالی وزیرستان میں خواتین پر حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اب اس علاقے میں کوئی منظم گروہ باقی نہیں رہ گیا اور چھوٹے موٹے شدت پسند مختلف ناموں سے کارروائیاں کر رہے ہیں جن کا جلد ہی مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔گزشتہ ماہ بلوچستان کے علاقے کیچ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے گیارہ کان کنوں کے قتل سے تعلق کی بنا پر چند افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ بہت اہم گرفتاریاں ہیں جس کی تفصیلات بتاناقومی سلامتی کے حوالے سے ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے افغانستان میں 40 سال سے انتشار ہے ۔افغانستان کے انتشار سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔ اس انتشار کی وجہ سے افغانستان ، پاکستان میں اختلاف اور، شکوک و شبہات پیدا ہوئے اور ان شکوک و شبہات کو ہوا دینے والا بھارت امریکی گوداور افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے۔ افغانستان میں باہر سے کوئی مداخلت کبھی کامیاب نہیں ہوئی ۔ جیسی حکومت چاہیں اس کا انتخاب کرنا افغان عوام کا فیصلہ ہونا چاہئے۔ افغانستان، پاکستان کے بہتر تعلقات کا سب سے زیادہ فائدہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کو ہو گا۔ پاکستان سے زیادہ کوئی کوشش نہیں کر رہا کہ افغانستان میں امن ہو۔ موجودہ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ افغان امن عمل کامیابی سے ہمکنار ہو۔پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ پرتشدد واقعات میں کمی آئے اور افغانستان میں سیز فائر ہو اور امن و استحکام آئے ۔ اللہ سے د عا ہے پاکستان اور افغانستان میں بھی اوپن بارڈر تجارت ہو۔ امریکہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کے کردار اور کوششوں کو سراہتا تو ہے مگر کھل کر اس کا اظہار اس لئے نہیں کرتا کہ وہ بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ ایک طرف واشنگٹن افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے سے متعلق پاکستان کی تعریف تو کر رہا ہے۔ تاہم ساتھ ہی افغانستان کے جنگجو گروہوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے کے الزامات بھی لگا رہا ہے۔ اسی طرح امریکی محکمہ دفاع نے کانگریس کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں پاکستان پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں کو اپنی سرزمین پر پناہ فراہم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے افغان طالبان کی امن مذاکرات میں شرکت کی حوصلہ افزائی ضرور کی۔ پاکستانی حکومت کی پالیسی ہمسایوں کی جانب امن کا ہاتھ بڑھانا ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ افغان طالبان مذاکرات کے معاملے پہ غور کر رہی ہے بلکہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات آج کل دوحہ میں جاری ہیں۔ امید ہے کہ ان سے بہتر نتیجہ نکلے گا۔ پاکستان کا اس معاملے پر یہی موقف ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات جاری رہنے چاہئیں اور اس میں تعطل بالکل نہیں آنا چاہیے۔ پاکستان افغان امن مذاکرات کا حامی ہے۔ افغانستان میں امن ہوگا تو وہاں بھی دہشت گردی ختم ہوگی اور سرحد پار سے دہشت گرد وطن عزیز میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ جہاں تک پاک ایران سرحد پر باڑ لگانے کا تعلق ہے تواس سلسلے میں پاکستان اور ایران نے معاملہ باہمی طور پر حل کر لیاہے۔حالیہ دنوں میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایران کا دورہ کیا تھا اور سرحدی باڑ پر ایران کے تحفظات دور کر دیئے تھے۔