اُردو ادب میں بعض نسوانی آوازیں اپنی تاثیر اور گہرے احساس کی بدولت دیر تک اور دُور تک سنی جاتی رہیں گی۔ ہمارے ادب کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں ایسی آوازیں تسلسل کے ساتھ سُر اور لَے میں ڈھلتی رہی ہیں۔ کہیں فکشن کی دنیا میں خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کے نقوش ثبت ہیں تو کہیں جمیلہ ہاشمی اور سائرہ ہاشمی کے ناولوں، افسانوں کی دھوم ہے۔ جوڑیاں تلاشنے یا تراشنے کے شوق میں بعض لوگوں نے کراچی سے ایک ساتھ مشاعروں میں توجہ حاصل کرنے والی شاعرات فاطمہ حسن اور شاہدہ حسن کو بھی ہم لاحقہ ہونے کی بنا پر بہنیں سمجھ لیا، لیکن اتفاق سے یہ اتفاق حقائق کے مصداق نہیں ہے۔ البتہ لمحۂ موجود میں دو شاعرات بہنیں خصوصی توجہ اور داد کی متقاضی ہیں۔ پہلے نمبر پہ بڑی بہن عمارہ عامر خٹک ہیں، جو پیشے کے اعتبار سے بیوروکریٹ ہیں اور اہم انتظامی عہدوں پر فائز چلی آ رہی ہیں لیکن ہمارے نزدیک ان کا مضبوط حوالہ شاعری کا ہے۔ ایک زمانے میں اُن کا کلام پاکستان کے معروف ادبی رسائل کی زینت رہا ہے۔ عمارہ خٹک کا پہلا شعری مجموعہ ’چراغِ سرِ مژگاں‘ کے عنوان سے اشاعت پذیر ہوا ہے۔آنسوؤں کو چراغ یا ستارے سے تعبیر کرنے کی روایت اگرچہ قدیم ہے۔ اصغر گونڈوی کا یہ خوبصورت شعر آج تک حافظے میں حلاوت کا سبب ہے: کیا مِرے حال پہ سچ مچ انھیں غم تھا قاصد تُو نے دیکھا تھا ستارہ سرِ مژگاں کوئی؟ عمارہ خٹک کے اس مجموعے میں بھی یہ تلازمہ لَو دے رہا ہے۔ یہ مجموعہ جو غزلوں نظموں کے خوبصورت احساسات سے مزین ہے، اور جس میں نسوانی نزاکتیں، سماجی بلوغت کے ہم رکاب ہوتی دکھائی دیتی ہیں، چند اشعار ملاحظہ ہوں: شہرِ وفا میں اپنے دل کی بولی آج لگا دیتے ہیں دیکھیں جذبوں کے بیوپاری اُس کی قیمت کیا دیتے ہیں؟ صفر کے ہندسے جیسی عورت سب ہندسوں میں بے قیمت ہے جس کا مول بڑھانا چاہیں، اُس کے ساتھ لگا دیتے ہیں ہم نے تو جتنے خط کھینچے اِک دُوجے سے جا ٹکرائے کون مصور ہوتے ہیں جو قوس سے قوس ملا دیتے ہیں! دوسری بہن عبیرہ احمد ہیں جن کے ہاں شعر، شعور کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کے مضبوط قدموں کے ساتھ ارتقا کا سفر طے کرتا دکھائی دیتا ہے۔ عبیرہ احمد تہذیب اور شائستگی میں گُندھی ہوئی اداس روح ہے۔ اس کے شعور اور سطور میں ایسی کسک اور تاثیر مستور ہے جسے دل سے دل تک منتقل اور مستقل ہونے میں کسی دقت کا سامنا نہیں ہوتا۔ عبیرہ احمد اُردو زبان و ادب کی استاد اور اُردو ہی میں پی ایچ۔ڈی کی طالبہ ہے۔ قبل ازیں اس کی کتاب ’’جدید اُردو افسانے میں فنتاسی‘‘ نے ادبی حلقوں کو چونکایا تھا اور اب ان کے شعری پراگے ’’لکھتے رہنا‘‘ کی تیکھی نظمیں محسوسات کے خارزار میں ننگے پاؤں کھڑی ہیں۔ شاعری میں ذہانت اور متانت اس کا انتخابی نشان ہے۔ اُردو نظم کے ساتھ اس کی کومٹ منٹ ازلی اور قلبی ہے۔ وہ ہمارے دوغلے سماجی رویوں سے نالاں بھی ہے اور شکوہ بر زباں بھی۔ اُس کی ایک مختصر سی نظم ’دعویٰ‘ ملاحظہ ہو، صنفِ لطیف کی محدودیت اور جبر و صبر کایہ دعویٰ اُس نے مرد غالب معاشرے پر دائر کیا ہے۔ یہ نہ صرف مظلوم عورت کا سلگتا ہوا شکوہ ہے بلکہ ایک باشعور لڑکی کا احتجاج بھی ہے۔ انسان کے نام نہاد ضابطوں کے خلاف احتجاج، خلق کے مبہم رویوں کے خلاف احتجاج، معاشرے کے خود ساختہ معیارات کے خلاف احتجاج: تنہائی میرا حصہ ہے/ خاموشی میری ماں بولی/ وحشت دیدہ راتیں مجھ پر آغوش کشا/حق ہے میرا سنّاٹے پر ایک اور نظم کی یہ لائنیں بھی ملاحظہ ہوں: سوچتی ہوں شہرتیں / آبرو ریزی سے کچھ کم تو نہیں/ آج میرے لفظ سب کے سامنے بے پردہ ہیں/ جو بھی جس کے ہاتھ آئے گا/ اٹھا لے جائے گا… ہمارے ہاں عورت اگر ملازمت یا کاروبار نہیں کرتی تو اس کی خدمات اور جذبات کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ اس کے زندگی کے جُوے میں سانس سانس جُتے رہنے کی گنتی ہی نہیں ہو پاتی۔ عبیرہ احمد کی نظم ’خاتونِ خانہ‘ میںگھریلو عورت کے گِرد مصروفیات کے شکنجے کی یہ صورتِ حال دیکھیے: بچے کو بہلانا ہے/ دھونی ہے ابھی پوشاک/ جھاڑو دینا/ گھر کا ساماں ڈھو کر لانا ہے/ ہانڈی دَھر/ بچے کا گیلا سُوکھا کرنا ہے/ کرنی ہے مہمان کی خاطر/ باغیچے میں پھول اُگانا ہے/ لکڑی کاٹ کے کُٹیا کو پھر سے چمکانا ہے/ پیراہن کی شکنیں بھی کرنا ہیں مجھے درست/ چھوٹے بچوں کو رکھنا ہے ہر دم گرم اور چُست/ کھیتوں سے چن کر لانی ہے ابھی تو مجھے کپاس/ اور بیمار کی خواہش ہے مَیں ٹھہروں اس کے پاس… ’لکھتے رہنا‘ ہماری اس شاعرہ کی کتاب کا عنوان ہی نہیں منشور بھی ہے۔ اس خاموش طبع لڑکی کی زبان نہیں قلم بولتا ہے۔ اس کے قلم کی زبان سے نکلتی روشنائی کاغذ پر آتے ہی روشنی میں تبدیل ہو جاتی ہے: لکھنے والے ہاتھ مجھے اچھے لگتے ہیں/ لکھتے رہنا/ جی دُکھتا ہے/ چاروں جانب/ ہاتھوں کے انبار پڑے ہیں/ اتنے اچھے ہاتھ کہیں بے کار پڑے ہیں/ اچھی باتیں سب لکھتے ہیں/ تم اچھا لکھتے ہو/ تم جیون کے سب آزار بھی لکھنا/ مَیں اِس پار سے لکھوں گی/ تم اُس پار سے لکھنا… آخر میں اس کے منفرد مجموعے سے آگہی کی کیفیت اور مشاہدے کی نوعیت سے چھلکتی نظم کے یہ بند دیکھیے: آدھے دن کا کام تھا ، مَیں نے پوری عمر بِتا دی/ڈرتے ڈرتے دروازے کی اوٹ سے باہر جھانکا/ہر ملنے والے کو پرکھا ، ہر احساس کو آنکا/کھل جاتا تھا ہر دستک پہ ایک پرانا ٹانکا/ایک کواڑ ذرا سرکایا اور زنجیر چڑھا دی/آدھے دن کا کام تھا ، مَیں نے پوری عمر بِتا دی/تیرے نام پیام لکھے پر کبھی نہ سچ لکھ پائی/میرے اندر کی عورت نے آدھی بات چھپائی/لوگوں میں مشہور کیا مَیں نے تجھ کو ہرجائی/نادم ہو کر نظم لکھی ، کچھ سوچا اور مٹا دی/آدھے دن کا کام تھا ، مَیں نے پوری عمر بتا دی۔