محترمہ بینظیر بھٹو کی 68 ویں سالگرہ پورے ملک کی طرح وسیب میں بھی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی۔ تقریبات کا اہتمام ہوا اور محترمہ کی جمہوریت کیلئے قربانیوں کو سلام پیش کیا گیا لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ دن چاہے سالگرہ کا ہو یا برسی کا محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا دکھ اس میں شامل ہو جاتا ہے۔ سالگرہ کی تقریب بھی سوگوار گزرتی ہے۔ اس موقع پر وسیب سے تعلق کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ آج کل پیپلز پارٹی کی سرائیکی قیادت کی نا اہلی کی وجہ سے وسیب میں شناخت کے مسئلے پر تنازعہ کھڑا کرا دیا گیا ہے حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو نے وسیب کے تشخص کو تسلیم کیا تھا مگر موجودہ قیادت کی اپنی ترجیحات ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بھٹو خاندان کو سرائیکی وسیب اور سرائیکی وسیب کو بھٹو خاندان سے محبت ہے، محترمہ کی شہادت پر سب سے زیادہ شاعری سرائیکی میں کی گئی۔ محترمہ نے ایک نظم طویل نظم لکھی۔اس طویل نظم میں سے چار لائنوں کا مفہوم یہ ہے کہ اس جیون کا کوئی فائدہ نہیں جو ملتان ، کیچ مکران ، ملک مہران اور شہر مردان سے دور ہو ۔ یہ محض اتفاق ہے یا قدرتی طور پر ایساہوا ہے کہ نظم میں لاہور ،پنڈی ، یا پوٹھوہار کا ذکر نہیں ہے، شاید اس وجہیہ تھی کہ پنڈی سے محترمہ اور ان کے والد کی لاشیں گئیں۔ میں ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کے جلسوں میں چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر ، بے نظیر ۔ محترمہ بے کے نعرے لگتے ہیں مگرنظیر بھٹو کی شہادت کے بعد یہ زنجیر ٹوٹ گئی ۔ محترمہ کی سالگرہ کیونکہ گزشتہ روز ملک بھر میں منائی گئی اس لیے ان کی سیاسی زندگی کے بارے میں جاننا ضروری ہے کہ وہ سیاست کی آبرو اور پاکستان کے غریب عوام کی آس امید اور تمنا تھیں ، ان کا قتل کروڑوں جمہوریت پسند غریب انسانوں کی آرزئوں کا قتل تھا۔ لیاقت باغ راولپنڈی میں اپنی شہادت سے کچھ دیر پہلے محترمہ بینظیر نے کہا کہ کہ پنڈی نے مجھے بہت دکھ دیئے ہیں اور کچھ خوشیاں بھی ، انہوں نے کہا کہ پی پی کی تاریخ جدوجہد سے بھری پڑی ہے ، میرے والد جابر قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہوئے اور تختہ دار پر چڑھا دیئے گئے ۔ میرے دو بھائی قتل ہوئے۔ میری ماں کا لاٹھیوں سے سر پھاڑ دیا گیا۔ مجھے قدم قدم پر اذیتیں دی گئیں ۔ میں جیلوں کے اندر رہ کر بھی جمہوریت کیلئے لڑتی رہی۔ آمروں نے ہمیشہ جمہوریت کا راستہ روکا۔ میرے کراچی کے جلسے میں دھماکے کرائے گئے ، ہم نے اپنے سینکڑوں کارکنوں کے لاشے اٹھائے۔سیاسی یتیم کہتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اب کبھی واپس نہیں آئیں گی لیکن میں تمام خطرات کو ایک طرف رکھ کے واپس آئی ہوں کہ میں موت سے نہیں ڈرتی اور اپنے وطن کے لوگوں کے ساتھ جینا مرنا چاہتی ہوں ۔محترمہ کو پاکستان کے دوسرے خطوں کی طرح سرائیکی وسیب سے بہت محبت تھی ، انہوں نے شہادت سے قبل وسیب میں بہت جلسے کئے اور ہر جگہ لفظ سرائیکی وسیب پکارا لیکن آج بلاول بھٹو نے برسی پر لفظ جنوبی پنجاب استعمال کیا جو کہ محترمہ کی تعلیم سے روگردانی ہے۔ جس طرح سندھ کی تاریخ بہت قدیم ہے اسی طرح وسیب کی تہذیب بھی پرانی ہے ، ثقافتی جغرافیائی سانجھ بھی بہت پرانی ہے ۔ سندھ اور وسیب کے لوگ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہے ان کی زبان ، ثقافت ایک رہی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے سندھ اور وسیب میں بسنے والی قومیں اور ذاتیں نا صرف ایک ہیں بلکہ ان کے درمیان زمانہ قدیم سے رشتہ داریاں بھی ہیں ۔ دونوں خطوں کے لوگ ایک ہی طرح کی تہذیبی ، ثقافتی اور جغرافیائی مسائل کا شکار رہے ہیں ، دونوں خطے زمانہ قدیم سے حملہ آوری کی زد میں رہے ۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ دونوں کے درمیان دکھ کی سانجھ قدرتی اور فطرتی طور پر موجود ہے ۔اسی سانجھ نے دونوں کو اپنائیت کے دھاگے میں میں پرو رکھا ہے ۔ اسی بات کا سب سے زیادہ احساس دیدہ ور سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو تھا ۔ انہوں نے جس طرح اپنی ماں دھرتی سندھ سے محبت کی اُسی طرح وسیب سے بھی محبت کی۔ لیکن آج مہاجر صوبے کے خوف سے سندھ کی قیادت نے وسیب سے آنکھیں پھیر لیں ہیں۔ شہادت سے تین دن پہلے بہاولپور کے جلسہ عام میں محترمہ نے کہا کہ مجھے اورمیرے بزرگوں کو بہاولپور سے پیار ہے ، یہ حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی اور جلال الدین سرخ بخاری کی دھرتی ہے ، میرے دادا میر مرتضیٰ بھٹو کو انگریز دور میں یہاں پناہ ملی ،ہم بر سر اقتدار آ کر اس شہر میں زراعت کی ترقی، بے روزگاری کے خاتمے اور اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لئے اقدامات کریں گے ۔ افسوس کہ محترمہ کے فرمان کے بر عکس چار سالوں میں موجودہ حکومت نے نہ تو بہاولپور میں کوئی تعلیمی ادارہ قائم کیا اور نہ کوئی صنعت قائم ہوئی نہ زراعت کو ترقی ملی اور چولستان میں زمینوں کی بندر بانٹ بند ہو نے کی بجائے بڑھ گئی ، آج وسیب میں گندم کے کھلے عام گودام بھرے ہیں لیکن لوگ بھوک سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں ، کپاس ان کی ہے مگر کارخانے کہیں اور ہیں اور گارنمنٹس کا ایکسپوٹر کوئی اور ہے ۔ وسیب سمیت تمام پسماندہ علاقوں کو پسماندگی ختم کرنے کیلئے ترقی کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی جو نہیں کی گئی ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پی پی کی موجودہ قیادت نے وسیب کے لوگوں کو صوبہ شناخت اور سرائیکی بنک بنانے کے خوش کن خواب دکھائے اور دن رات سرائیکی صوبہ سرائیکی صوبہ کا ماحول اس طرح بنایا کہ لوگوںکی خوش فہمی آسمان پر پہنچ گئی ، مگر اٹھارہویں ترمیم کے موقع پر سرائیکی قوم کی بات نہ سنی گئی اور صوبے کا راستہ روکنے کیلئے ضیا الحق کی ترمیم کو برقرار رکھا گیا۔ صوبہ تو کیا سرائیکی بنک بھی نہ بنایا اور سرائیکی قوم کو شناخت دینے کے بجائے صوبے کا نام ’’جنوبی پنجاب‘‘ تجویز کیا اور بہت سے علاقے صوبہ بننے سے پہلے کاٹ دئیے۔ آج اگر بی بی زندہ ہوتی تو پی پی کی موجودہ قیادت سے پوچھتی کہ کیا ایسے سیاست اور قوم کی رہنمائی کی جاتی ہے ؟