مجھ کو میری ہی اداسی سے نکالے کوئی میں محبت ہوں محبت کو بچالے کوئی میں محبت ہوں مری تہہ میں صدف ہے شاید موج در موج مجھے آئے اچھالے کوئی یہ اداسی بڑی عجب شے ہے کبھی کبھی یہ بے سبب ہوتی ہے اور کبھی کئی مسئلوں کا سبب۔ بہرحال ناصر کاظمی کے ہاں تو یہ درو دیوار پر بال کھولے ہوتی ہے مگر کوئی اس کا حل ڈھونڈے تو وہ بھی اداسی کے سوا کچھ نہیں حل نکالا ہے یہ اداسی کا۔ اب مکمل اداس رہتا ہوں۔ کہاں آ کر ایک شعر نے بازگشت کی۔ یہ اداس ٹھنڈک جو بسی ہے اس بدن میں۔ کہیں بجلیاں نہ بھر دے کسی گوشہ چمن میں۔ شعیب بن عزیز کیوں یاد نہ آئیں۔ اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں اس طرح تو ہوتا اس طرح کے کاموں میں آپ اداس نہ ہو جائیے گا یہ تو ایک تمہید تھی۔ بات تو مجھے بہت امید افزا کرنی ہے کہ ابھی ایک خوشگوار خبر نظر نواز ہوئی کہ ایک بینائی سے محروم پاکستانی مصور نے عمران فیصل نے جس کا تعلق فیصل آباد سے ہے جرمنی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ میرا دھیان لفظ مصور کی طرف گیا اور متجسس ہوا کہ آخر وہ تصویر کشی کیسے کرتا ہو گا لائٹ فوٹو گرافی میں تو اس کی دلچسپی ہے اپنے دوست تیمور حسن تیمور کا شعر یاد آ گیا کہ وہ بھی بینائی سے محروم ہے اور ڈاکٹریٹ بھی اردو میں کر چکا ہے: تجھ کو دیکھا نہیں محسوس کیا ہے تجھ کو تیری اندازے سے تصویر بنا سکتا ہوں بہرحال ایک نابینا شخص خواب تو دیکھتا ہے اور اپنے خوابوں کے خاکوں میں وہ رنگ بھی بھرتا ہو گا قدرت نے ان کو متبادل کسی صلاحیت سے مالا مال کر رکھاہوتا ہے انگریزی میں میرا کلاس فیلو پیٹرک بھی تھا اور مریم بھی تھی۔ پیٹرک کا حافظہ اس قدر زیادہ تھا کہ وہ باہر آ کر کسی بھی لیکچر کے مشکل الفاظ یا نکات بیان کر دیتا تھا۔ حیرت ہوتی تھی میں نے اس کے ساتھ انگریزی بولنے کی بھی پریکٹس کی تھی کہ اس کے سامنے بولتے ہوئے شرم نہیں آتی تھی۔ وہ غلط انگریزی پر دھیرے سے مسکرا دیتا۔ بعض اوقات یہ لوگ اظہار میں مختلف اور خوبصورت ہوتے ہیں۔ اقبال عظیم کا نعتیہ شعر تو کبھی یاد سے محو نہیں ہوا: بصارت چھن گئی مجھ سے بصیرت تو سلامت ہے مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ ساتھ ہی مجھے فراز صاحب کا لازوال شعر بھی یاد آ گیا کہ یہاں نابینا بن کر رہنا ہی بھلے کی بات ہے کہ آنکھیں رکھنے والے کو لوگ کہاں برداشت کرتے ہیں: یہی کہا تھا میری آنکھ دیکھ سکتی ہے تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا واقعتاً ایسا ہوتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ آپ آنکھیں رکھتے ہوں اور آپ کو نظر بھی آئے مجھے یاد آیا کہ کہیں پڑھا تھا کہ اکبر کے رتنوں میں کسی نے بادشاہ سے کہا کہ اکثر لوگ آنکھیں رکھ کر بھی نہیں دیکھتے۔ بادشاہ نے دلیل مانگی تو وہ رنگ وہاں ایک چارپائی رکھ کر اسے بننے لگا۔ وزراء کو ایک ایک کر کے وہاں بلایا گیا بادشاہ چھپ کر یہ منظر دیکھتا رہا۔ جو وزیر بھی اندر آتا پوچھتا ہاں جی یہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ رتن آرام سے چارپائی بنتا رہا۔ تقریباً سب نے آ کر یہی سوال دہرایا کہ جناب کیا ہو رہا ہے۔ دوتین تھے جو سلام لے کر ایک طرف بیٹھ گئے بادشاہ باہر آ گیا تو اس دانا رتن نے کہا حضور! یہ سب سوال پوچھنے والے اندھے ہیں اور صرف دو تین ہیں جنہیں نظر آتا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ ویسے کیا ایسے ہی نہیں کہ ہمارے ہاں ہر سطح پر بن دیکھے ہی کام سرانجام دیے جاتے ہیں وہ معاملہ جو اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہوتا ہے یہ کرتا دھرتا آرام سے چشم پوشی کر جاتے ہیں یا واقعتاً وہ بینائی نہیں رکھتے دوسری مزے کی بات یہ کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ لوگ اندھے ہیں انہیں ان کے کام نظر نہیں آ رہے یعنی وہ سب بادشاہ ہیں۔ اب دیکھیے ناں صاف کہا جا رہا ہے کہ مافیاز کو شکست ہوئی ہے نہ مذاق کی بات۔ بچہ بچہ دہائی دے رہا ہے کہ مہنگائی نے مار دیا۔ ظاہر ہے مافیاز حکومت کیا کسی کے بھی کنٹرول میں نہیں۔ آٹا 70روپے کلو ہو چکا چینی روز افزوں گرانی میں اور سننے میں آ رہا ہے کہ روٹی اور نان بھی نان سٹاپ ہیں‘ ان کی قیمتیں بڑھیں گی عام آدمی کا بھی اس پر یقین ہے کہ جس بھی چیز کا نوٹس تبدیلی حکومت لیتی ہے وہ غائب ہو جاتی ہے یا بہت مہنگی پتہ چلا ہے کہ یہ مافیاز بھی وائرس کی طرح نظر نہیں آتا یا پھر دیکھنے والے انہیں دیکھتے نہیں۔ ویسے نوشتہ دیوار نہ پڑھنے والا بھی تو اندھا ہی ہوتا ہے: کیسے منظر سے ہٹے ہیں ہم بھی نظر انداز کیا ہے اس نے بہرحال کھیل جاری ہے وہی جسے ’’باندر کلا‘‘ کہتے ہیں اس میں سب کھلاڑی اپنے اپنے جوتے رکھ کر کلے کے ساتھ یہ باندھ کر کھلاڑی کو پکڑا دیتے ہیں اور اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتے ہیں۔ وہ کلے کے اردگرد گھومتا ہے کھلاڑیوں کو کلے کے اردگرد پڑی جوتیاں اٹھانا ہوتی ہیں اگر گھومنے والا کھلاڑی کسی کو ہاتھ لگا دے تو اسے بندر بنناپڑتا ہے۔ اگر سب کھلاڑی جوتے اڑا لیں تو پھر باری دینے والے کو آگے بھاگنا ہوتا ہے اور سب اس کو پیچھے سے جوتے مارتے ہیں۔ اب باندر کلے سے میرا دھیان موجودہ حالات کی طرف چلا گیا معاف کیجئے گا حالات کی وجہ سے باندر کلا یاد آیا تھا۔ اپوزیشن تیز ہو گئی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ سلیکٹڈ وزیر اعظم والا تجربہ ناکام ہو گیا یا بہت مہنگا پڑا اب سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ تجربہ کیا کس نے؟جواب میں حکومت کہہ رہی ہے کہ انہوں نے ملک کو سفارتی تنہائی سے نکالا۔ تاہم چار ماہ سے تو سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ اکثریت تنہائی کا شکار ہو گئی بات پھر وہیں آتی ہے کہ ہم خارجی طور پر دلچسپی رکھتے ہیں کہ داخلی طور پر ہم کچھ بھی دیکھنے سے قاصر ہیں۔ نزدیک کی نظر ہماری خاصی کمزور ہے اور تو اور ہمیں اپنے ڈاکو چور کبھی نظر نہیں آئے اور دوسروں کے ڈاکو چور فوراً دکھائی دے جاتے ہیں۔ محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے ہم آئینہ نہ رہے تم کو روبرو کر کے کھیل جاری ہے اور وقت بہرحال گزر رہا ہے حکومت نے دو سال پورے کر لئے تھے وہ تو زرداری نے بھی پانچ سال پورے کر لیے تھے ضیاء الحق اور مشرف نے ڈبل ڈبل وقت لگایا۔ بنیادی بات یہ کہ اس میں کمال تو عوام کا ہے۔ کس کو نظر نہیں آ رہا کہ بدترین دور گزر رہا ہے اور دیکھنے والے سب کچھ دیکھ رہے ہیں مگر کیا کریں: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا