’’بھائی ! دل خون کے آنسو روتا ہے ،سچ کہتا ہوں کراچی اپنی تاریخ کے بدترین دنوں سے گزر رہا ہے پورا شہر کچی آبادی کی کچرہ کنڈی بن چکا ہے کیا خدا کی بستی اور کیا ڈیفنس سب کا ایک ہی دکھ ہے ‘‘۔سید صاحب سردآہ بھرنے کے بعد کہنے لگے یہ وہ کراچی ہے ہی نہیں جو میری یاداشتوں میں محفوظ ہے ۔کراچی صرف بلدیاتی تنزلی کا ہی شکار نہیں ہوا بلکہ معاشرتی اور تہذیبی طورپر بھی بہت پیچھے چلا گیا ہے،سید شوکت سلطان میرا وہ اثاثہ ہیں جنہیں کراچی میں چھوڑنے کا قلق شائد کبھی ختم نہ ہو ،سید صاحب میرے دوست ہی نہیں وضعداری کی چلتی پھرتی تصویر ہیں وہ جوانی میں بھرپور سیاسی کارکن رہے ہیں اور اس کراچی کے چشم دید گواہ ہیں جسے ہم کتابوں میں روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد پڑھا کرتے ہیں ۔دو برس پہلے جب میںکراچی میںتھا تو سید صاحب سے خوب ملاقاتیں رہا کرتی تھیں۔ سید صاحب میرے دفتر کے نیچے چھٹی کے وقت منتظر ہوتے۔ مجھے اپنی کار میںبٹھاتے اور سیدھا کلفٹن پہنچ جاتے وہاں اپنے اور میرے لئے مشروب لیتے اور چھوٹے چھوٹے گھونٹ بلکہ چسکیاں سی لیتے ہوئے سمندر کنارے بچھی سڑک پر چلتے چلے جاتے۔ ان کے سینے میں ان خبروں کا ذخیرہ ہے جو کسی اخبار میں چھپیں نہ کسی نیوزچینل کے پروگرام میں آئیں۔ ہم دونوں خوب باتیں کرتے بلکہ میں تو سنتا رہتا سید صاحب ہی بولتے تھے ۔کبھی وہ مشاعروں کا ذکر کرتے ،کبھی کسی ادیب شاعر سے نجی ملاقاتوں کا احوال بتاتے کبھی چونکا دینے والے انکشافات کرتے اور اس بے سمت گفتگو کا سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا جب تک نیند میری پلکوں کا وزن بڑھانے نہ آجاتی۔آج میں اسلام آباد میں ان سب مسائل سے دور ہوں جنہوں نے انہیں اور کراچی والوں کو محصور بنا رکھا ہے لیکن میرادل بہت کڑھتاہے۔ پورا کراچی گجر نالہ اور لیاری ندی بن چکا ہے۔ غلاظت کیچڑ تعفن ،ادھڑی سڑکیں ،کے الیکڑک کی غنڈہ گردی ،بلدیاتی اداروں کا اپنا ماتم ،بے ہنگم ٹریفک کی اپنی بین ۔۔۔کون سے مسئلے کی جونک ہے جو کراچی سے چمٹی اسکا لہو نہ نچوڑ رہی ہو۔نیوز چینلز کراچی کا حال دکھا دکھا کر اور دل دکھا رہے ہیں۔ایسے میں مجھے سید صاحب کی یا د آئی تو میں نے انہیں فون کر لیاسید صاحب نے بتایا جو حال پورے شہر کا ہے وہی نارتھ ناظم آباد کا ہے۔ سیدصاحب کہنے لگے مجھے تو لگتا ہی نہیںہے کہ یہ وہی میرا کراچی ہے اگر یہ کراچی ہی ہے تو پھرجس کراچی میں میرا بچپن لڑکپن گزرا وہ کوئی اورکراچی رہا ہوگا،بات سے بات نکلی تو اسی ’’کراچی ‘‘ میں پہنچ گئی جہاں سید صاحب نے آنکھ کھولی اور گھٹنوں گھٹنوں سے پاؤں پاؤں چلنا اور پھر دوڑنا بھاگنا سیکھا وہ مجھ سے فون پر باتیں کرتے کرتے اسی کراچی میں چلے گئے اور ساتھ میں میرا ہاتھ بھی پکڑ لیا۔ ’’یہ مزار قائد کے سامنے لائینزایریا ہے ناں جہاں آپ گجک کھانے آتے تھے یہیں ہمارا گھر تھا۔ والد صاحب سرکاری ملازم تھے ساٹھ یا اسی گزکا چھوٹا سا گھر تھا۔ سامنے چھوٹا سا باغیچہ اورپھر بیس فٹ کی گلی تھی۔ یہ غریب لیکن خود دار لوگوں کی صاف ستھری آبادی تھی۔ روزآنہ گلیاں صاف ہوتی تھیں ۔کچرہ اٹھایا جاتا تھا۔ یہ جو ایم اے جناح روڈ ہے یہ صرف صاف نہیں ہوتی تھی روز دھلتی تھی اور یہ سب تو میںنے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے۔ علی الصباح چار ساڑھے چار بجے میونسپلٹی کا عملہ متحرک ہوجاتا سڑکیں صاف کرنا شروع کردیتا۔ پہلے جھاڑولگایا جاتا اسکے بعد واٹر ٹینکر آتا اور سڑک دھوئی جاتی ۔ان بڑی سڑکوں کو تو چھوڑیں محلے میں بھی کوئی گٹر ابلتا تو میونسپلٹی میں شکایت کردی جاتی اور خاکروب پہنچ جاتے ۔گٹر سے کیچڑ غلاظت نکال کر گلی صاف کردی جاتی ۔۔۔ہائے کیا دن تھے اورکیا تھا میرا کراچی !‘‘۔سید صاحب بتانے لگے ایم اے جناح روڈ پر نمائش چورنگی سے میری ویدر ٹاور تک دونوں طرف گھنے درخت لگے ہوئے تھے۔ یہاں سے کھڑے ہو کر دیکھو تو لگتا تھا کہ کوئی سبز سرنگ سی ہے، پیپل اور برگد کے گھنے درخت تھے ،یہ جو سفید ے کا درخت ہے نایہ تو ایوب خان کا تحفہ ہے یہ ترکی گئے تھے اور یہ درخت انہیں وہاں نظر آیا تھا اور اتنا پسند آیا کہ ساتھ لے آئے اور لگے ہاتھوں ایک بات اور جان لو یہ منی بسیں بھی ایوب خان کے دور میں چلی تھیں۔ یہ بھی انہیں ترکی میں نظر آئی تھیں جس کے بعد یہاں لائی گئیں اور پھر ان کے پرمٹ سیاسی رشوت کے طور پر بانٹے گئے ۔ اس سے پہلے تو یہاں گھوڑا گاڑی ،بسیں اور ٹرام چلا کرتی تھی۔ صدر میں ہمدرد دوا خانے کے سامنے ٹرام کا اسٹیشن تھا ۔روز رات انہیں دھویا جاتا تھا اور یہ شہر صرف صفائی ستھرائی یا سہولتوں میں ہی منفرد نہیں تھا اس وقت کے لوگ بھی بڑے مہذب ، قانون پسند اور باکمال تھے۔ حسب نسب اور صاحب کردار کی عزت ہوا کرتی تھی ہمارے محلے میں سب سے غریب سامنے والے لین میں خالو جان تھے لیکن سب سے زیادہ عزت انہی کی تھی کہ وہ صوم صلوۃ کے پابند اور اجلے کردار کے تھے ۔ان کے گھر کے ساتھ ہی بڑاسا میدان تھا جہاں ہم پتنگیں اڑاتے تھے۔ جیسے ہی شام ہوتی ہم اپنی پتنگیں ڈوری لپیٹ کر ایسے بھاگتے جیسے میدان میں کوئی آسیب آنے والا ہو،دراصل خالو جان مغرب کی نماز کے لئے نکلتے اور اگر کوئی بچہ میدان میں پتنگ اڑاتا مل جاتا تو اسکی ڈور توڑ کر دو لگاتے کہ دیکھ نہیں رہے شام ہوگئی ہے اور ابھی تک پتنگ بازی کر رہے ہو کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ خالو کو پلٹ کر کچھ کہہ دیتا۔بڑے بوڑھوں کا ایسا ہی احترام تھا۔ آپ اس سے اندازہ لگاؤ کہ میںقد کاٹھ نکال چکا تھا لیکن میری ہمت نہ تھی کہ میں محلے میں سگریٹ سلگا لیتا۔میں سگریٹ پینے کے لئے پیدل صدر جاتااور کش لگاتا تھا۔ وہاں بھی ایک بار محلے دار نے دیکھ لیا ۔اس نے رکھ کر دو لگائیں اورکہا کہ ابھی جا کر آپ کے والد کو بتاتاہوں تو میں نے ہاتھ جوڑ لئے کہ دو اور لگا دیںلیکن ابا کو مت بتایئے گا۔آج وہ کراچی رہا نہ کراچی کا محلہ کلچر۔بس یادیں بہانے کو اشک اور کڑھنے کے لئے دل رہ گیا ہے ۔ یہ صرف ایک سید صاحب کا ہی نوحہ نہیں یہ کراچی کے ہرباسی کا دکھ ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر آج تنزلی کی ڈھلا ن پر لڑھکتا جارہا ہے۔ اقدار ،اخلاقیات کچھ باقی نہیں بچا۔