کیلگری(ویب ڈیسک) ماہرین نے دل کے قریب ہی ایک نیا خلیہ (سیل) دریافت کیا ہے جو دل کی مرمت کرکے انسانوں کو زندہ رکھ سکتا ہے ۔یونیورسٹی آف کیلگری کے ماہرین کے مطابق اس دریافت سے نہ صرف معالجین بلکہ سرجن حضرات کے لیے بھی علاج و سرجری کے نئے طریقے ممکن ہوسکیں گے ۔ہمارا دل مائع بھری ایک تھیلی میں بند ہوتا ہے جسے پیری کارڈیئل فلوئیڈ کہا جاتا ہے ۔ ایک عرصے سے ماہرین اس مائع کو بہت اچھی طرح سمجھنے سے قاصر رہے تھے ۔ لیکن اب سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اس مائع میں قدرتی دفاعی (امنیاتی) خلیات پائے جاتے ہیں۔ یہ خلیات دل کو پہنچنے والے کسی نقصان کا ازالہ کرتے رہتے ہیں۔ ان میں خاص قسم کے GATA6+ خلیات بھی ہوتے ہیں جو جی اے ٹی اے سکس پروٹین بناتے ہیں۔واضح رہے کہ جی اے ٹی اے سکس پلس خلیات خون کے سفید خلیات کی ذیلی قسم ہیں جنہیں طبی ماہرین میکروفیج بھی کہتے ہیں۔اگرچہ یہ دل کے باہر ہی باریک جھلی میں رہتے ہیں لیکن قلب کو کسی نقصان پہنچنے کی صورت میں فوری طور پر نقصان کی جگہ پہنچتے ہیں اور عضو کو تندرست رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلگری کے پروفیسر پال فیڈک اور ان کے ساتھیوں نے GATA6+ کا تفصیلی مطالعہ کرکے اس کا تحقیقی مقالہ ’امیونِٹی‘ نامی جریدے میں شائع کرایا ہے ۔ اس میں چوہوں اور انسانوں پر کئے گئے بعض تجربات کا حوالہ بھی شامل ہے ۔اگرچہ چوہوں کے شکستہ دلوں میں جی اے ٹی اے سکس پلس خلیات کو ڈھونڈنا بہت آسان تھا لیکن حیرت اس وقت ہوئی جب انہوں نے دل کی جھلی کی اطراف بھی انہیں دیکھا۔ اس کے لیے متاثرہ انسانوں کے دلوں کو جائزہ لیا گیا اور وہاں یہ خلیات دریافت ہوئے ۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے کسی ماہر نے اسے کیوں نہیں دیکھا تو اس کا جواب یہی ہے کہ کسی نے پہلے کوشش ہی نہیں کی تھی۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چوہوں کے دل پر جو بھی تجربات ہوئے ہیں اکثر واقعات میں ماہرین پہلے دل کی جھلی نکال باہر کرتے ہیں! اسی وجہ سے پیری کارڈئیم جھلی اور مائع کی تفصیل سے ہم اوجھل ہی رہی۔ ماہرین پر امید ہیں کہ دل کی جھلی کا مائع شفا بخش خلیات سے بھرپور ہے اور شاید یہ دل کے نئے خلیات بھی بناسکیں گے جو کئی صورتوں میں تباہ ہوجاتے ہیں۔لیکن ابھی منزل دور ہے کیونکہ ان خلیات کو مصنوعی طور پر بڑی تعداد میں تجربہ گاہ میں تیار کرنا ہوگا اور اس کے بعد دل تک پہنچانے کے درست ترین طریقے ڈھونڈنا ہوں گے ۔